نہ جام رہا، نہ ساقی


لاہور اور کراچی میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کا 87 واں یوم وفات منایا جارہا تھا اور کراچی میں ترقی پسند رہنما کامریڈ جام ساقی کے تعزیتی جلسے میں ان کی خدمات کو سراہا جارہا تھا۔ بھگت سنگھ کو میں پاکستان کا پہلا شہید کہتی ہوں۔

وہ پنجاب کی سرزمین سے اٹھنے والا ایسا شیر دل تھا جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر برطانوی راج کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ 23 برس کی عمر میں پھانسی چڑھ گیا اور برصغیر کی جدوجہد آزادی میں اپنی شاندار جدوجہد کے آثار چھوڑ گیا۔

آزادی کے بعد استحصالی طبقات اور فوجی آمریت کے خلاف سندھ سے جام ساقی نے علم بغاوت بلند کیا اور اس قافلے میں شامل ہوگیا جو سپارٹکس سے شروع ہوکر روپلوکوہلی، بھگت سنگھ، سکھ دیو، نظیر عباسی، ایاز سموں اور برصغیر کے دوسرے بہت سے جاں نثاروں تک آتا ہے۔

 مجھ سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ جام ساقی کو نہ پھانسی دی گئی، نہ اس نے کسی فائرنگ اسکواڈ کا سامنا کیا تو پھر اس کا نام شہیدوں کی فہرست میں کیسے شامل کیا جائے۔ یہ سوال کرنے والوں سے میں پوچھتی ہوں کہ جام ایسے شیر دلیر نے بے قابو اور دہشت ناک طاقتوں کے ہاتھوں جو شدائید سہے، اپنے چین آرام سے جس طرح کنارہ کیا، اس کے خاندان نے موت کو جس طرح جھیلا وہ سب کچھ پھانسی کے پھندے اور تولہ بھر بارود کے پروں پر بیٹھ کر آنے والی موت سے کیا کم تھا۔

ہم دس دنوں کی قید تنہائی کا تصور کرکے کانپ جاتے ہیں، جام نے برسوں قید تنہائی میں شدید اذیتوں کے درمیان گزارے۔ ہم علاج کے لیے لگائے جانے والے انجکشن کی سوئی چبھنے سے تڑپ جاتے ہیں، اس کو سیکڑوں زہریلے انجکشن لگائے گئے۔ اصل حاکم اسے توڑنا چاہتے تھے، اس سے جھوٹے بیانات لینا چاہتے تھے، لیکن چھاچھرو کی مٹی سے اٹھنے والا یہ فرزندِ زمین، اپنی دھرتی سے اور اپنے مظلوم لوگوں سے غداری نہ کرسکا۔ وہ اسکول کے زمانے سے جس عوامی جدوجہد میںشامل ہوا آخری سانس تک اسی سے جڑا رہا۔ نوجوان جس عمر میں حسیناؤں کے خواب دیکھتے ہیں، اس عمر میں وہ اپنے اور دنیا کے محروم اور مظلوم طبقات کی زندگی سنوارنے کے خواب دیکھتا تھا اور گنگناتا تھا:

آپ زلفِ جاناں کے خم سنواریے صاحب
زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے

اس پر غداری کا مقدمہ چلا، کہا یہ گیا کہ وہ ہندوستان اور سوویت یونین کے ہاتھوں بک گیا ہے۔ شنید تھی کہ اسے قتل کر کے ہندوستانی فوج کی وردی پہنادی جاتی اور پھر اس کی تصویر ہمیں دکھائی جاتی کہ دیکھو ہم نے کیسے غدارِ وطن کو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے لیکن خبر اس تک بھی پہنچی اور وہ روپوش ہوگیا۔ غداری کا یہ نسخہ ہمارے فوجی آمروں کے کام نہ آسکا۔

