تئیس مارچ کی پریڈ اور غیر ضروری بحثوں میں جکڑی بھوک


مارچ کے ان دنوں میں جنگی جہازوں کا ہمارے سر وں پر سوار رہنا اور عام عوام کا عام شاہراہوں پر کھڑے ہو کر انہیں اس قدر بیچارگی سے دیکھنا مجھے عوام کے اُسی بنیادی مسئلے پر لا کھڑا کرتا ہے جس کا تعلق معاشرے میں تھرڈ کلاس طبقے کی بھوک سے ہے۔ جس قوم کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اسی قوم کے سروں پر منڈلاتے کروڑوں اربوں کی مالیت کے تیل کا ضیاع کرتے یہ جنگی جہاز اس قوم کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہیں۔ اس قدر جنگی اور مذہبی جنونیت کا دور ایسے ہی نہیں آگیا اس پر تاریخ کے پورے 71 سال کی محنت شامل ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک جن لیگیوں کے ہاتھوں میں آیا وہ نااہل اور نہایت اوسط ذہن کے لوگ تھے۔ ان کے سامنے کوئی وژن نہیں تھا کہ نئے ملک کو آگے کیسے چلانا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے میں اس بات پر اختلاف رکھتا ہوں۔ جناب کوئی ایک چیز نااہلی کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔۔ ہمیشہ ہی ایک جیسی حرکتوں کے تسلسل کو تو نااہلی اور اوسط ذہنیت کانتیجہ نہ کہیئے۔

آپ ہی کے بقول اسلامائزیشن کے سلسلے کا باقائدہ آغاز تو قرارداد مقاصد سے شروع ہوا اور مکمل ضیاء کے دور میں ہوا، تو کیا یہ ان کی نااہلی سمجھی جائے یا سوچی سمجھی حکمت عملی؟ آزادی کے فوراً بعد تو ملک میں معاشی آزادیوں کی بات ہونی تھی تو قرارداد مقاصد سے لے کر آج تک مذہبی جنونیت کو فروغ کیوں دیا جاتا رہا؟ اور کیا اس کے بعد ملک میں ورکنگ کلاس کے مسائل پر پھر اس سلسلے میں بات ہوئی؟

ایوب کے دور میں کچھ ترقی پسند سیاستدان، شاعر، طلباء ان دنوں امریکہ سے اسلحے کی خریداری کی اسی لیے مخالفت کرتے تھے کہ اسلحے کو روٹی پر فوقیت مذہبی اور قومی بنیادوں پر دی جا رہی تھی۔ ان چند شرپسندوں کی زبانیں کھینچنا اور ان کے گلے دبانا ڈکٹیٹر وقت کے لئے آسان تھا۔ اس نے فیض کو بند کیا، جالب کو مشکل دن دکھائے، ترقی پسندوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جیسے وہ واقعی اس ملک کے سب سے بڑے دُشمن تھے۔ بین الاقوامی جنگی معاملات شہریوں کے حقوق سے زیادہ اہم سمجھے جانے لگے تو انہیں جنونیوں نے اس کی سینہ تان کر مخالفت کی اور اس کے نتائج بھی بھُگتے۔ اور محب وطن ایوب خان کے کیا کہنے، اس نے تو قاعد اعظم کی بہن تک کو ملک کا غدار ڈکلئیر کردیا، ان محب وطنوں سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے؟

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے ہاں ہر دور میں مذہبی حلقے مکمل طور پر ان سرمایہ دارانہ جابر طبقے کے شانہ بشانہ پائے جاتے ہیں۔ رومنز سے پہلے یورپی جاگیردارانہ نظام میں جاگیردار اور کلیسہ ہی دو طاقتیں تھیں جو حلال معاہدوں کی بنیاد پر دوسرے علاقوں پر قبضہ کرتے اور مال آدھا آدھا بانٹ لیتے تھے۔ غریب کسان اور مزدور کے ساتھ ظلم بھی یہی دونوں مل کر کیا کرتے تھے۔ صنعت کاری کے دور میں بھی یورپی مزدور اور ورکنگ کلاس معاشی قیدوبند کا شکار رہی اور پرولتاریہ کے حالات جوں کے توں ہی رہے۔

تیسری دُنیا کے ممالک جہاں آج تک سرمایہ داری صحیح طور رائج ہوئی بھی نہیں، میں بھی غریب کے حقوق کا استحصال انہی بنیادوں پر کیا جاتا ہے اور مذہبی حلقے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام سے ہمدردی رکھتے ہوئے غریب کے استحصال میں شریک جُرم ہوتے ہیں۔ معاشی طور پر مفلوج کر کے مذہبی مساوات اور رواداری جیسے اخلاقی سبق دے کر عوام کو ان کے حقوق سے دستبرداری کے سبق دیئے جاتے ہیں اور ان کو اس کا صلہ اگلی دُنیا میں لینے کی زبرد ست ترغیب دی جاتی ہے۔ اس انصاف کو خُدا کا انصاف اور خُدا کی تقسیم قرار دیا جاتا ہے اور مختلف اخلاقی حربوں سے اس استحصالی نظام کے خلاف آواز اُٹھانے کو حرام مطلق قرار دیا جاتا ہے۔

میں اگر غلط ہوں تو خود ہی مشاہدہ شروع کریں کہ ہمیشہ ہی غریب کے معاشی حالات کی جگہ مذہب اور سیکولرزم کی بحث کیوں لے لیتی ہے؟ جنگی جنون کو عین نیشنل ازم بنا کر پیش کرنا آخر کب تک عام آدمی کو یوں پاگل بناتا رہے گا۔ عام آدمی کب تک اس سرمایہ دارانہ نظام کے مختلف ہتھکنڈوں کا شکار بنتا رہے گا۔

پاکستان بننے کے بعد جہاں دونوں ملکوں نے ظاہری طور پر آزادی حاصل کرتو لی، جس بنیاد پر ایسا ہونا ممکن ہوا وہ تو عام آدمی تھا۔ تو اسی عام آدمی کو معاشی طور پر ایک اور قید میں جکڑنا کیوں ضروری تھا؟ بھارت جیسے ملک میں آج کے دور میں بھی بھوک کی شرح اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ وہاں غریب کی حالت زار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہاں بھی بجلی پانی گیس روٹی کپڑا جیسی زندگی کی بنیادی ترین سہولتوں سے محروم طبقہ آج تک غیر ضروری بحثوں میں اُ لجھا ہوا ہے۔

دوسری جانب وہاں کا میڈیا کس کی بات کرتا زیادہ دکھائی دیتا ہے؟ یا یوں کہہ لیں کہ وہاں ہمیشہ سے ہی بحث العام عنوانات کیا رہے ہیں۔ مذہبی شدت پسندی، اس کو مار دو اُس کو مار دو، سیکولرزم، اسلام، ہندوازم، پاکستان سے دشمنی عین محب وطنی نہیں تو غداری والی بحثیں عام ملیں گی، کیوں؟ کیونکہ وہاں بھی تیسری دُنیا کے ممالک کی طرح سرمایہ داری نظام رائج ہے۔ وہاں بات صرف وہ ہوگی جس کا تعلق سرمایہ دار کے فائدے سے ہوگا نہ کہ غریب کی بھوک سے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2