کیا چوہدری نثار کو ٹکٹ ملے گا؟


چوہدری نثار علی خان کے ٹکٹ کے تنازعہ پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی یہ منطق مضحکہ خیز ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی ٹکٹ کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کا پا رلیمانی بورڈ کرے گا۔ بے حد افسوس کی بات ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اور پارٹی کا سنیئر لیڈر اتنی مضحکہ خیز بات کرے۔ کیا شاہد خاقان عباسی یہ چاہتے ہیں کہ ہم یہ یقین کر لیں کہ مسلم لیگ (ن) میں فیصلے کسی فورم پر ہوتے ہیں۔ مشاورت سے ہوتے ہیں۔ کیسے یقین کر لیں ۔ آخر جھوٹ بولنے اور عوام کو بیوقوف بنانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

کس کو نہیں پتہ کہ مسلم لیگ (ن) میں فیصلے جاتی عمرہ کے ڈرائنگ روم میں ہوتے ہیں۔ پسند اور نا پسند ۔ ضرورت اور مفاد کے تناظر میں کیے جانیو الے یہ فیصلے کسی فورم اور مشاورت کے محتاج نہ تھے نہ ہیں اور نہ ہی ہو سکتے ہیں۔ یہ پارلیمانی بورڈ ۔ سینٹرل ایگزیکٹو ۔ مرکزی مجلس عاملہ ۔ پارلیمانی پارٹی سب جاتی عمرہ کے فیصلوں پر ٹھپہ لگانے کے فورم ہیں۔ نہ ان کی اپنی کوئی سوچ ہے۔ نہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کا کوئی مجاز ہے۔

کیا نواز لیگ کے کسی پارلیمانی بورڈ میں جرات ہے کہ نواز شریف سے اختلاف کرنے والے کو ٹکٹ دے دے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ ویسے بھی پہلا سوال یہ ہے کہ پارلیمانی بورڈ کیسے بنے گا۔ کیا اس کے بننے کا کوئی فارمولہ کوئی میرٹ موجود ہے کہ کون پارلیمانی بورڈ کا ممبر بنے گا اور کون نہیں بن سکتا۔ اگر تمام ممبران جاتی عمرہ سے نامزد ہونے ہیں تو فیصلے بھی جاتی عمرہ میں ہی ہونگے۔ یہ بو رڈ تو صرف ٹھپہ پر ٹھپہ لگانے کے ہی کام آئے گا۔جاتی عمرہ سے جس کا پتہ کٹ جائے یہ پارلیمانی بورڈ تو اس کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتا۔

لیکن یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے اس طرح کی بات کی ہے اس سے پہلے شہباز شریف آیندہ انتخابات میں وزیر اعظم کے امیدوار ہونگے کے فیصلے پر بھی انھوں نے یہی کہا تھا کہ کون وزیر اعظم ہو گا کون نہیں ہو گا اس کا فیصلہ تو پارلیمانی پارٹی کرے گی۔ کون پوچھے بھائی شاہد خاقان عباسی سے کہ آپ کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا کسی پارلیمانی پارٹی نے کیا تھا۔ جو شہباز شریف کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کرے گی۔ جیسے آپ کو جاتی عمرہ کے ڈرائنگ روم سے نامزد کیا گیا تھا ویسے ہی شہباز شریف کو بھی جاتی عمرہ کے ڈرائنگ روم سے ہی نامزد کیا جا رہا ہے۔

آجکل ویسے بھی وزیر اعظم کی طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔ وہ یوم پاکستان کی پریڈ میں بھی سو گئے تھے۔ وزیر اعظم ہوتے ہوئے نجی دورہ پر امریکا چلے گئے۔ وہاں امیگریشن میں تلاشی دیتے رہے۔ ایک طرف عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی جماعت میں کوئی شخصی آمریت نہیں ہے۔ دوسری طرف وہ نواز شریف کی تسبیح پڑتے نہیں تھک رہے۔ بطور وزیر اعظم وہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو جیل بھی ہوگئی تو پارٹی کی قیادت جیل سے کریں گے۔ جیل سے نواز شریف کی پالیسی چلے گی۔ دوسری طرف یہ کہہ رہے ہیں کہ فیصلے پارلیمانی پارٹی اور بورڈ کرے گا۔

ویسے تو شخصی آمریت اور خاندانی ملکیت کے حمام میں صرف مسلم لیگ (ن) ہی نہیں بلکہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں ننگی ہیں۔ یہ سب ایک سکے کے مختلف رخ ہیں۔ سب فرد واحد کی پسند و ناپسند کی محتاج ہیں۔ آپ دیکھ لیں کسی بھی جماعت کا کوئی باقاعدہ دفتر نہیں ہے۔ سب کے مالکان اپنی اپنی جماعت کو اپنے اپنے گھر سے ہی چلاتے ہیں۔ جو جاتی عمرہ پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف بھی بنی گالہ کی محکوم ہے۔ اور جمہوریت کے لیے خون دینے اور کوڑے کھانے والی پیپلزپارٹی بھی بلاول ہاؤس کے گھر کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ عمران خان بھی اپنی جماعت میں کسی فورم یاا دارے کے قائل نہیں ہیں۔ من پسند لوگوں کے ساتھ بنی گالہ میں بیٹھ کر من پسندفیصلے کرنا ہی ان کی جماعت کا طرہ امتیاز ہے۔ ملک

