لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری


ویسے تو اشارہ بازی کوئی اچھی عادت نہیں ہے مگر شعرا کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ اشعار کے پردے میں کھل کر اشارے بازی کرتے ہیں اور لوگ بجائے برا ماننے کے واہ واہ کرتے ہیں۔ بچپن سے ہم سب اپنے اسکولوں میں ایک نظم اسمبلی کے وقت پڑھتے آئے ہیں۔ اس وقت تو رٹو توتے کی طرح سب کی آواز میں آواز ملا کر پڑھ دیا کرتے تھے۔ البتہ اس نظم میں چھپے اشارے اور مطالب ہماری سمجھ میں اب آئے ہیں۔ چناچہ وہ ہم قارئین کی خدمت میں جوں کے توں پیش کر رہے ہیں۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
اس شعر میں دراصل ایک مشہور سیاست دان کی طرف واضح اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسے سیاست دان ہیں جو دراصل سیاست دان نہیں ہیں مگر سیاست دان بننے کے شوق میں سیاست دان بنتے جا رہے ہیں۔ پہلے وہ اپنا مدعا تمنا کی صورت زبان پر رکھتے تھے مگر کوئی تین سال سے انہوں نے دعا بھی مانگنا شروع کر دی ہے۔ قوم نے اکثر ان صاحب کو چھنگلی میں بڑی سی انگوٹھی ڈالے، بہشتی دروازے سے گزرتے اور ایک دربار کے طاق میں دبکے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کی تمنا شمع کی صورت بننے کی ہے مگر حالات و واقعات سے گمان یہ ہوتا ہے کہ یہ تمنا حسرت میں تبدیل ہو جائے گی اور ان کو اپنی اسی شمع پر گذارا کرنا پڑتے گا جو انہوں نے اسی سال اپنے ویران گھر میں روشن کی ہے۔

دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
شاعر حضرات کی مستقبل بینی کی صلاحیت بعض اوقات حیران کن ہوتی ہے۔ اس شعر میں شاعر نے پاکستان میں پیدا ہونے والے مختلف بحرانوں کی طرف بہت پہلے اشارہ کر دیا تھا۔ شاعر کو علم تھا کہ جس ملک کا خواب وہ غلطی سے دیکھ بیٹھے ہیں اس ملک میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ملک میں ہر طرح کے اندھیروں کا راج ہو گا۔ اسی لیے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ انہی کے دم قدم سے دنیا یعنی اس ملک کا اندھیرا دور ہو جائے اور اس کے لیے وہ ہر لمحہ ہر وقت چمکنے کے لیے تیار تھے۔ ان کی اس خواہش کو ہمارے نجی نیوز چینلز نے پورا کر دیا ہے۔ ان کے بریکنگ نیوز کے فلیش ہر تھوڑی دیر کے بعد چمکنا شروع ہو جاتے ہیں اور ذہنوں پر چھائے ہر قسم کے ”اندھیرے“ اس چمک کی بدولت دور ہو جاتے ہیں۔

ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
یہ شعر بہت مشکل سے سمجھ میں آیا کیونکہ زینت امان اسی ملک میں پیدا ہو گئی تھی جس سے جدا ہونے کا خواب شاعر دیکھ رہے تھے۔ لامحالہ ہمیں کسی اور زینت کی طرف نظریں دوڑانی پڑیں۔ تب ہمیں سمجھ میں آیا کہ شاعر کا اشارہ شاہین کی طرف تھا۔ آپ سکندر شاہین مت سمجھیئے گا۔ شاعر نے غالباً مسرت شاہین کی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ اس ملک میں زینت امان کی ٹکر کی ایک ہی شاہین ہمیں نظر آئی۔ شاعر چاہتے تھے کہ ان کی زندگی میں ہی مسرت شاہین اس ملک میں پیدا ہو جائے تاکہ ان کے افکار و ارشادات کی روشنی میں وہ ہزاروں لاکھوں میں منفرد نظر آئے۔ مگر شاعر کی بدقسمتی، یا شاید خوش قسمتی تھی کہ وہ نیا پاکستان بننے سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ ان کے کافی بعد خانہ برانداز چمن زینت یعنی مسرت شاہین صاحبہ تشریف لائیں۔ افسوس کہ وہ شاعر کا شاہین نہ بن سکیں اور وطن اور چمن کی زینت بہ انداز دگر دنیا کے سامنے آ گئی۔

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
اس شعر میں شاعر نے کمال کر دیا۔ پہلے شعر میں جس سیاست دان کی طرف اشارہ کیا تھا، اس شعر میں ان کی تمنا کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ حکومت کا نشہ اتنا ہی شدید ہوتا ہے کہ انسان اس کے لیے دیوانہ، پروانہ، مستانہ، جیالا، متوالا اور انصافی کچھ بھی بننے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اس تمنا میں وہ کبھی گھوڑا بنتا ہے تو کبھی لوٹا بن جاتا ہے۔ علم کی شمع دراصل سیاست کے وہ داؤ پیچ ہیں جن کو رٹ کر اور پھر آزما کر ایک اچھا بھلا انسان پروانے کی صورت بن جاتا ہے۔ جیسے پروانہ دیوانہ وار شمع کے گرد چکر کاٹتا ہے اسی طرح ایک سیاست دان حکومت حاصل کرنے کے لیے چکر کھاتا ہے۔ کبھی وہ نظریاتی ہو جاتا ہے تو کبھی روحانی بن جاتا ہے۔ کبھی سب سے بھاری ہو جاتا ہے تو کبھی بھائی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ حکومت سے محبت کا تقاضہ یہی ہے کہ سیاست دان پروانے کی طرح پھڑپھڑاتا رہے۔ آج کل ہر طرف پھڑپھڑاہٹ ہے۔ آپ بھی شوق سے دیکھیے۔

ہو میرا کام غریبیوں کی حمایت کرنا درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
اس شعر میں شاعر نے حکومت کے لیے پروانہ بنے سیاست دانوں کو ایک شاندار سبق دیا ہے۔ اور وہ یہ کہ انتخابات سے معاً پہلے انہیں عوام میں جانا چاہیے۔ غریبوں کے حقوق کے لیے بڑی بڑی اور پرجوش تقریریں کرنی چاہئیں۔ جن کے پیٹ میں حکومت کا درد ہو ان سے محبت کرنی چاہیے اور ان کو اپنی جماعت میں شامل کر لینا چاہیے چاہے وہ آپ کی جماعت کو گٹر ہی کیوں نہ قرار دے چکے ہوں۔ شاعر نے کمال چابک دستی سے ہمارے موجودہ سیاسی حالات کا بھی نقشہ کھینچ دیا ہے۔ ضعیف سیاست دان جو نا اہل ہو چکے ہوں ان سے بھی محبت کا اظہار کرنے کی تلقین کر دی ہے ورنہ ضعیف سیاست دان خطرناک ہو جاتے ہیں اور ریاستی اداروں کو نشانے پر رکھ لیتے ہیں۔ ایسے ضعیفوں کے چھوٹے بھائیوں سے دوستی کر لینی چاہیے۔

میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو اسی راہ پہ چلانا مجھ کو
یہ اس نظم کا واحد شعر ہے جو کسی کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔ شاعر سبق دے رہا ہے کہ برائی سے بچتے ہوئے نیک راہوں پر چل کر سیاست کرنی چاہیے۔ مگر ہماری سیاست میں فواد چوہدری، دانیال عزیز، عامر لیاقت، طلال چوہدری، ناصر شاہ، نہال ہاشمی اور پتا نہیں کون کون سے ”نیک“ لوگ گھس چکے ہیں۔ لہٰذا اس شعر کی نہ تو ہمیں سمجھ آئی اور نہ ہی ہم اس کی تشریح کر پائیں گے۔ بس دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ شاعر کی دعا پوری کرے اور سیاست دانوں کو نیک راہ بلکہ ”آپریشن راہ راست“ پر چلنے کی توفیق دے۔ چاہے اس کے لیے بابے ریمتے کے افکار پر عمل کرنا پڑے یا رشک قمر کے قدم سے قدم ملا کر چلنا پڑے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad