ملازمت کے معذوری کوٹے کا مذاق


حیدرآباد سندھ سے تعلق رکھنے والا میرا دوست یونس عباسی جرات و ہمت کا ایک بے مثال کردار ہے۔ پیدائشی طور پر ایک ٹانگ میں جزوی لنگ ہونے کے باوجود اس نے کبھی اپنی معذوری کو اپنے بلند ہمت ارادوں کے آڑے نہیں آنے دیا۔ اوائل عمری میں ہی اس نے شمال کے پہاڑوں میں موجود ایسے ایسے مشکل ٹریکس کیے ہیں جہاں جانے کا سوچ کر بھی ہم ایسوں کے دل دہل جاتے ہیں۔ فطرت سے بے پناہ پیار کرنے والے اس شخص کا گزشتہ دنوں ایک خط موصول ہوا جس میں اس کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے بارہ میں پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ آپ بھی یونس عباسی کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کی داستان ان ہی کے الفاظ میں پڑھیے اور حقائق کے ساتھ جانیے کہ ہمارا نظام کس حد تک بے حسی کا شکار ہو چکا ہے۔

”دس نومبر 2017 کے اخبار میں معذوری کے کوٹے پر کچھ آسامیوں کا اشتہار آیا ہوا تھا۔ میں نے اسے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپلائی کیا۔ پہلی جنوری 2018 پیر کے دن ٹیسٹ کے لیے فہرستیں آویزاں ہوئیں تو میرا 117 واں نمبر تھا۔ فہرست میں ہر کسی کے ذاتی کوائف کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی لکھی ہوئی تھی۔

میں نے اپنی تعلیم چیک کی تو سب سے زیادہ تھی۔ یعنی ایم اے اسلامیات، ایم اے اردو، ایم اے عریبک، ایم ایڈ پلس کمپیوٹر کورس، او ٹی سی کورس، اور ٹیچر کے تجربہ کے سرٹیفیکیٹس تھے۔
6 مارچ والے دن ٹیسٹ تھا۔ میں ڈی سی آفس دادو ٹیسٹ دینے پہنچا تو بتایا گیا کہ معذور افراد 12 مارچ کو ٹیسٹ دینے آئیں۔ اپنی معذوری کے ساتھ بار بار ٹیسٹ کے لیے آنا ہمارے لیے سوہان روح تھا۔ لیکن مرتے کیا نا کرتے ہمیں واپس جانا پڑا۔

12 مارچ کی صبح کسی نا کسی طرح دوبارہ ٹیسٹ دینے پہنچ گئے۔ میں نے واضح طور پر دیکھا کہ وہاں کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے نا تو کوئی کاغذات جمع کروائے تھے نا ہی ان کا نام فہرست میں تھا اس کے باوجود وہ ٹیسٹ دینے کے لیے بیٹھے تھے۔

ہمیں کہا گیا کہ جو لوگ پڑھے لکھے نہیں ان سے ٹیسٹ نہیں لیا جائے گا براہِ راست انٹرویو ہو گا۔ جب کہ باقیوں سے ٹیسٹ لیا جائے گا۔ یہ سراسر میرٹ کی خلاف ورزی تھی اور تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ نا انصافی۔ لیکن ہم صبر کر کے ٹیسٹ میں بیٹھ گئے۔

ٹیسٹ میں کل چھ سوال انگلش کے تھے اور میں نے چھ کے چھ حل کر لیے اور واپس آ کر انٹرویو کی تیاری کرنے لگا۔ مجھے اپنی تعلیم اور حل شدہ پیپر کی بنیاد پر مکمل یقین تھا کہ میں ان شا ء اللہ انٹرویو کے لیے بلوایا جاؤں گا۔ لیکن جب انٹرویو کے لیے فہرست لگی تو میرا اس میں نام ہی شامل نہیں تھا۔

مجھے سخت مایوسی ہوئی لیکن میں حوصلہ کرتے ہوئے ڈی۔ سی آفس میں داخل ہو گیا اور ڈی سی جناب شاہ زمان کھیڑو سے گزارش کی کہ مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔
اس دوران پولیس والوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی تو ڈی۔ سی صاحب نے کہا کہ اسے چھوڑ دو۔
میں شکریہ ادا کرتے ہوئے گزارش کی کہ سر میرے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے آپ بے شک میرا پیپر دوبارہ چیک کروا لیں۔