میں فری اینڈ فیئر انتخابات کا مطالبہ کرنے والے عمران خان اپنی جماعت میںفری اینڈ فیئر انتخابات کروانے میں مکمل ناکام رہے۔ ملک میں دھاندلی کے خلاف شور کرنے والے عمران خان اپنی جماعت کے اندر انتخابات میں دھاندلی پر خاموش ہو گئے۔ اپنے مخالفین کو احتساب سے مارنے کی خواہش رکھنے والے عمران خان کی اپنی حکومت میں قائم احتساب کمیشن غیر فعال کیوں۔ کوئی سوال بھی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی میں بھی ایسے ہی ہے۔ جب زرادری صاحب نے اعلان کیا کہ وہ نہیں چاہتے کی رضا ربانی چیئرمین بنیں۔ وہ سچ بول رہے تھے ۔ کیونکہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا۔ شاید پارٹی کی یہ رائے نہیں تھی لیکن پارٹی ان کی ذاتی رائے کے تا بع تھی اور تا بع ہے۔

اس میں نہ پہلے کبھی ابہام تھا نہ اب کوئی ابہام ہے۔ نہ آیندہ کوئی ابہام ہو گا۔ اسی طرح اسفند یار ولی خان نے اپنی شخصی آمریت قائم کرنے کے لیے اپنی والدہ بیگم نسیم ولی خان کو پارٹی سے نکال دیا۔ اس لیے سب ہی حمام میں ننگے ہیں۔ بلوچستان میں آئین و جمہوریت کا راگ الاپنے والے محمود خان اچکزئی کو بھی گورنر کے لیے اپنے بھائی سے موزوں کوئی نہیں ملا۔ کیونکہ اقتدار گھر سے باہر نہیں جا سکتا۔ الطاف حسین بھی باقی ماندہ پارٹی ندیم نصرت کو نہیں بلکہ اپنی بیٹی کو دینا چاہتے ہیں۔ جیسے پہلے لکھا ہے۔ کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی کمزوری کی وجہ فوج یا اسٹبلشمنٹ نہیں ہے بلکہ اس کی واحد وجہ سیاسی جماعتوں کے اندر کی آمریت ہے۔ لیکن جمہوریت کی دعویدار ہماری سیاسی قیادت اپنی جماعتوں میں جمہوریت قائم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

بہر حال یہ سب حقیقت اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی ایسی باتیںکیوں کر رہے ہیں۔ بے شک وزیر اعظم بننا ان کے لیے خواب سے کم نہیں ہے۔اسی لیے وہ اس وزارت عظمی کو بھی خواب ہی سمجھ رہے ہیں ۔ ویسے بھی آیندہ کے لیے نواز شریف نے شہباز شریف کو نامزد کر دیاہے۔جس طرح ایک خواب دوبارہ نہیں دیکھاجا سکتا۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی بھی دوبارہ وزیراعظم نہیں بن سکتے۔

یہ بھی ان کا خواب ہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں تمام فیصلے مشاورت اور مجاز فورم پر ہی ہوں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے‘ جب فیصلے کرنے کا ایک واضح طریقہ کار موجود ہو۔ کوئی شخصی آمریت نہ ہو۔ پارٹی پر کسی فرد کا نہیں بلکہ اصولوں کا غلبہ ہو۔ لیکن جب شاہد خاقان حقیقت کی دنیا میں آتے ہیں نواز شریف کی تسبیح پڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ انھیں پتہ ہے کہ وہ آج صر ف اور صرف نواز شریف کی خوشنودی کی وجہ سے وزیر اعظم ہیں۔ اور دوبارہ بھی اگر انھوں نے کچھ بننا ہے تو اس کے لیے وہ نواز شریف کی خوشنودی ہی ضروری ہے۔ اس لیے ہمیں دو شاہد خاقان نظرا ٓرہے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ مجھ سمیت سب ہی دو شاہد خاقان دیکھ رہے ہیں کہ ایک شاہد خاقان جو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ قدم سے قدم سے قدم ملا کر چل رہا ہے۔ دوسرا وہ جو نواز شریف کا نام لے رہا ہے۔ ایک وہ جو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہے دووسرا وہ جو نواز شریف کے لیے کبھی کبھی اداروں کو للکار بھی لیتا ہے۔ ایک وہ جو بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت کے خاتمہ پر خاموش تماشائی بنا رہا دوسرا وہ جو سنجرانی پر تنقید کر رہا ہے۔ میں اور آپ ان دونوں شاہد خاقان سے بس لطف اندوز ہی ہو سکتے ہیں۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).