پاکستانی تاریخ کے چند بہادر بچے


وطن عزیز کی تاریخ بہادر بچوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ بہادر بچے عموما کسی دستور کو نہیں مانتے، ان کا اپنا دستور ہوتا ہے یا پھر پہلے سے مروجہ دستور کو اپنی مرضی کے مطابق بنا لیتے ہیں۔ 50 کی دہائی میں بھی ایک ایسا ہی بہادر بچہ منظر عام پر آیا اور جلد ہی اس نے سیاست دانوں کی بزدلی اور مفاد پرستی کی پول کھول دی۔ یہ بہادر بچہ بہادری کی انتہائی بلندیوں پر تھا، اتنا کہ قائداعظم کی ہمشیرہ کو بھی شکست کا مزہ چکھادیا اور سب منہ دیکھتے رہ گئے۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے، ایسے بہادر بچوں کو امریکہ بہادر بھی بہت پسند کرتا ہے اور ان کی بہادری میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ایک اور بہادر بچے نے بھی امریکہ بہادر کی مدد سے مجاہدین کی کھیپ کی کھیپ تیار کی اور دشمنان اسلام کے دانت کھٹے کیے، گو کہ ان دنوں باغی مجاہدین کی ایک ٹکڑی مسلمانان پاکستان کے دانت کھٹے کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔

ایک بہادر بچہ ایسا تھا کہ وہ قوم کو پتھروں کے دور میں واپس جاتا نہیں دیکھ سکتا تھا، اس لیے امریکہ بہادر کے ساتھ ہر ممکن ریاستی تعاون پر راضی ہوگیا۔ بہادر بچے عموما بے موت مارے جاتے ہیں یا پھر سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ سمجھوتہ، سمجھوتہ ہوتا ہے، چاہے لندن، دبئی یا واشنگٹن میں ہو۔ بعض بہادر بچے قوم کی خدمت کرنے کے بعد گوشہ نشینی کی زندگی بھی گزارتے ہیں یا بیرون ملک علاج کے لیے بھی چلے جاتے ہیں اور بلآخر تمام اعزازات کے ساتھ منوں مٹی کے نیچے ابدی نیند سو جاتے ہیں۔ بہادر بچے گوشہ نشینی یا بیرون ملک قیام اس وقت اختیار کرتے ہیں، جب بے شعور عوام اور میڈیا ان کی بہادری سے تنگ آجاتے ہیں۔ بہادر بچے قوم کی خدمت کے بعد ایک آدھ کتاب بھی لکھ مارتے ہیں یا ان کے لواحقین لکھوالیتے ہیں عموما ایسی کتابوں کے نام فاتح یا شہید صدر وغیرہ ہوتے ہیں۔

ان دنوں وطن عزیز کی فضاؤں اور میڈیا میں ایک اور بہادر بچے کے چرچے ہیں۔ اس بہادر بچے کی بہادری کی گواہی تو ایک سابق صدر نے بھی دی ہے۔ بہادر بچے ہمیشہ مٹی کا حق ادا کرتے ہیں، لیکن یہ بہادر بچہ ایسا ہے کہ جس علاقے میں اس کی تعنیاتی رہی ہے، وہاں کی مٹی کا حق چاہے اس نے ادا کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن وہاں کی مٹی سے اپنا حق ضرور وصول کیا ہے۔ اس بہادر بچے نے ملک دشمن بزدل دہشت گرد افراد کو پولیس مقابلوں کے ذریعے ختم کرنے اور گرفتار کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، گو کہ ان افراد کو ملک دشمن اور بزدل دہشت گرد، یہ بہادر بچہ خود ہی قرار دیتا تھا لیکن اس کے محکمے کے بڑے افسران یا عدالت اکثر ان افراد کو رہا کردیتے تھے، اس لیے ان افراد کی بیخ کنی کے لیے پولیس مقابلے تو لامحالہ کرنا پڑتا تھا۔ ایسے ہی ایک پولیس مقابلے کے نام پر کراچی کا نوجوان نقیب اللہ محسود بھی مارا گیا۔ نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد بہادر بچے نے حسب روایت پریس کانفرنس کی اور دعوی کیا کہ نقیب اللہ محسود دہشت گرد تھا، تو اہل علاقہ اور برادری کے افراد کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے تمام ذرائع چیخ پڑے اور سراپا احتجا ج بن گئے اور نقیب اللہ محسود کی تصاویر اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے اس کی حرکات و سکنات اور دلچسپیوں کے بارے میں قوم کو آگاہ کیا کہ ایسا شخص کیسے دہشت گرد ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیا اور بہادر بچے کو عدالت عظمی طلب کیا، تو روایت کے مطابق بہادر بچے نے ملک سے فرار کی کوشش کی اور فرار میں ناکامی کے بعد روپوشی اختیار کرلی۔ بہادر بچے عموما معاہدے اور سمجھوتے کرلیتے ہیں، ایسے ہی کسی معاہدے، سمجھوتے، یقین دہانی یاخط و کتابت کے بعد یہ بہادر بچہ کل عدالت عظمی میں نقاب لگا کر سیاہ کپڑوں میں ملبوس پیش ہوگیا۔ عدالت کا پہلا سوال یہی تھا کہ آپ تو دلیر آدمی ہیں اتنے دن کہاں روپوش رہے۔ بہادر بچے نے کہا کہ سندھ پولیس ان کی بہادری سے خائف ہے اور دشمن ہے اور ان کی جان کو بھی خطرہ ہے اس لیے بہادری دکھانے کی بجائے روپوشی اختیار کی۔ بہادر بچے نے جے آئی ٹی پر بھی اعتراض کیا اور عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی میں خفیہ اداروں کے اہل کار بھی شامل ہونے چاہئیں۔

عدالت عظمی نے بہادر بچے کی یہ استدعا تو مسترد کردی لیکن 5 افراد پر مشتمل نئی جے آئی ٹی تشکیل دے دی۔ عدالت عظمی نے بہادر بچے کی خدمات کے پیش نظر دلیر شخص کا پاسپورٹ اور بنک اکاؤنٹس بھی بحال کردیے اور بہادر بچے کے بچوں کی روزی روٹی کی فکر کرتے ہوئے، تنخواہ بھی بحال کردی کیونکہ بہادر بچے کے اہل خانہ تنگ دستی کے شکار تھے، ہم سب کے علم میں ہے کہ دبئی کے حالات ان دنوں کچھ بہتر نہیں ہیں۔ بہرحال عدالتی حکم پر بہادر بچے کو کراچی منتقل کردیا گیا ہے، جہاں نئی تشکیل شدہ جے آئی ٹی بہادر بچے کی بہادری کے معاملات کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ امید کامل تو یہی ہے کہ بہادر بچے کا کوئی بھی بال بیکا نہیں کرسکتا اور اس کے ساتھ یہ امید بھی ہے کہ بہادر بچہ اپنی بہادری کے قصے کبھی نہ کبھی کتابی شکل میں خود لکھے گا یا کوئی اور محب وطن مصنف لکھ دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).