یومِ جمہوریہ اور یومِ انقلاب سے مادر ملت تک


میری پیدائش قیامِ پاکستان سے پانچ سال بعد کی ہے۔ پھر بھی اگر آج کے ٹی وی چینلز کی پیروی میں اپنی مرضی کا ٹِکر چلانے کی کوشش کروں تو میرے لئے پاکستان اُس وقت بنا جب اولین وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید ہوئے کوئی چار برس ہو چکے تھے۔ اُس زمانے میں نیم خواندہ بوڑھیاں اپنے بچوں کی عمروں کا حساب مشہور تاریخی واقعات کو آگے پیچھے کر کے لگایا کرتیں۔ ’’جدوں کوئٹہ والا زلزلہ آیا اے، ساڈا نعیم چار ورھیاں دا سی۔ جس دن بھائی امین نے کشمیر ہاؤس والی دکان خریدی، فرحت اسی شام کو پیدا ہوئی‘ ‘۔ اسی طرح مَیں نے بھی جب پاکستان بن جانے کا ذکر پہلی مرتبہ سنا، عین اُس وقت میری نوزائیدہ بہن پنگوڑے میں لیٹی ہوئی تھی۔ اوپر والے باورچی خانے میں دادی کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ’’پاکستان بنیا تے مسلماناں نے پیسہ ویکھیا، تے نال ای اینھاں دے دماغ خراب ہو گئے نیں‘‘۔

اب اگر یہ دعویٰ کروں کہ پاکستان بننے اور پیسہ دیکھ کر دماغ خراب ہو جانے والی بات سنتے ہی میری سمجھ میں آ گئی تو اِس سے بڑی گپ کوئی ہو نہیں سکتی۔ دماغ خراب ہونا کسے کہتے ہیں ؟ یہ تو اندازہ ہی نہیں تھا۔ اور یہ پاکستان بننا کیا ہوا؟ ننھے سے ذہن نے سوچا کہ اردگرد کی گلیاں اور مکان پھر سے بنائے گئے ہیں۔ اگر نئے سرے سے بنائے گئے ہیں تو پھر سیالکوٹ میں ٹبہ سیداں سے پھولوں والی گلی کو جاتے ہوئے بڈھی بازار کے قریب سارے گھر جلے ہوئے کیوں ہیں ؟ اور انہیں دیکھ کر خوف کیوں آتا ہے ؟ یومِ جمہوریہ کا ذکر بھی اسی طرح حیران کن لگا۔ بس ذہن میں اتنا رہ گیا کہ اُس دن ابا کو بیڈمنٹن میچ جیتنے پر دفتر سے انعام ملنے والا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ ساڑھے چار سال کے بچے کو، جو ’کے جی ٹو‘ کا طالب علم تھا، یہ کیسے یاد رہا کہ کہ آج تئیس مارچ کی تاریخ ہے۔

پورا پس منظر سمجھانا چاہوں تو اِس کے لئے کچھ خاندانی راز افشا کرنے پڑیں گے۔ جیسے یہی کہ اُن دنوں عزیز و اقارب میں کس کی شادی کا چرچا تھا اور تئیس مارچ سے ایک رات پہلے ڈھولکی کا ہنگامہ کِن کے یہاں برپا ہوا؟ دلہن تھیں ہماری رشتہ کی پھوپھی، چھوٹی سکینہ، جو اختر بٹ سے بیاہی جا رہی تھیں۔ وہی اختر حسین بٹ جنہیں چچا زاد بہن بھائیوں نے ہمیشہ بھیا کہہ کر بلایا۔ ہمارے بیک ورڈ خاندان میں ڈھولکی سے مراد تھی خالص زنانہ محفل جہاں گھر کی عورتوں کی غن غنی آوازیں کورس کی شکل میں بلند ہوتیں تو موقع پا کر چھوٹے بچے بھی سُر ملانے لگتے۔ ’’وے تھانیدار ا دو منجیاں دا تھاں۔۔۔ وے تھانیدارا، بھُنجے سوئیں گی تیری ماں‘‘ اور اگر آپ دولہا کے طرفدار ہیں تو ’’آ ویر وے پہن کپڑے، جنج تیری سویرے اپڑے، لوجی کسی مالن پرویا سوہنا سہرا، لو جی کسے شوقن سجایا بنے دا سہرا‘‘۔

یوم پاکستان کے حوالے سے آپ کو شادی بیاہ کے نغمے شائد بے جوڑ سے لگے ہوں اور ممکن ہے یہ خیال بھی آیا ہو کہ سوشل میڈیا پر اِس کالم نویس کی بدذوقی اب وائرل ہو جائے گی۔ پر جی، ایک تو میرے لئے ڈھولک کی تھاپ پہ لائیو یا زندہ گائیکی سننے کا یہ تھا ہی پہلا تجربہ۔ دوسرے جب موسیقی کے ساتھ نیند کا غلبہ ہونے پہ مَیں رات گئے اُسی گھر میں سو گیا تو صبح اُٹھ کر سب سے بڑی پھوپھو، آپا ممتاز نے بتایا تھا کہ آج یومِ جمہوریہ کی پہلی سالگرہ ہے۔ مطلب تھا کہ آج مجھے بھی والد کے ساتھ اُن کے دفتر جانا ہے کیونکہ وہاں تقسیم انعامات کی تقریب تھی۔ دفتر کے باہر پریڈ دیکھی، جس میں فوجیوں کے پیچھے توپیں بھی قطار باندھے چلی آ رہی تھیں۔ یہ تو ہوئی صبح کی مصروفیت۔ سہ پہر کو اپنے اسکول کے فنکشن کے لئے ایک بڑی گراؤنڈ کا رخ کیا، جہاں میرے ساتھ ایک ہینڈ ہو گیا۔

آج کے پاکستان کی طرح یوم جمہوریہ کی پہلی سالگرہ پہ بھی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ جو ہینڈ ہوا، وہ مذاق ہے یا کسی کی بدنیتی۔ دراصل ’کے جی ٹو‘ والا بچہ اسکول کی تقریب میں جانے کے لئے اپنی استانی مس سلمی کے ساتھ تانگے میں بیٹھا تو ماں نے چند سکے جیب میں ڈال دیے کہ خوشی کا موقع ہے، کچھ کھا پی لینا۔ مارکیٹ روڈ کی گراؤنڈ میں، جہاں سے نامور کھلاڑی شہناز شیخ نے ہاکی کھیلنے کی ابتدا کی، اُس دن اسکولوں کے بچے ہاتھوں میں رنگا رنگ رومال لہراتے ہوئے پی ٹی شو کر رہے تھے۔ لہراتے ہوئے رنگ آنکھوں کو بھلے تو لگے، مگر کچھ ہی دیر میں میری توجہ ایک اور منظر نے کھینچ لی۔ چھوٹی چھوٹی سفید رنگ کی ریڑھیاں، جن میں سے ہر ایک پہ لکھا تھا ’اِیٹ مور‘ آئس کریم۔ یہ نام سیالکوٹ کینٹ کے ایک فوڈ آؤٹ لیٹ کا ہے جسے شہر کے اکثر لوگوں نے پارک کیفے کی طرح غلام قادر کا ہوٹل ہی کہا۔

ڈیڑھ برس پہلے میری تیسری سالگرہ پر بڑے ماموں نے مجھے تین پہیوں والی سائیکل تحفے میں لے دی تھی۔ پھر ابا نے یہی حرکت اپنے بھانجے کی سالگرہ پہ کر دی۔ چنانچہ ’کے جی ٹو ‘ کے ذہن میں ہر سالگرہ کے ساتھ تین پہیوں والی چیز کا تصور مستقل طور پہ چپک کر رہ گیا تھا، چیز بھی وہ جو اِدھر اُدھر بلاتکلف گردش کر رہی ہو۔ گراؤنڈ کے اندر ایک ریڑھی والے سے کہا کہ بھائی، آئس کریم دینا۔ اُس نے پرانے سکوں کے حساب سے ایک آنا لیا اور تیلے والی دو عدد قلفی نما آئس کریمیں تھما دیں۔ تب روپے میں سولہ آنے اور ہر آنے میں چار پیسے ہوتے تھے۔ مَیں نے پوچھا ’’یہ دونوں دو دو پیسے کی ہیں؟‘‘ ’’ایک تین پیسے کی ہے اور دوسری ایک پیسے کی‘‘۔ عجیب سا جواب تھا۔ سوچا کہ تین پیسے والی واپس کر کے، ایک ایک پیسے والی دو خرید لوں تو دو پیسے بچ جائیں گے۔ اب جو دیکھا تو ریڑھی غائب۔

کسی کی جستجو کہتے کسے ہیں ؟ اور اِس دوران بندے پہ کیا گزرتی ہے؟ اُس وسیع و عریض میدان میں جگہ جگہ بچوں کی ٹولیاں تھیں اور بیچ میں سفید رنگ کی تین پہیوں والی کئی ریڑھیاں۔ سب ایک جیسی، سب پہ ایک جیسے جلی حروف ’اِیٹ مور آئس کریم‘۔ ہر ریڑھی والے کو دیکھوں تو یہی لگے کہ میں نے آئس کریم اسی سے لی تھی، قریب جاؤں تو کوئی اور۔ گھڑی کی سوئیوں کے رخ پر مَیں کتنی بار دائرے میں گھوما ؟ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہاں، وہ اضطراری کیفیت نہیں بھولتی جس نے مجھے چابی دے رکھی تھی۔ اچانک ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ وہ یہ کہ دائیں ہاتھ والی آئس کریم پگھل کر زمین پہ گر گئی۔ کیا محرومی کا احساس ہوا تھا ؟ نہیں، بس انتہا درجہ کی حیرت ہوئی، جس کی زد میں آ کر دوسری آئس کریم بھی قطرہ قطرہ نیچے جا گری۔ بالکل یوں جیسے نورجہاں نے کبوتر چھوڑ کر کہا تھا ’ایسے اڑ گیا‘۔

آج جو لوگ یوم جمہوریہ کے یوم پاکستان بننے پہ سوال اٹھا رہے ہیں، وہ مجھ سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ شاہد صاحب، آپ کو پگھلی ہوئی آئس کریم کبھی واپس ملی یا نہیں۔ جواب ہو گا کہ حضور، میری آئس کریم تو روز پگھلتی اور روز زمین پہ جا ٹپکتی ہے۔ پر یہ ایک پیسے والی آئس کریم ہے یا تین پیسوں والی، مجھ پہ ابھی تک یہ نہیں کھُلا۔ ہاں، ابتدائی واقعہ کے سات سال، سات مہینے اور چار دن بعد ایک مرحلہ ایسا ضرور آیا جب ایک عام آدمی نے مارکیٹ روڈ سیالکوٹ کے حادثہ کی تلافی کر دی۔ یہ وزیر اعظم چودھری محمد علی کے تئیس مارچ والے یوم جمہوریہ کی سالگرہ نہیں، جنرل ایوب خاں کے ستائیس اکتوبر والے یوم انقلاب کی سالگرہ تھی، جس کی بدولت ’کے جی ٹو‘ کے ذخیرہء الفاظ میں، جو سی ایم ہائی اسکول واہ کینٹ کی آٹھویں جماعت میں پہنچ چکا تھا، ’قومی سلامتی‘ اور ’سیاسی استحکام ‘ کی تراکیب کا گراں قدر اضافہ ہوا۔

ویلفیئر کلب واہ کے میدان میں اسکولوں کے طلبہ و طالبات ایک بار پھر ’فال اِن‘ ہیں۔ اسٹیڈیم کے تین اطراف عوام کا ہجوم ہے اور چوتھی جانب وہ جو کہتے ہیں اعلی فوجی اور سول حکام۔ پی ٹی شو کی کمان دوسری جنگِ عظیم کے تربیت یافتہ ہمارے بینڈ ماسٹر غلام سرور عرف کنڈور کے ہاتھ بلکہ منہ میں ہے۔ منہ اِس لئے کہ بقول شخصے، اللہ کی قسم، ایک ہی پھیپھڑا ہے کائنات میں۔ ’’نظریں سامنے چھاتی باہر، خدا کی زمین دکھتی نہیں۔ ٹین چھا (یعنی ’ہوشیار‘) ‘‘۔ پھر ارشاد ہوتا ’’نہیں ہے جان۔ زور سے‘۔ ایک روز تو جوش دلاتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو کا نام لے کر ایسا پھڑکتا ہوا جملہ کہہ گئے جو کسی صورت دہرایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے 1964 ء والے یوم انقلاب پہ، جس کا نقشہ باندھ رہا ہوں، آپ نے یہ حرکت تو نہ کی، لیکن پاکستان اور قائد اعظم کے ساتھ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان زندہ باد کا نعرہ خوب طنطنہ سے لگوا دیا۔

سرکاری جشن کی اُس فضا میں بینڈ ماسٹر صاحب بھول گئے تھے کہ چند ہفتوں میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور ملک بھر میں بانی پاکستان کی بہن کے حق میں، جنہیں مادر ملت کہا جاتا، عام لوگوں کے جذبات عروج پہ ہیں۔ ایوب خان والے نعرے کے بعد ابھی افسروں کے پنڈال میں تالیاں گو نج رہی تھیں کہ عوام میں سے ایک تہمد پوش صحتمند آدمی صفوں کو چیرتا ہوا میدان کے وسط میں کودا اور دایاں بازو نیم دائرے کی شکل میں گھما کر چلایا ’’ما۔۔۔ درے۔۔۔ مِل۔۔۔ لت‘‘۔ مجمع نے زوردار جواب دیا۔ بازو دوبارہ گھوما۔ جواب پہلے سے بھی بھرپور۔ پولیس تہمد پوش کو جکڑنے کے لئے گراؤنڈ کے مرکز کی طرف بھاگی۔ افسروں میں کھلبلی سی مچ گئی۔ پنڈال تیزی سے خالی ہونے لگا۔ بینڈ ماسٹر نے ’’پریڈ ڈِس مِس‘‘ کا اعلان کیا تو مجھے لگا کہ قطرہ قطرہ پگھلی ہوئی آئس کریم ایک لحظے کے لئے دوبارہ میری مُٹھی میں آ گئی ہے ‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).