دو چہروں کے ساتھ جینے والے ہمارے بچے۔۔۔


خبر کی دنیا میں رہتے ہوئے اب نہ کوئی ڈرامہ دیکھنے کو وقت ملتا ہے نا ہی کوئی فلم، دوست احباب تبصرہ کریں تو میں یہاں وہاں دیکھنے لگتی ہوں۔ کوئی نیا گانا سنوں تو بہن سے پوچھتی ہوں کہ یہ کیا شور شرابہ ہے؟ تو وہ بتاتی ہے باجی اب ایسے ہی گانے آتے ہیں۔ ان دنوں ایک پرانا ڈرامہ رات کو یو ٹیوب پر دیکھ رہی ہوں تو احساس ہو رہا ہے کہ یہ تفریح بھی کتنی ضروری ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے جب انٹر سے فراغت کے بعد آگے ایڈمیشن لینے کے لئے ایک طویل انتظار سے گزرنا پڑا تو ایسے میں گھر والوں نے یہ طے کیا کہ خود کو مصروف کرو اور کچھ نہ کچھ سیکھو۔ ہمارے محلے میں ایک خاتون جو ان دنوں ایک ووکیشنل ٹریننگ سینٹر سے مختلف کورسز کر رہی تھیں ان سے میری امی کی اچھی دوستی تھی بس ہمیں ان کے حوالے کردیا گیا کہ اسے سا تھ لے جائیں اور ہفتہ بھر کورسز کروائیں۔ بس پھر کیا تھا شاید ہی گھر کی کوئی دیوار ہو جہاں اسکیچنگ، پینٹنگ نہ لگی ہو، کوئی گلاس ٹوٹتا تو میں پینٹ سے رنگ دیتی کوئی کیچپ کی بوتل خالی ہوتی تو ممانی لے آتیں کہ اسے بھی رنگین کردو میں نے منی پلانٹ لگانی ہے نتیجہ یہ نکلا کہ کورسز کی بھرمار ہوتی گئی سرٹیفیکیٹ جمع ہوتے گئے اور تھوڑی بہت دنیا دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا، بسوں میں سفر کیسے ہوتا ہے، سڑک کیسے پار کی جاتی ہے، دکاندار سے کیسے بھاو تاو کیا جاتا ہے۔ بھاری بھاری سامان اٹھا کر گھر کیسے لایا جاتا ہے یہ سب میں نے اسی وقت سیکھا۔

پھر یونیورسٹی شروع ہوئی تو ایک نئی سوچ اور جوش کے ساتھ پڑھائی کا آغاز ہوا جہاں اپنی سہیلیوں سے میں اکثر سنتی تھی کہ انھیں انڈہ ابالنے کے سوا بھی کچھ نہیں آتا یہاں مجھے روایتی کھانے بنانے کی تراکیب ایسے حفظ تھیں جیسے سیاسیات کا کوئی اسائیمنٹ ملا ہو۔ اس وقت مجھے میرے گھر والوں نے مصروف کیا جب مجھے گھر میں رہ کر پڑھائی کے بوجھ کو ختم ہونے کے وقت کو انجوائے کرنا چائیے تھا۔ بلکہ یہی وہ وقت تھا جب میں وی سی آر پر اپنی من پسند فلمیں دیکھ سکتی تھی۔ لیکن ایسا بھی نہ ہوسکا لیکن جب میری بہنیں بڑی ہونے لگیں تو انھیں وہ شوق نہیں تھے جو مجھے رہے، وہ پینٹنگ کھانے بنانے میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں لیکن کتابیں پڑھنے کا شوق عروج پر تھا۔ اس روز مجھے حیرت کا جھٹکا لگا جب مجھے والدین نے بلا کر کہا کہ تمہاری چھوٹی بہنیں شاہ رخ خان کی کوئی نئی مووی دیکھنے کو بہت بے چین ہیں تو انھیں وہ مووی تم اپنی موجودگی میں دکھاؤ گی۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور ہاتھ میں ریمورٹ لئے ٹی وی کے قریب جا بیٹھی، جب کوئی گانا آئے اسے فارورڈ کردیتی جب کوئی ایسا ویسا سین آتا وہ بھی آگے کر دیتی یوں تین گھنٹے کی فلم دو سے سوا دو گھنٹے میں ختم اور قصہ تمام۔ اب یہ معمول بن گیا جب انھیں یہ شوق چڑھتا ہم سینسر بورڈ بن کر بیٹھ جاتے، فلم میں کوئی دلچسپی ہوتی نہیں تھی لیکن ہماری مثال اس شخص کی طرح تھی جو شادی والے گھر کے باہر قناتیں اور کرسیاں سمیٹنے کے لئے بیٹھا ہوتا ہے اسے شادی کے ہلا گلا اور ناچ گانے سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔

ایک بار احتجاج کیا کہ بھئی شوق ان کا انھیں دیکھنے دیں مجھے کیوں بٹھا دیتے ہیں؟ اماں کا جواب آیا کہ وہ چھوٹی ہیں کم عمر ہیں ان کا شوق تو ہے لیکن فلمیں کون سی اتنی صا ف ستھری ہوتی ہیں تو تم بڑی ہو، سمجھدار ہو تمہارا بیٹھنا ضروری ہے۔ تو نہ دکھائیں کیوں ان کا شوق پورا کر وایا جا رہا ہے؟ ڈانٹ دیں کہ کوئی فلم نہیں دیکھی جائے گی گھر میں۔۔۔ میں نے چڑ کر کہا، امی نے بہت پیار سے جواب دیا یہ جو تم کہہ رہی ہو یہ بہت آسان ہے لیکن اس کا نتیجہ بھیانک ہوسکتا ہے، جب بچوں کی خواہشات اور ان کے شوق کو دبایا جائے، کچلا جائے تو وہ اسے باہر کہیں جا کر پورا کرتے ہیں۔ پابندیاں اچھی بات ہیں لیکن بے جا پابندیاں انسان کو گھٹن محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہیں اور ایک ایسا وقت آتا ہے جہاں بچہ باغی ہو جاتا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

پھر اماں نے ایک گھرانے کا واقعہ سنایا۔ ہمارے محلے کے ایک پروفیسر کا گھرانہ جو بے انتہا مذہبی تھا اور پردے کی سختی کی وجہ سے مشہور تھا انھوں نے اپنے گھر میں ٹی وی ریڈیو اس لئے نہیں رکھا کہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے اولاد بگڑ جاتی ہے، یہاں تک کہ گھر میں آئینہ بھی صرف پروفیسر صاحب کے کمرے میں تھا وہ بھی انتہائی دھندلا اور چھوٹا سا۔ سات بچوں میں ان کی ایک بیٹی سب سے بڑی اور ایک سب سے چھوٹی تھی، چھوٹی بیٹی اپنے بھائیوں کی لاڈلی تھی تو ان کی طرح لڑکا بنا پھرتی تھی۔ لیکن بڑی بیٹی کو یہ پابندیاں برداشت نہیں تھیں، ایک بار پروفیسر صاحب کی بیگم جو اندرون سندھ سے تھیں اور اتنی پڑھی لکھی بھی نہ تھیں انھوں نے امی سے آکر کہا کہ بھابھی میری بیٹی تو میری بات سنتی نہیں میں چاہتی ہوں اسے آپ کے پاس بھیجوں تاکہ آپ اسے کھانا پکانا سکھائے سلائی کڑھائی میں لگائیں سولہ برس کی لڑکی ہے کل کو شادی بھی کرنی ہے۔ شاید آپ کی بات مان لے، ا می نے ہامی بھرلی اب وہ لڑکی ہمارے گھر آنے لگی میں ان کی چھوٹی بہن کی دوست تھی جو اس وقت سات برس کی تھی۔ امی نے ان کی والدہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے لاکھ کوششیں کیں کہ وہ کھانے پکانے میں سلائی کڑھائی میں دلچسپی لے لیکن وہ یا تو آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر امی کی لپ اسٹک لگا کر خود کو دیکھتی رہتی یا پھر ٹی وی۔

امی نے جب یہ حالات دیکھے تو ان کی والدہ کو کہا کہ آپ کو چائیے گھر میں ٹی وی رکھیں یا کچھ نہیں تو ریڈیو۔۔ آپ کی بچی کی عمر ایسی ہے کہ وہ ان میں شوق رکھتی ہے اور آپ کے گھر میں تو اتنی سختی ہے کہ اگر جائز خواہشات بھی پوری نہ ہوئیں تو وہ بچی باغی ہوسکتی ہے، آنٹی نے امی سے کہا کہ وہ بھی ایسا چاہتی ہیں لیکن اپنے شوہر کے سامنے بے بس ہیں۔ کچھ عرصے بعد اس لڑکی کا مکمل طور پر گھر سے باہر نکلنا بند کردیا گیا ایک واحد گھر ہمارا تھا جہاں وہ آجایا کرتی تھی اب وہ بھی نہ رہا اور ایک دو برس بعد معلوم ہوا کہ انکے والد نے اپنی ہی طرح کی ایک فیملی میں جو بہت مذہبی تھے ان میں بیٹی کا رشتہ طے کردیا۔ لیکن شادی سے کچھ دن پہلے اس نے یہ کہہ کر وہ ہمارے گھر کسی کام سے جانا چاہتی ہے نکلی اور کہیں چلی گئی۔ جس گھر وہ اس روز گئی وہ بھی انکے والد اور والدہ کے اچھے ملنے والے تھے۔ انھوں نے ان کے گھر فون کیا اور بتایا کہ آپ کی بیٹی ہمارے گھر ہے لیکن وہ آپ کے پاس جانے کو تیار نہیں اس کا کہنا ہے کہ اگر آپ نے اسکا رشتہ ختم نہ کیا تو وہ خو د کو ختم کرلے گی یا دارالامان چلی جائے گی۔

باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar