آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ کی برسی


23 مارچ 1931 کو لاہور کے موجودہ شادمان چوک پر تین افرد کو جدوجہد آزادی کے جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ وہ تین افراد جو ہماری آزادی کے ہیرو تھے ان کے نام تھے بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمیں سومناتھ کے مندر تو پڑھا دیے، فاتح بابل اسلام تو بتا دیے، مگر ہمارے اپنے ہیرو ہم سے چھین لیے۔ صرف 86 سال میں ہم نے فراموش کر دیا کہ ہماری آزادی کی بنیادوں میں جو خون ڈالا گیا اس کا رنگ صرف ایک تھا لال۔ اس خون کا کوئی مذہب، عقیدہ یا مسلک نہیں تھا۔

وہ آزادی جس کا کریڈٹ ہم سب صرف اپنی اپنی پسند کے لوگ اور اپنی اپنی ذات کے بزرگوں کو دیتے ہیں، اس میں ایک بہت بڑی قربانی اس بہادر نوجوان کی بھی تھی جس کا نام تھا بھگت سنگھ۔ جس عمر میں آج کے بچے اسمارٹ فون پہ یا تو شدید نفرت یا پھر شدید محبت کو تلاش کرتے ہیں، یہ لڑکا وہ طریقے دنیا کو سکھا رہا تھا جس سے اس کی زمین کو غلامی اور تذلیل سے نجات مل جائے۔ 23 مارچ 1931 کو وہ صرف 23 سال کا تھا مگر سامراج کے لئے ناقابل برداشت خطرہ بن چکا تھا۔ قرارداد، تحاریک اور جشن سب بہت بعد میں ممکن ہو پائے۔ آگہی اور مطالبہ ایسی بہت سی قربانیوں کے بعد ممکن ہوا جب بھگت سنگھ اور اس جیسے بہت سے لڑکوں نے اپنی جان دے کر سامراج کو جھنجھوڑا۔ آزادی اس کے لئے ایک خواب نہیں تھی۔ آزادی اس کا جنون، اس کا مقصد حیات اور جیسے وہ کہتا تھا اس کی دلہن تھی۔

وہ صرف بھارت کا نہیں پاکستان کا بھی ہیرو ہے کیونکہ وہ آزادیء ہندوستان کا ہیرو ہے۔ لاہور جہاں اسے پھانسی دی گئی، وہاں اس کی یادگار نجانے کب تعمیر ہو پائے کیونکہ اس کا تعلق ہمارے مذہب سے نہ تھا۔ اگر اس نے بھی یہ سوچا ہوتا تو وہ صرف سکھوں کی آزادی کے لئے لڑتا۔ وہ تو ہندوستان کے لئے مر چلا۔ میرا ہیرو بھگت سنگھ اور مجھے کوئی عار نہیں کہ میرے ہیرو کی فہرست میں ایک سکھ کیوں ہے؟ کیونکہ آج ہم سب جس آزادی کو محض جشن اور ناچ گانے کی نظر کرتے ہیں، اس نے اپنی زندگی اس آزادی کو دی۔ ہمارے ساتھ بڑی نا انصافی ہوئی۔ ہم سے ہمارے ہیرو چھین لئے۔ ہمیں بتایا ہی نہ گیا کہ ہمارا اصل محسن کون کون ہے۔ خود بھگت سنگھ کا کہنا تھا کہ میں ایک انسان ہوں اور ہر وہ چیز جس سے انسانیت کو فرق پڑتا ہے اس سے مجھے فرق پڑتا ہے۔ وہ انسان تھا اس لئے وہ قید میں بھی آزاد تھا۔ ہم سوچ کے قیدی، آزاد ہوکر بھی قید ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ میں شہید بھگت سنگھ فاونڈیشن کی جانب سے ایک اپیل حکم کی منتظر ہے کہ شادمان چوک کو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کیا جائے مگر انتخابات سے ذرا پہلے پہلے زندہ ہو جانے والے دین کے دکانداروں کو اس سے کچھ خطرہ معلوم ہوتا ہے اور وہ ایسے کسی بھی اقدام کے مخالف ہیں۔ مگر ہاں بھارت میں گائے بچاری کو بھی کچھ ہو جائے تو احتجاج یہاں ہو گا۔ یہ اور بات کہ وہاں علیگڑھ یونیورسٹی کا نام آج بھی وہی ہے، یہاں کوئی بھگت سنگھ یونیورسٹی نہ بن سکی۔

یہ دراصل سوچ کا فرق ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ وہ جو کافر ہیں تو وہ تو کوئی نیکی کر نہیں سکتے جبکہ ہم پیدائشی مسلمان خود کو جنت کا حقدار بتاتے ہیں اس لئے فخر سے گناہ کرتے ہیں۔ یہاں لوگ اپنی گاڑی صاف رکھنے کی خاطر باہر سڑک کو گندا رکھتے ہیں، کسی کے گھر جانے کا مقصد اپنائیت نہیں بلکہ جاسوسی ہوتا ہے، یہاں لڑکے کے جوان ہونے کو فخر اور لڑکی کے جوان ہونے کو فکر تدبیر کیا جاتا ہے، یہاں بیمار کی مزاج پرسی محض بدلہ یا احسان ہوتی ہے، یہاں 16 سالہ تعلیم صرف ڈگری کے حصول کے لئے ہوتی ہے شعور کے لئے نہیں اور یہاں خدا، نبی اور عقائد کے نام پر ذاتی مفادات کی دکان لگتی ہے۔

مگرمیری بدقسمتی ہے کہ مجھ سے میرے ہیرو چھین لیے گئے، میرے ادیب و شاعر متنازعے بنا دیے گئے، میری دھرتی کے اصل رکھوالے اور اس کا دفاع کرنے والے مذہب اور مسلک کی لکیر کھینچ کر ہم سے دور کر دیے گئے اور باہر سے لا لا کر جنگجو ہمارے ہیرو اور محسن بنا کر مسلط کیے گئے۔ یہ واقعی نا انصافی ہے، تاریک رات ہے کہ ہمارے تمام محسن متنازع ہیں۔ ہمیں دائرے میں لا کر چھوڑ دیا گیا ہے اور ہم گھومے جا رہے ہیں اور پوچھے جا رہے ہیں کہ سفر کب ختم ہو گا، منزل کب آئے گی۔ واقعی تاریکی سی تاریکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).