پنجاب پولیس کے اچھے اقدامات نظر انداز کیوں ؟


پاکستان میں پی ایس ایل کے میچز کا شور ہے۔ دونوں بڑے شہر لاہور اور کراچی پی ایس ایل کے میچز میں رنگ چکے ہیں۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کی آمد نے سارے میلے کو اور بھی رنگین کر دیا ہے۔ ان میچز کے انعقاد کا کریڈٹ سب کو جاتا ہے۔ یہ پرامن پاکستان کی جانب عملی قدم ہے۔ آخر ہمیں دنیا کو بھی بتانا ہے کہ ہم پر امن ہیں۔

جہاں ملک میں پی ایس ایل کے میچز کی خوشیاں ہیں لیکن ساتھ ساتھ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان خوشیوں کے لیے ہمارے جوانوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ یہ قربانیاں فوج کے ساتھ ساتھ پولیس نے بھی دی ہیں۔ یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ ہمارے معاشرے میں پولیس کی قربانیوں کو اس طرح قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا جس طرح دیکھا جانا چاہیے۔ ہمیں معاشرے میں یہ احساس پیدا کرنا ہو گا کہ پولیس کے جوان کی قربانی بھی کسی طرح کم نہیں ہے۔ خون پھر خون ہے۔

لاہور میں پی ایس ایل کے میچز سے دو دن قبل لاہور میں دہشت گردوں نے ایک مذموم کارروائی کے ذریعے اس ساری رونق کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس کے جوانوں کی لازوال قربانی سے دیشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں ناکام ہوئے۔ تاہم میرے نزدیک افسوس کی بات یہ ہے کہ پی ایس ایل کی رونق میں ہم اس سانحہ میں شہید ہونے والے پولیس جوانوں کی قربانی کو بھول گئے، ان شہدا کے خاندانوں کو بھول گئے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ پولیس کے اندر صورتحال  اس حوالے سے بہتر ہوئی ہے۔ تاہم بطور معاشرہ صورتحال بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب پولیس اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کی قیادت کا دل اپنے اہلکاروں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر اس فورس کو خوش قسمت اور کامیاب سمجھا جاتا ہے جس کے کمانڈر اپنے جوانوں کے مسائل کو ذاتی مسائل سمجھیں، شہدا کو اپنے شہید سمجھیں، ان کے لواحقین کو اپنے لوگ سمجھیں۔

یہی وجہ ہے کہ فوج میں بھی جب کٹھن حالات کا سامنا ہو تو سپہ سالار اگلے مورچوں پر جا کر جوانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ مشکل اور سخت حالات میں اپنے جوانوں کے ساتھ ہیں۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خانب ھی اسی پالیسی پر کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں رائیونڈ بم دھماکے کے بعد بھی آئی جی پنجاب اسپتال میں اپنے زخمی اہلکاروں کے ہمراہ نظر آئے اور ان کے علاج کے حوالے سے ہدایات دیتے رہے اور اس کے بعد بھی اس دھماکے کے شہدا کے گھروں میں خود جا کر ان کے ورثا کو حوصلہ دیتے رہے۔

انھوں نے شہدا کے بچوں کے تعلیمی اخراجات محکمہ پولیس کی جانب سے ادا کرنے اور انھیں فوری طور پر شہدا فنڈ دینے کا بھی حکم دیا ۔ سی سی پی او لاہور کیپٹن (ر) امین وینس بھی ہمیں ہر اہم موقع پر اپنی فورس کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

پی ایس ایل میچز کے انعقاد کے لیے لاہور کی سیکیورٹی کو فول پروف بنایا گیا ہے۔ ہر قسم کے خطرہ کا سامنا کیا گیا ہے۔ پولیس نے ان میچز کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ زمبابوے کے دورہ کے دوران بھی لاہور پولیس نے قربانی دی تھی۔ بلاشبہ لاہور پولیس نے اپنے ملازمین اور شہدا کی ویلفیئر کے لیے بھی بہت کام کیا ہے۔

ڈی آئی جی آپریشنز لاہور حیدر اشرف بھی اس کام میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ آگے آگے ہیں۔لاہور پولیس نے اپنے ملازمین کے لیے اسپتال قائم کرنے کا جو کام کیا ہے وہ بھی قابل ستائش ہے۔ ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس ملازمین اپنے علاج کے لیے سرکاری اسپتالوں میں دھکے کھاتے نظر آتے ہیں۔

کسی بھی سانحہ کی صورت میں ان کا علاج ایک مسئلہ ہی رہتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر حیدر اشرف نے جو اسپتال قائم کیا ہے یہ اسپتال اس قدر جدید ہو گا کہ پولیس کے ہر ملازم کے لیے بہترین سہولیات دے سکے گا۔بہر حال پنجاب پولیس کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پولیس کا اپنا  جدید اسپتال بنا ہے جہاں پولیس اہلکاروں، افسروں اور ان کے اہل خانہ کا علاج ہو گا۔

اسی سے منسلک اگلا قدم پول کیئر کے نام سے اٹھایا گیاجس کے تحت لاہور پولیس کے اسکریننگ ٹیسٹ کیے گئے اور بیمار اہلکاروں کا مفت علاج شروع ہوا، دوسری جانب اب 46 سال کی عمر کے ہر اہلکار کا ہر چھ ماہ بعد سرکاری سطح پر میڈیکل ٹیسٹ ہو رہا ہے اور اگر کسی بیماری کی علامت ظاہر ہو تو اس کا فوری مفت علاج کیا جا رہا ہے ۔

