شیطان کو روح بیچنے والا ڈاکٹر فاسٹس


کرسٹوفر مارلو کا ڈرامہ ڈاکٹر فاسٹس بڑا عجیب و غریب پلاٹ میں بنا ہوا ہے۔ ادب اردو میں انگلش تصانیف کی نقل ہوتی رہی ہے اس کے تراجم مشہور ہوئے ہیں لیکن اس ڈرامہ نے بری طرح مایوس کیا۔ یہ ایک عالم و فاضل علم کے شعبوں میں بے جا مہارت رکھنے والے ڈاکٹر فاسٹس کی کہانی ہے اصلاح کی غرض سے دیکھا جائے تو یہ بچوں کے مطالعہ کے لئے بہترین ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے اس میں ان عناصر کی کمی ہے جو بچوں کو اسے پڑھنے کے لئے متوجہ کر سکیں شگفتگی کا ہونا لازمی ہے۔

فاسٹس تمام علوم حاصل کرنے کے بعد چاہتا ہے کہ اب کچھ نیا ہو بہت غوروفکر کرنے پر اس کے سامنے صرف ایک علم“کالاجادو ” ایسا ہے جو دنیاوی آسائش کے ساتھ اس کو ابدی زندگی دے سکتا ہے۔ فاسٹس اجر امر ہونے کی خواہش میں اپنی روح کو شیطان کے حوالہ کر دیتا ہے اس کا ضمیر اسے اس امر سے باز رکھنا چاہتا ہے لیکن اس کے باوجود فاسٹس شیطان کی غلامی قبول کر لیتا ہے اسے اس علم کالے جادو سے پہلے بھی بہت سارے علوم پر مکمل دسترس حاصل تھی۔

اس بات کے پیش نظر کالا جادو سیکھنے کے بعد فاسٹس کو رائٹر نے جو حرکتیں کرتے ہوئے دکھایا ہے وہ بے حد الجھانے والی ہیں کیوں کہ فاسٹس چرچ میں پادریوں پر پٹاخے چھوڑ کر، چالیس پچاس ہزار میں نقلی گھوڑے بیچ کر، یا اتنا بڑاعالم دربار شاہی میں ایک نائٹ کے سر پر سینگ اگا کر نہ صرف اپنی بردباری کو کھو رہا ہے بلکہ اس تعلیم پر بھی شک کا نشان بنا رہا ہے جو اس نے اب یا اس سے پہلے زندگی کی کمائی کے طور پر حاصل کی ہے۔

وہ جادوگر ہے جتنا چاہے شیطان کے ذریعہ خزانوں پر حاکم ہو سکتا ہے اور آغاز میں اس نے جادو کی تعلیم کے فوائد میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ یا پھر ان سبھی علوم جن کا ذکر اس نے کچھ نیا تلاش کرنے کے ساتھ کیا تھا کہ اچھی مہارت رکھتا ہے اتنا بڑاعالم ایک ادنی سے ملازم کی بات کا جواب اس کے سر پہ سینگ اگا کر دے رہا ہے۔ یہاں بھی ڈرامہ میں کمزوری نظر آرہی ہے۔ مزید واقعات بھی اسی طرح کی الٹ پلٹ کا شکار ہیں رائٹر اپنی ساری مقبولیت کے باوجود سوالیہ نشان ختم کرنے میں معذور ہے۔

بہت کچھ تو ڈاکٹر کو دیگر علوم پر دسترس سے ہی حاصل ہو گیا ہوگا پھر جادو کیوں سیکھا جو مقاصد تھے وہ کیوں نہیں مکمل ہوئے اور جو ہوئے تو ان میں وہ تھوڑے سے ہی کے لئے بڑی بڑی پوجائیں کرتا ہوا کیوں دکھایا گیا ہے۔ ابھی اس ڈرامہ کو اور قرت کرنے اور ان سب سوالات کو سلجھانے کی خواہش ہے لیکن اپنی تحریر بھی دوبارہ پڑھنا مجھے بے ناگوار گزرتا ہے تو اس ڈرامہ کو شاید ابھی دوبارہ پڑھنے کے لئے کچھ سال انتظار کرنا پڑےگا۔

عزہ معین ایسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی دہلی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).