خیر ڈی سی صاحب کے حکم پر کاپی دوبارہ چیک کروائی گئی تو تمام جواب درست نکلے لیکن اس کے باوجود ان پر نمبر نہیں لگے تھے۔ یہ بہت بڑا بلنڈر تھا۔ ڈی سی صاحب نے ٹالنے کی خاطر کہا کہ آپ کو انٹرویو کے لیے بلا لیں گے۔ اور آپ کا نام لکھتے ہیں میں نے ڈی سی صاحب کو کہا سر نام میرے سامنے نام لکھو گے میرے جانے بعد نام مٹ جائے جن بندوں کو اٹھانا وہ تو آپ لوگوں نے پہلے سے ہی نام لکھ لیے ہیں مجھے میرا حق دیا جائے۔ میرے ساتھ انصاف کیا جائے

لیکن ان کے پاس تو شاید پہلے ہی سے کہیں ہدایات تھیں۔ انہوں نے میری ایک نا سنی۔ میں رات آٹھ بجے تک دفتر میں بیٹھا رہا لیکن کسی نے بات کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ موقع پر جھوٹ پکڑے جانے کے باوجود مجھے کوئی انصاف نہیں دیا گیا۔ حتی کہ میں تھک ہار کر واپس آ گیا۔

میں اس وجہ سے مایوس نہیں کہ مجھے انصاف نہیں ملا۔ بلکہ اس وجہ سے مایوس ہوں کہ آخر اس گلے سڑے اور بوسیدہ سفارشی نظام سے نکلنے کا کوئی راستہ ملے گا یا مجھ جیسے لوگ جن کے پاس قابلیت تو ہے لیکن سفارش نہیں وہ یونہی دھکے کھاتے اور نا انصافی کا شکار ہوتے رہیں گے؟
میں یہاں اپنی معذوری یا لاچارگی کا رونا نہیں تو رہا۔ بلکہ ہمارے نظام کی بوسیدگی سے آگاہ کرنا چاہ رہا ہوں جو رفتہ رفتہ ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔

میں اکثر بچپن میں تاریکی اور روشنی کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلا کرتا تھا، چند سیکنڈ سورج کو دیکھ کر کمرے میں آ جاتا اور سب کھڑکیاں دروازے بند کر دیتا مکمل اندیھرا چھا جاتا تھا روشنی اندیھرے کو ڈھونڈتی ڈھونڈتی دروازے کے چھوٹے سے سوراخ سے اندر آجاتی تھی اور ہر طرف پھیل جاتی تھی۔ میں جان لیتا تھا کہ گھپ اندیھرے کو مات دینے کے لیے روشنی کی ایک کرن ہی کافی ہے۔

روشنی کی یہ جیت مجھے اپنی جیت لگتی تھی تب سے ایک بات ذہن میں بیٹھ گئی کہ اندیھرے کا قیام عارضی ہے۔ زندگی میں بھی یہ آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے جب سب درواذے بند ہو جائیں ہر طرف اندیھرا چھا جائے مایوسیوں کے سائے گہرے ہونے لگے تو ایسے میں امید کی چھوٹی سی کرن زندگی میں روشنی بکھیر دیتی ہے۔ اچھا برا وقت چھپن چھپائی کے کھیل کی طرح چلتا رہتا ہے۔
بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہوا کرتی ہے۔ لیکن میرے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے نے میری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے ہمارے اربابِ اختیار ایک ایسے اندھیرے کی نذر ہو چکے ہیں جہاں سے روشنی کا کسی صورت گزر نہیں۔

کہاں ہیں انصاف کے علمبردار؟
‎کہاں ہیں معزوروں کو معاشرے کا اہم حصہ بنانے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان؟
‎کوئی ہے جو اس نانصافی کو روکے؟

‎معذوری کے باوجود تعلیم کی آخری حدوں کو مکمل کرنے کے باوجود بھی مجھے سفارش اور رشوت کے کلچر کی نذر کیا جا رہا ہے۔ کیا پاکستان کی کوئی عدالت یا معذوروں کے حقوق کی علمبردار کوئی تنظیم اس کا نوٹس لے گی؟ “

یونس عباسی کے سوالات کی گونج ابھی تک میرے دل و دماغ پر قائم ہے۔ کاش کہ میں اس کے ان سوالات کا کوئی جواب دے سکتا۔ شاید آپ احباب میں سے کوئی ایسا ہو جو اس عظیم انسان کو انصاف دلا سکے۔ اور معاشرے کے ایک اہم فرد کو مایوسی کی گہرائیوں میں گرنے سے بچا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).