وزیراعظم، چیف جسٹس ملاقات اور نوازشریف


کئی برسوں کی مسلسل مشق کے ذریعے سیاسی معاملات کے بارے میں حقائق جاننے کی جو مہارت میں نے حاصل کی ہے منگل کی شب اسے کافی دنوں بعد بھرپور انداز میں بروئے کار لانے کے بعد پورے اعتماد سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ نواز شریف صاحب کو وزیر اعظم کی عزت مآب چیف جسٹس صاحب کے ساتھ ہوئی ملاقات کا پیشگی علم نہیں تھا۔

آپ اور میرے جیسے عامیوں کی طرح موصوف کو بھی منگل کی شام ہوئی اس ملاقات کا علم ٹی وی سکرینوں پر چلے Tickersکے ذریعے ہوا۔ دو گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والی اس ملاقات کے بارے میں سپریم کورٹ کے دفتر سے جو پریس ریلیز جاری ہوئی ، اس کے منظر عام پر آنے سے قبل وہ سونے جاچکے تھے۔ اس پریس ریلیز کی مندر جات کا علم انہیں بدھ کی صبح بیدار ہونے کے بعد ہوا۔

سیاست میں حقائق مگر کسی کام نہیں آتے۔ اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئے معاشروں میں لوگ بنیادی معالات کے بارے میں اپنی رائے پہلے سے بناچکے ہوتے ہیں۔وہ توقع رکھتے ہیں کہ ”خبر“ کے ذریعے بتائے ”حقائق“ ان کے ذہنوں میں پہلے سے موجود اس رائے کا اثبات کرے۔ حقائق پر Perceptionsکی برتری کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ نواز شریف کی اندھی عقید ت میں مبتلا شخص بھی اس حقیقت کو دل سے تسلیم نہیں کرے گاکہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے انہیں اعتماد میں لئے بغیر چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کی راہ نکالی۔

سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پائے اور ان دنوں احتساب عدالت کی پیشیاں بھگتنے والے نواز شریف کے مخالفین تو بہت دنوں سے یہ دعویٰ کررہے تھے کہ شریف خاندان اپنے ”بدترین انجام“ کے امکانات سے بھرپور انداز میں آگہی کے بعد اب اپنے لئے NROکے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔وزیر اعظم کی چیف جسٹس صاحب سے ہوئی ملاقات نے ان کے ذہنوں میں راسخ ہوئی اس سوچ کی تصدیق کی ہے۔ وضاحتیں نواز شریف کے حامی یا مخالف کیمپ کے ذہنوں میں موجود رائے کو تبدیل نہیں کر پائیں گی۔ انگریزی والاDamageہوگیا ہے۔ اس کا ازالہ کم از کم مجھے فی الوقت ناممکن نظر آرہا ہے۔

آزاد و بے باک صحافت کے بہاریہ موسم میں مجھ دو ٹکے کے رپورٹر میں یہ ہمت ہی نہیں کہ منگل کی شام وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کے درمیان ہوئی ملاقات کے بارے میں اس پریس ریلیز سے ہٹ کر کوئی بات سوچوں اور اسے لکھ ڈالوں جسے سپریم کورٹ کے سیکرٹریٹ نے جاری کیا ہے۔
”ووٹ کو عزت دو“ کی گردان اگرچہ مجھے آئین کے مطابق ”سب پر بالادست“ پارلیمان کے منتخب قائدایوان سے یہ پوچھنے کا حق ضرور دیتی ہے کہ انہوں نے اس ملاقات کی ضرورت کیوں محسوس کی۔

وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد سے شاہد خاقان عباسی صاحب مگر تواتر کے ساتھ اپنے بارے میں یہ اطلاع دیتے رہے ہیں کہ وہ اخبارات نہیںپڑھتے۔ اپنے آفس میںلگی ٹی وی سکرینیں بھی انہوں نے ہٹوادی ہیں۔ میڈیا میں ہوئی گفتگو کو لہذا وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔

خلقِ خدا کی معلومات کے لئے صحافی حکمرانوں سے ریاستی اور حکومتی معاملات کے بارے میں سوالات نہ اٹھاپائیں تو ”عوام کے منتخب کردہ نمائندوں“ کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ پارلیمان کے ایوانوں میں ایسے سوالات اٹھا کر قائدِ ایوان کو ان کے جوابات فراہم کرنے پر مجبور کریں۔ ہماری قومی اسمبلی میں لیکن کورم ہی مکمل نہیں ہوتا۔

