میاں صاحب کا سیاسی مقدمہ بھی کمزور ہے


سابق وزیراعظم نواز شریف ان دنوں پانامہ کیس کے حوالے سے منی لانڈرنگ کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں، اس سے قبل عدالت عظمی میاں صاحب کو نااہل قرار دے چکی ہے۔ نااہلی کے بعد میاں صاحب بذریعہ جی۔ ٹی روڈ عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاہور پہنچے اور دوران سفر جہاں نااہلی کے فیصلے کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کیا، وہیں قوم کو یہ خوش خبری بھی سنائی کہ وہ تین دفعہ وزیراعظم رہنے، برطرف اور نااہل ہونے کے بعد نظریاتی ہو گئے ہیں، گویا اس سے قبل کسی سیاسی نظریے کے بغیر میدان سیاست میں طبع آزمائی جاری تھی۔

نااہلی کے بعد سابق وزیراعظم جو سیاسی بیانیہ عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں اس میں دو نکات بہت اہم ہیں۔ اول کہ عدلیہ میں اصلاحات اشد ضروری ہیں، دوسرے ووٹ کا تقدس۔ ان دو نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، میاں صاحب کے سابقہ ادوار حکومت سے لے کر، میاں صاحب کی طرز سیاست کا جائزہ لیں، تو میاں صاحب کی سیاست کے حوالے کوئی خوشگوار تاثر قائم نہیں ہوتا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف سیاسی افق پرجنرل ضیاءالحق کے دور آمریت میں ابھرے اور جنرل صاحب کے چہیتے وزیراعلی قرار پائے۔ جنرل ضیاءالحق نے سابق وزیراعظم کو اپنی عمر لگ جانے کی بھی دعا دی، جو بظاہر بارگاہ الہی میں قبول بھی ہو گئی۔ جنرل ضیاءالحق نے جب وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی، تو میاں صاحب کو پنجاب کا نگراں وزیر اعلی بنا دیا۔ نہ ہی مسلم لیگ کو بطور سیاسی جماعت اس پر اعتراض ہوا اور نہ ہی میاں صاحب کو، برطرف شدہ وزیر اعظم کے اعتراض کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں تھی اس لیے انہوں نے بھی خاموشی سادھ لی۔ وطن عزیز میں قومی ا ور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات  16 اور 19 نومبر 1988ء کو یکے بعد دیگرے منعقد ہوئے، قومی اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی، لیکن صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے قبل ”جا گ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ “ کی بازگشت سنائی دی۔ اس نعرے کی پشت پر کون تھا، بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ لیکن اس نعرے کے اثرات صوبائی اسمبلی کے انتخاب پر مرتب ہوئے اور میاں صاحب پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

 اپنے پہلے دور حکومت میں مرحومہ بے نظیر بھٹو بطور وزیر اعظم جب بھی لاہور تشریف لائیں، میاں صاحب نے کبھی ان کا استقبال نہیں کیا اور نہ ہی بطور وزیر اعظم کبھی ان کی تعظیم کی، بلکہ بے نظیر بھٹو اور ان کے والد کے خلاف سیاسی جلسوں میں نفرت انگیز زبان استعمال کرتے رہے اور ایک خاتون وزیراعظم کی کردار کشی کی مہموں کا نمایاں حصہ بنے۔ کیا اس وقت ووٹ کی حرمت کا خیال نہیں تھا؟ بے نظیر بھٹو کے خلا ف جب تحریک اعتماد لائی گئی، تو چھانگا مانگا کی سیاست کا آغاز بھی میاں صاحب نے ہی کیا۔ اس دور میں کھلونوں میں چابی کون بھرتا تھا، قوم اس سے بخوبی واقف ہے۔ بالآخر منتخب حکومت کے خلاف سازشیں کامیاب ہوئیں اور اگست 1990ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی گئی، تو میاں صاحب بھی مٹھائی تقسیم کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ 1990ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کامیاب ہوا اور میاں صاحب ایک دفعہ پھر مرحوم جونیجو کے خلاف سازش کر کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد جلد ہی میاں صاحب کو اندازہ ہوگیا کہ وطن عزیز میں وزیر اعظم بننا آسان ہے، لیکن وزارت عظمی بچانا آسان نہیں۔ لیکن اب تو دیر ہو چکی تھی اور حکومت کا جانا ٹھہر چکا تھا، سو میاں صاحب کی حکومت ان ہی الزامات اور آئینی شق کے تحت برطرف کر دی گئی، جن الزامات کے تحت بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی گئی تھی۔ میاں صاحب عدالت عظمی گئے اور اپنے لیے انصاف حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے لیکن چابی کہیں اور بھری جا رہی تھی، اس لیے صدر اور وزیر اعظم کو بیک وقت اپنے عہدوں سے استعفا دینا پڑا۔

               