پولیس کو ہمارے معاشرہ میں محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ پولیس کے بارے میں عمومی تاثر درست نہیں ہے۔ لوگ پولیس سے خوفزدہ بھی ہیں اور نالاں بھی ۔ تھانہ کلچر کی بھی بات کی جاتی ہے۔ یہ درست ہے اس ضمن میں کافی اصلاحات بھی کی گئی ہیں۔  تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تھانہ کلچر بالکل ٹھیک ہو گیا ہے،اس ضمن میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بدلتے زمانے کے ساتھ جرم کی نوعیت بدل رہی ہے۔ بچوں کے ساتھ ہونیوالے جرائم نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ زینب کے واقعہ نے ہم سب کو پریشان کر دیا۔ اسی تناظر میں رائے عامہ ہموار کرنے کا کام بھی پولیس نے اپنے ذمے لے لیا ہے حالانکہ یہ کام پولیس کا نہیں ہے تاہم حالات کے تناظر میں پولیس نے یہ کام بھی شروع کر دیا ہے۔

گذشتہ ایک دو ماہ کا ہی جائزہ لیں تو بچوں کی حفاظت کے حوالے سے عظیم الشان سیمینار منعقد کروایا جس میں انھوں نے والدین، اساتذہ، صحافیوں، دانشوروں اور انسانی حقوق سے وابستہ مختلف اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کر کے بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کے حوالے سے سب کی ذمے داریوں کا تعین کیا اور اس سنگین صورت حال سے بچوں کو بچانے کے لیے پالیسی میکرز کا کردار ادا کیا۔

اس کے بعد لاہور پولیس کے 37 ہزار پولیس اہلکاروں کی فیملیز کے لیے فیملی گالا کا انعقاد بھی منفرد کارنامہ ہے جس میں اعلیٰ افسران سمیت ہزاروں پولیس اہلکاروں کے اہلخانہ اور بچوں نے بھرپور شرکت کی۔ اس فیملی گالا میں بچوں کی سیروتفریح کے لیے ملکی و غیر ملکی مشہور برانڈز کے کھانے پینے کے اسٹالز، جھولوں، رائیڈنگ، میجک شو، ڈولفن بائیکس کی سواری، پیٹ شو، مہندی اور فیس پینٹنگ کے علاوہ لکی ڈرا کے ذریعے قیمتی انعامات کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ اس فیملی گالا کو پولیس فورس نے بہت پسند کیا ۔ شائد ہم سب نے پولیس کے اہل خانہ کو کبھی اپنا اہل خانہ سمجھا ہی نہیں۔ خود پولیس کے اندر بھی پہلے یہ کلچر نہیں تھا کہ اپنے ماتحت عملہ کے ساتھ فیملی پکنک کی جائے۔

افسر کی جانب سے ماتحت کو دبانے کا ہی رواج تھا لیکن یہ فیملی گالہ ایک نئی روائت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس کے مثبت اثرات دیکھتے ہوئے آئی جی پنجاب نے صوبے بھر میں تمام آر پی اوز اور ڈی پی اوز کو بھی اپنے اپنے ریجن اور اضلاع میں اسپورٹس فیملی گالا کے انعقاد کا حکم دے دیا۔ مجھے امید ہے کہ یہ فیملی گالاز پولیس میں ایک نئے کلچر کو سامنے لے کر آئیں گے اور پولیس کا عمومی تاثر بھی بہتر ہو گا۔

ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی فورس کے اچھے نتائج حاصل کرنے ہوں تو اس فورس کی ویلفیئر پر توجہ دینی لازم ہے اسی طرح فورس کے مسائل حل کرتے ہوئے جوانوں کے جتنے مسائل کم کیے جائیں اتنا ہی وہ چاک و چوبند نظر آتے ہیں ۔ اس وقت پنجاب پولیس پورے ملک میں سب سے بہترین اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہے اور پولیس ویلفیئر کے حوالے سے بھی دیگر صوبوں کی پولیس پنجاب پولیس کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے لیکن پنجاب پولیس کا المیہ یہ ہے کہ اس کے حوالے سے سیاسی سطح پر تعریفی انداز نہیں اپنایا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں ہونے والے کارنامے دب جاتے ہیں اور انھیں ملکی منظر نامے پر جگہ نہیں مل پاتی حالانکہ وہی پراجیکٹ پنجاب پولیس کے بعد دیگر کسی صوبے کی پولیس اپناتی ہے تو اسے ایک کارنامے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

یہ افسوس کی بات ہے کہ عمران خان  پولیس کے محکمہ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ان کی جانب سے پنجاب پولیس کو ٹارگٹ بنانا پولیس کے مورال کو ڈاؤن کر رہا ہے۔ یہ دو رنگی اب ختم ہونی چاہیے ، ہم جہاں پولیس پر تنقید کرتے ہیں وہیں پولیس کے اچھے کاموں اور کارکردگی کو سراہنا بھی  ہمارا فرض ہے ۔ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ آج جس پی ایس ایل کے پاکستان میں قدم جمے ہیں اس کے لیے بہترین سیکیورٹی انتظامات لاہور پولیس نے ہی کیے تھے اور عالمی کرکٹ کو پاکستان کے حوالے سے مطمئن کیا تھا۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).