وزیر اعظم وہاں شاذ ہی تشریف لاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی والوں کو کسی زمانے میں ”پارلیمان کی بالادستی“ اجاگر کرنے کا بہت شوق ہوا کرتا تھا۔ اب مگر وہ بھی تھک ہار کر بلوچستان کے احساسِ محرومی کے مداوا کے لئے صادق سنجرانی کو سینٹ کا چیئرمین منتخب کروانے پرمجبور ہوگئے ہیں۔

عمران خان صاحب اگر قومی اسمبلی کے اجلاس میں کھڑے ہوکر سوالات اٹھائیں اور ان کے جوابات ہر صورت حاصل کرنے کی ضد کریں تو وزیر اعظم کے لئے خاموش رہنا ناممکن ہوجائے گا۔ تحریک انصاف کے قائد کی نظر میں لیکن موجودہ قومی اسمبلی ”چوروں اور لٹیروں“ کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ وہ اپنی صاف شخصیت کو اس کی آلودہ فضا سے اسمبلی اجلاسوں سے باہر رہ کر بچائے رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم ازخود وضاحتیں ہرگز پیش نہیں کریں گے۔

مارچ 2018 دوسرے ہفتے کے آغاز کے ساتھ وہ ”اچانک“ امریکہ روانہ ہوگئے تھے۔ صرف ایک صحافی کے ذریعے ہمیں خبر یہ ملی کہ ان کا دورہ قطعاََ ”نجی“ تھا۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے دوران مگر وائٹ ہاﺅس سے سرکاری طورپر اعلان ہوگیا کہ ان کی امریکی نائب صدر سے ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے بارے میں ایک چارسطری پریس ریلیز بھی جاری ہوئی۔ اس پریس ریلیز کے منظرعام پر آنے کے تین گھنٹے بعد دوامریکی حکام نے واشنگٹن میں موجود صحافیوں کو بتایا کہ وزیر اعظم پاکستان کو ایک بار پھر Do Moreکی اہمیت یاد دلائی گئی ہے۔

واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں نے مگر مذکورہ ملاقات سے لاعلمی کا اظہار کیا۔شرمساری میں گلہ یہ بھی ہوا کہ امریکی نائب صدر سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم اپنے ساتھ کسی پاکستانی مصاحب کو Note Taking کے لئے بھی لے کر نہیں گئے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ”لاعلمی“ نے Whatsappگروپس کی مہربانی سے کئی پاکستانیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاید ان کا وزیر اعظم امریکی حکام سے منتخب سول حکمرانوں کی مشکلات بیان کرنے کے لئے ملا ہے۔ ان مشکلات کا ذکر ہو تو نگاہیں پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔

پورے دس دنوں تک پاکستانی وزیراعظم کی امریکی نائب صدر سے ملاقات کے حوالے سے افواہوں کا بازار گرم رہا۔ شاہد خاقان عباسی غالباََ اس سے لاعلم رہے کیونکہ اخبارات نہیں پڑھتے۔ٹی وی نہیں دیکھتے۔ ان کی جانب سے اس ضمن میں کوئی وضاحت نہیں آئی۔ خدا بھلا کرے لیکن وطن عزیز کی بے پناہ محبت میں مبتلا چند پاکستانی صحافیوں کا۔

گزشتہ جمعرات کی سہ پہر وزارتِ خارجہ کی معمول کے مطابق ہوئی بریفنگ کے دوران ان میں سے چند ایک نے بہت پریشانی سے وزارتِ خارجہ کے ترجمان سے استفسار کیا کہ شاہد خاقان عباسی کہیں ماضی کے ایک وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی کی طرح امریکی حکام سے کسی ”ذاتی ایجنڈے“ کی تکمیل کے لئے تو نہیں ملے تھے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے خندہ پیشانی سے پاکستان کے نام نہاد ”چیف ایگزیکٹو“ کی نیت پر اٹھائے سوالات کو توجہ سے سنا اور بالآخر محض یہ اطلاع دے کر آگے بڑھ گئے کہ مذکورہ ملاقات کے دوران واشنگٹن میں تعینات ہمارے ڈیفنس ایڈوائزر بھی موجود تھے۔ فکر کی لہذا کوئی بات نہیں۔شاہد خاقان عباسی کی امریکی نائب صدر سے ہوئی ملاقات کی باقاعدہ Note Takingہوئی ہے۔

نظر بظاہر منگل کی شام پاکستانی و زیر اعظم کی چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ ہوئی ملاقات میں کوئی Note Takerموجود نہیں تھا۔سرجھکا کر لہذا ہمیں ان سب باتوں کو من وعن تسلیم کرنا ہوگا جو اس ملاقات کے بعد سپریم کورٹ سے جاری ہوئی پریس ریلیز میں بتائی گئی ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).