اس نے عمر بھر اپنے محروم و مقہور لوگوں کی زندگی بدلنے کے خواب دیکھے۔ ان خوابوں کی سزا میں اس نے دس برس سے زیادہ کی جیل کاٹی۔ وہ جیل جس میں اس کا مقدر شدید جسمانی اور ذہنی اذیتیں ہوئیں۔ یہی وہ دن تھے جب اس کا بیٹا موت سے ہمکنار ہوا اور اس کی بیوی سکھاں نے اس پر گزرنے والے تشدد کی خبر سن کر خودکشی میں پناہ لی۔ جام کا قصور یہ تھا کہ اس نے عوامی حقوق کے حصول کے لیے ندیم اختر، میر تھیبو، شاہ محمد شاہ، عنایت کشمیری اور دوسرے ساتھی طلبا کے ساتھ مل کر سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی، ون یونٹ کے خلاف پرزور مہم چلائی، گرفتار ہوا تو یہ مقدمہ حیدرآباد سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ اس پر غداری کا مقدمہ چلا تو اس نے ملک کے کئی سیاستدانوں کو اپنی صفائی دینے کے لیے بلایا، ان میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہماری بے مثال سیاسی رہنما طاہرہ مظہر علی بھی شامل تھیں۔

بے نظیر بھٹو کا سب نام لیتے ہیں لیکن انجمن جمہوریت پسند خواتین کی طاہرہ مظہرعلی کا نام کسی کو یاد نہیں رہتا جنھوں نے حیدرآباد ٹربیونل میں گواہی دیتے ہوئے کہا تھا ’’میں جام ساقی کی بے حد عزت کرتی ہوں۔ اسیری کے دوران اس کی بیوی اور بچہ ہلاک ہوگئے لیکن جام ساقی ثابت قدم رہا۔ یہی چیزیں انسان کا اعتبار قائم کرتی ہیں۔ کام کی امنگ اور حوصلہ، کاروں اور قالینوں سے نہیں بلکہ ایسے ہی لوگوں سے ملتا ہے‘‘۔

یہ وہی تھا جس کے محب وطن ہونے کی گواہی دینے ملک کے بڑے بڑے سیاستدان حیدرآباد آئے۔ ولی خان، جی ایم سید، غوث بخش بزنجو اور بے نظیر بھٹو بھی تھیں، جنھوں نے حیدرآباد ملٹری کورٹ میں کہا تھا کہ ’’جام ساقی ایک محب وطن سیاسی رہنما ہے‘‘۔ اس موقع کی ایک تاریخی تصویر بھی ہے۔ فوجی افسرکے سامنے بے نظیر بیٹھی ہوئی ہیں اور جام اپنی ہتھکڑی کی زنجیر گلے میں ڈالے کھڑا ہے۔

اس کے چہرے پر شکست کی تحریر کے بجائے ایک فاتحانہ مسکراہٹ ہے۔ یہ خواب دیکھنے اور خواب دکھانے کے دن تھے۔ جام ساقی کا میں نے اس کے بعض دوستوں سے بہت تذکرہ سنا تھا اور اس سے ملنے کی خواہش تھی۔ یہ شاید 1987 تھا جب مجھے جیل سے جام کا خط ملا۔ اس نے یہ خط میری ایک کہانی پڑھ کر لکھا تھا اور مجھ سے پوچھا تھا کہ تم نے ’’جسم و زباں کی موت سے پہلے‘‘ کیسے لکھی؟ یہ کال کوٹھری میں اذیتیں سہنے والوں کی ذہنی اور نفسیاتی حالتوں کی دھوپ چھاؤں کا معاملہ ہے۔ یہ تو میری کہانی ہے۔ اس کے لکھے ہوئے ان لفظوں نے مجھے سرشار کردیا تھا۔

وہ ان لوگوں میں سے تھا جو سر اٹھا کر یہ کہتا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ بہ طور فرد میں پہلا آدمی تھا جس نے بنگال کے عوام کے قتل عام کے خلاف آواز اٹھائی۔ آج اس کا یہ نعرہ مستانہ بہت کم لوگوں کو یاد ہے۔

