ایک سرکاری سکول کے عظیم استاد کے نام


گورنمنٹ سنڑل ماڈل سکول لوئر مال لاہور میں عظیم صاحب ہمار ے ساتویں کے استاد تھے۔ چھوٹا قد، عینک لگاتے، زیادہ تر پتلون قمیض پہنے، بال ہمیشہ سلیقے سے بنے ہوئے، کبھی کبھی مسکراتے، زیاد تر سنجیدہ۔ کلاس میں ستر سے زیادہ طالبعلم تھے، مگر عظیم صاحب جانتے تھے کہ کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ ایک ایک شاگرد کو جانتے تھے، اُن کے گھروں سے لے کر ان کی صلاحیتوں تک سب سے واقف تھے۔ گورنمنٹ سکول عموماً متوسط طبقے اور اس سے بھی نچلی معاشرتی سطح کے افراد کے بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرتا۔ سنڑل ماڈل سکول کا محل وقوع قدرتی طور پر ایسے معاشرتی طبقوں کو دیکھ رہا تھا۔ کربلا گامے شاہ متصل، داتا دربار، موہنی روڈ اور راوی روڈ عقب میں، گھوڑا ہسپتال ایک طرف، بھاٹی اور لوہاری بلکہ پورا اندرون لاہور بالکل ساتھ، کرشن نگر، سنت نگر ایک طرف، پرانی انارکلی، گوالمنڈی بالکل قریب۔ اور ہم سب طالبعلم انہی علاقوں سے آتے تھے۔

ہمارے تجربے حقیقی تھے، گلیوں میں پڑے نشیوں سے لے کر محلے کوچوں میں پروان چڑھتی محبتوں تک، لاہور کی ہیرا منڈی سے داتا دربار کی عقیدتوں تک، ان علاقوں کی بھیڑ نے ہمیں سب دکھا دیا تھا۔ ہمارے لیے دنیا حیران کن تھی، شور مچاتی، اپنی طرف کھینچتی۔ حقیقتیں ہمیں سکھا رہی تھیں، معاشی حالات ہمیں بہت سے حقائق بتا رہے تھے۔ ہم زندگی کے معنی اپنے اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ خود غرضی اور اخلاقیات کی حدود اکثر مبہم ہو جاتی تھیں۔ ہم ایک استاد کی تلاش میں تھے جو ہمیں ریاضی کے سوال کی طرح زندگی سمجھا دے، مگر بتائے بھی نہ اور سمجھا دے۔ ہم جو اضافی اداکاروں، ایکسڑا، سے بنیادی اداکار، مین ایکڑ، بننے جارہے تھے کسی ڈائریکٹر کی تلاش میں تھے جو زندگی کی سٹیج پر ہمارے رول کی طرف رہنمائی کر دے۔

سنڑل ماڈل ایک مصنوعی سکول نہ تھا، یہ لاہوری کلچر کا نمائندہ سکول تھا، ”ر“ کو ”ڑ“ بولتا، جذبات سے بھرا۔ اپنے سے معاشی حثیت میں چھوٹوں کو مائی ڈیئر کہتا۔ جب میں پہلی جماعت میں داخل ہوا، تو دو چیزیں جلد ہی سیکھ لیں، ایک پرائمری سکول کو چھوٹا سکول کہتے ہیں اور ساتھ ہی متصل ہائی سکول بڑا سکول کہلاتا ہے، دوسرا جب بھی کسی خوانچہ فروش یا کینٹین سے چیز خریدنی ہے تو بیچنے والے کو مائی ڈیئر کے نام سے پکارنا ہے۔ یہ مائی ڈیئر کا کیا مطلب ہے، یہ کیا چیز ہے، نہ ہمیں پتا تھا، نہ بیچنے والے کو اس کا مطلب پتا تھا۔ بس سکول کی چھٹی ہوتی تو طلباء کی ایک تعداد نکلتی اور سکول کے دروازے پر مائی ڈیئروں کا گرد ہوکر متوجہ کرنے کی خاطر ایک گردان شروع ہوتی ہے۔ یہ دور اب ترویج پاتی بےتکلفی سے قبل کا تھا کہ استاد کا کیا نام لیا جاتا، ایک ریڑھی والا بھی سب کا مائی ڈیئر تھا۔

سنٹرل ماڈل ایک صدی سے پرانا سکول تھا۔ علمی روایت کا بہاو، کیا کیا نام نہ اس سکول سے نکلے اور ملکی اور عالمی سطح پر ایک مقام پاگئے۔ کسی چیف کالج، کسی کیڈٹ کالج، کسی مہنگے ترین انگریزی سکول کو اس کے مقابلے پر لے آئیں، دوسرے کو سر جھکاتا، آنکھیں چراتا پائیں گے۔ اور کون لوگ تھے جنہوں نے اس سکول کو بلند کیا تھا، سرکاری استاد۔ وہ جو ناکافی تنخواہ پاتے، مگر جانتے تھے کہ کس ورثہ کے وہ امین ہیں۔