نئے انتخابات ہوئے اور ایک دفعہ پھر بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں لیکن میاں صاحب اپنے بھولپن کی وجہ سے جمہوریت کے خلاف ہونے والی سازشوں کو اب تک سمجھنے سے قاصر رہے اور ووٹ کی تقدیس کو اہم نہیں جانا اور ایک دفعہ پھر ان سازشوں کا حصہ بنے کہ منتخب وزیر اعظم کا بوریا بستر بدنام زمانہ آئینی شق کے تحت گول کیا جائے، تاکہ میں پھر وزیر اعظم بن سکوں۔ اس دور میں بھی انتخابی اور غیر انتخابی جلسوں میں میاں صاحب بے نظیر بھٹو اور ان کے والد کے لیے جو زبان استعمال کرتے تھے اور الزامات لگاتے تھے اور جنرل ضیاءالحق کے ایجنڈے کی تکمیل کا وعدہ کرتے تھے، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ سازشیں کامیاب ہوئیں اور ایک منتخب وزیر اعظم کو عہدے کی میعاد پوری نہیں کرنے دی گئی۔ اس دفعہ بھی میاں صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ اب میاں صاحب دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئے اور وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوئے۔ میاں صاحب نے اس دور میں احتساب بیورو بنایا اور سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا، عدالتوں کو فون کر کے اپنی مرضی کے فیصلے لیے، اس دور میں عدلیہ میں اصلاحات کا خیال نہیں آیا کیونکہ خود عدلیہ کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔ انتظامیہ کے ذریعے سیاسی مخالفین پر ریاستی جبر کیا۔ نومنتخب سینیٹر رانا مقبول احمد اسی انتظامیہ کے کارندے تھے جو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کی جاتی تھی۔ اس دفعہ میاں صاحب کو دو تہائی اکثریت کا زعم تھا اس لیے سیاسی مخالفوں پر بڑھ چڑھ کر حملے کررہے تھے۔ بدنام زمانہ آئینی شق 58-2B آئین سے نکال کر باہر پھینکنے سے میاں صاحب سمجھ رہے تھے کہ میدان صاف ہے، اس لیے عدالت عظمی پر بھی منظم حملہ کروایا اور مقتدر اداروں سے براہ راست ٹکراﺅ کی پالیسی اپنائی۔ آرمی چیف جہانگیر کرامت کو قومی سلامتی کونسل کا بیان دینے پر عہدہ چھوڑنے کا مشورہ دیا اور استعفا لے لیا گیا۔ جب چیف جسٹس سجاد علی شاہ عمرے پر تشریف لے گئے تھے، تو سازش کے ذریعے ان کو عہدے سے برطرف کیا گیا۔ اسی طرح جب آرمی چیف پرویز مشرف دورہ سری لنکا سے واپسی کے سفر پر تھے، تو ان کو بھی عہدے سے برطرف کیا گیا اور جہاز کو اس وقت تک ہوا میں رکھنے کا حکم دیا جب تک دوسرے آرمی چیف کی تقرری اور حلف لینے کا عمل مکمل نہیں ہوجاتا۔

لیکن حالات پلٹا کھا چکے تھے، فوج نے بغاوت کی اور میاں صاحب کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا اور جہاز ہائی جیک کرنے سے لے کر میاں صاحب کو غداری جیسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور عدالتوں سے سزا بھی مقدر کا حصہ بنی۔ میاں صاحب کے غیر ملکی دوست کام آئے اور میاں صاحب کا خاندان، جنرل پرویز مشرف سے وہ معاہدہ کر کے ملک سے باہر چلا گیا، جس کا اقرار کرتے ہوئے میاں صاحب ابھی تک کنی کتراتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو بھی خود ساختہ جلاوطن تھیں اور میاں صاحب بھی معاہدہ کر کے حجاز مقدس میں تشریف فرما تھے۔ مشترکہ دوستوں کی کاوشوں سے ملک کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت طے پایا۔ سیاست و جمہوریت سے وابستہ حلقوں اور باشعور افراد نے سکون کا سانس لیا اور قیاس کیا کہ اب مستقبل میں دو بڑی سیاسی اور جمہوری قوتیں مخالفت برائے مخالفت، ایک دوسرے کی حکومتوں کے خلاف سازشوں اور انتقام کی سیاست کا خاتمہ کردیں گی۔ لیکن یہ محض خام خیالی ثابت ہوئی۔ میمو گیٹ کا معاملہ ہو، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سزا دلانے اور استعفی دینے کا مشورہ دینے کا معاملہ ہو اور چابی بھر جانے کے بعد کالا کوٹ پہن کر عدالت جانے کا معاملہ ہو، زرداری صاحب کے مشہور زمانہ بیان اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد پہلے سے طے شدہ ملاقات سے انکار ہو، چھوٹے میاں صاحب کے منتخب صدر کو سڑکو ں پر گھسیٹنے، پیٹ پھاڑنے اور چوک پر پھانسی دینے کے بیان ہوں، میاں نواز شریف اور ان کے برادر شریف نے کون سی اصولی اور مثالی سیاست کی ہے جس کا تقاضا، وہ دیگر سیاسی جماعتوں سے کررہے ہیں۔

نواز شریف جس سیاسی اتحاد اور معاہدے کا حصہ بنے، اسی اتحاد اور معاہدے کے خلاف کام کرتے رہے۔ تیسری دفعہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی اقربا پروری اور اداروں کے خلاف سازشوں سے باز نہیں آئے اور جب بھی پھنسے اپنے مخلص کارکنوں کو قربانی کا بکرا بناتے رہے۔ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے بعد میاں صاحب سخت برہم ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو چابی کے کھلونا قرار دے رہے ہیں۔ میاں صاحب حقیقت تو یہ ہے کہ آپ ابھی تک نہیں بدلے ہیں اور خود بھی چابی کا کھلونا بننے میں دیر نہیں لگائیں گے، بس حالات آپ کے موافق نہیں ہیں۔ جہاں آپ منی لانڈرنگ کے مقدمے میں کمزور ہیں، وہیں آپ کا سیاسی مقدمہ بھی کمزور ہے۔ پہلے خود جمہوریت اور سیاسی اصولوں کا بھرم رکھیے، پھر دوسروں کو جمہوریت اور سیاست کے درس دیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).