فوجی آمریت اس لیے جام کے خلاف تھی کہ وہ سوال اٹھاتا تھا۔ یہ سوال کہ ہندوستان کی آبادی 80 کروڑ اور فوج 10 لاکھ ہے جب کہ ہماری آبادی 9 کروڑ اور فوج 6 لاکھ ہے۔ وہ کہتا تھا کہ ہمارا گھر تو بہت چھوٹا ہے ہم اتنے چوکیدار نہیں رکھ سکتے۔ اس نے 1988 میں ہونے والے انتخابات سے پہلے اس وقت کی فوجی حکومت کے احتساب کا ذکر یوں کیا تھا کہ جن لوگوں پر خود احتساب قرض ہے وہ احتساب کرنے چلے ہیں۔ گویا بھینس گائے کا اس بات پر احتساب کررہی ہے کہ اس کی دُم کالی کیوں ہے۔ جب کہ بھینس خود مجسم سیاہی ہے۔

جام ہم سے رخصت ہوا تو کئی دوست اسے رخصت کرنے اور اس کا پُرسہ کرنے نہیں آئے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ جو عمر بھر کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہا زندگی کے آخری برسوں میں وہ پارٹی سے علیحدہ ہوگیا تھا۔ کیسا ایماندار تھا کہ جب اسے پارٹی سے اختلافات ہوئے تو اس کا اظہار جام نے برملا کیا اور استعفیٰ دے دیا۔

اسے جمہوریت پر یقین تھا، اس نے 1988میں الیکشن لڑا اور ہار گیا۔ وہ شخص جس نے زندگی اپنے لوگوں پر نثار کردی تھی ان اپنوں نے ہی اسے ووٹ نہیں دیا۔ اس کے باوجود جام نہ اپنے لوگوں سے ناراض ہوا اور نہ جمہوریت سے اس کا ایمان اٹھا۔

جام کی بیماری پاکستان کی ترقی پسند سیاست کا بہت بھاری نقصان تھی، اس لیے کہ اب وہ کسی انقلابی یا جمہوری تحریک کی رہنمائی کا اہل نہیں رہا تھا۔ اس نے ہمیشہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کیے۔ تمام زندگی کمیونسٹ پارٹی کو دان کی لیکن جب محسوس کیا کہ پارٹی سے اختلافات بہت بڑھ گئے ہیں تو منافقت کے بجائے سچ بولتے ہوئے نہایت وقار کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی سے علیحدہ ہوگیا۔ یہی کمال پروفیسر جمال نقوی نے کر دکھایا کہ تمام زندگی کمیونسٹ پارٹی کی نذر کی۔ لمبی جیل کاٹی۔ وہ بھی حیدرآباد کیس میں ملوث کیے گئے تھے۔ انھوں نے بھی تشدد سہا۔ وہ انگریزی ادب کے بے مثال استاد تھے۔ آخر میں وہ بھی پارٹی سے علیحدہ ہوئے اور باقی ماندہ زندگی گوشہ گیری میں گزار دی۔

جام پیپلزپارٹی میں شریک ہوا لیکن وہاں بھی اس کی بے چینی اور بے قراری ختم نہیںہوئی۔ پھر وہ تصوف کی طرف مائل ہوا۔ دہشت گردی اور ہر قسم کی انتہاپسندی کے خلاف محبت کا پیغام عام کرنے لگا۔ وہ زندگی بھر عوام کے دکھوں کا نسخہ لکھتا رہا تھا، اب بھی وہ عام انسانوں کے لیے سکون قلب ڈھونڈتا رہا۔

ہم جنھوں نے اپنی بھری پری زندگی گزاری، ہم جیسے مصلحت پسند لوگ اس پر نکتہ چینی کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ وہ ایک سچا انسان تھا، اس نے کبھی بٹ ماری نہیں کی۔ ایک کسان، ایک استاد کا بیٹا، اس کا خمیر سچ کی دھرتی سے اٹھا تھا اور وہ ضمیر پر کسی داغ ندامت کے بغیر اپنی دھرتی میں سونے چلا گیا۔ اس کی لحد سے آواز آتی ہے:

ہر اک قدم اجل تھا، ہر اک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچہ قاتل سے آئے ہیں!
(جام ساقی کے تعزیتی ریفرنس میں پڑھا گیا)

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).