عظیم صاحب ہمارے ڈائریکٹر تھے۔ ساتویں جماعت کا پہلا دن تھا، پوری کلاس کو باہر کھڑا کیا اور قد کے مطابق ہر کسی کی جگہ بتادی۔ اب سے صبح کی اسمبلی میں قطار سیدھی ہو، چھوٹے طلباء آگے، لمبے پیچھے۔ ہر روز صبح اسمبلی کے آخر میں ترتیب میں کھڑی جماعتوں کے نام پکارے جاتے اور انہیں پوائنٹ دیا جاتا، اور سال کے آخر میں سب سے زیادہ پوائنٹ حاصل کرنے والی جماعت انعام کی حقدار ہوتی۔ یہاں سے ہم نے ترتیب سیکھنا شروع کی۔

ہر جماعت سال میں اپنا ایک رسالہ نکالتی تھی۔ اردو بازار سے مختلف رنگوں کے کاغذ لائے جاتے، تصاویر بنائی جاتیں، مضامین اور نظمیں خوش خط لکھی جاتیں۔ یہ سب کام طالبعلم خود کرتے۔ آخر میں ان ہاتھوں سے لکھے کاغذوں کی جلد بندی ہوتی۔ یاد ہے کہ علامہ اقبال کی نظم ”ایک آرزو“ ہم نے اس میں لکھی اور اس نظم کے شعر ”مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری۔ دامن میں کوہ کے اِک چھوٹا سا جھونپڑا ہو ” کے مطابق تصویر ایک مصور طالبعلم نے بنائی۔ یہ ہم طالبعلموں کی تخلیق، ادب، پراجیکٹ کے انتظام کی عملی ٹریننگ تھی۔ عظیم صاحب ہمارے ڈائریکٹر تھے، خوش خط طلباء ایک طرف، مصور دوسری طرف، بھاگ دوڑ اور اردو بازار کے چکر لگانے والے تیسری طرف۔ مقابلے کا جوش، وقت کی تقسیم، حالات کے مطابق تبدیلی سب ہم نے اُن سے سیکھی۔ اسی طرح سال میں ایک دفعہ جماعت کو سجانے کا مقابلہ ہوتا، پوسڑ بنائے جاتے، رنگین لڑیاں لائی جاتیں، ڈیسک پینٹ ہوتے۔ یہ سب ہم نے کرنا ہوتا، فنڈ جمع کرنے سے لے کر خرچ کے حساب تک۔ اور ایک شخص تھا کہ ہمیں بتاتا، سکھاتا، ہم پر نظر رکھتا۔ یہ تلقین نہیں بلکہ عمل کی ٹریننگ تھی۔

ان تمام معاملات کے ساتھ ساتھ ہماری تعلیم پر عظیم صاحب کی کڑی نظر ہوتی۔ وہ دن جب استاد پوچھتا جاتا تھا اور جواب نہ آنے پر طلباء کھڑے ہوتے۔ ہاتھوں پر چھڑی پڑتی اور ہمیں علم ہوتا کہ نہ پڑھا تو ہاتھ سینکے جائیں گے۔ عظیم صاحب نے کلاس کے بہتر طلباء کے ساتھ پڑھائی میں کمزور طلباء کی سیٹیں رکھی تھیں کہ خود بھی پڑھو اور ساتھیوں کی بھی مدد کرو۔ کر بھلا، ہو بھلا۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے ہم میں اس احساس کو جگانے کی کوشش کی کہ پڑھنا تو ضروری ہےہی دوسروں کو بھی ساتھ لے کر چلو۔

استاد کے لیے شاگرد وہ پنیری ہوتا ہے جسے اُس نے سینچا ہوتا ہے، موسم کی سختی سے بچا کر، پانی سے آبیاری دے کر پروان چڑھایا ہوتا ہے۔ کبھی سبز کپڑے کا سایہ دے کر، کبھی دھوپ کی سختی دے کر کہ بڑھوتی کے لیے سب ضروری ہے۔ میں ایک بیج تھا، خوش قسمتی مجھے ایک ماہر کے پاس لے آئی جس کا پیوند ہریالی لے آیا۔ میں بہت شکر گذار ہوں۔

تقریباً تیس سال بعد پچھلے سال ایک تقریب میں اتفاقاً عظیم صاحب سے ملاقات ہوئی، پینٹ شرٹ کی جگہ شلوار قمیض پہن رکھی تھی، داڑھی رکھ لی تھی۔ مجھے پہچان لیا ، کہنے لگے تو عاطف ہے۔ میں کیا کہتا، میں تو ایک عکس ہوں ایک ڈائریکڑ کا، جس نے کہا تھا جا اس سٹیج پر تو نے اپنا کردار ادا کرنا ہے، اور دیکھ میرا نام عظیم ہے، میرے نام کی لاج رکھنا۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor