(عمران خان میں) تبدیلی آ گئی ہے۔۔۔۔


یہ 13 اکتوبر 2011 کی بات ہے پہلی بار انگلینڈ جانے کا اتفاق ہوا، ہیتھرو ائیرپورٹ پر جو دو دوست استقبال کیلئے آئے ان میں سے ایک تو گزشتہ 10 سال سے ایک سٹور پر کام کررہا تھا جبکہ دوسرا پانچ قبل سٹڈی ویزہ پر لندن آیا تھا اور تعلیم کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کرکے اپنے گھر والوں کے سہانے سپنے پورے کرنے میں مصروف تھا، لندن میں دس روز قیام کے دوران جس جس پاکستانی نوجوان سے ملاقات ہوئی اس کا ایک ہی سوال ہوتا ” عمران خان پاکستان میں تبدیلی لیکر آئے گا، عمران خان 2013 ءکے الیکشن میں کلین سویپ کرجائے گا، عمران خان سے بہتر سیاستدان آج تک پاکستان کو نہیں ملا“۔

لندن میں زیر تعلیم نوجوانوں کے” خواب“ سن کر دل پسیج جاتا کہ کاش ان کو تعبیر مل جائے کیونکہ دیارغیر میں رہنے والوں کے دل پاکستان کی محبت میں ہم سے زیادہ دھڑکتے ہیں، وہ پاکستان سے اچھی خبریں سننا چاہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں ہے اور ہم ہمیشہ ہی سات سمندر پار بری خبروں سے انکے دل رنجیدہ ہی کرتے ہیں، لندن کے یہ نوجوان اس وقت ”نئے پاکستان“ کا خواب دیکھ رہے تھے جب عمران خان کے جلسے میں چند سو افراد بمشکل اکٹھے ہوتے تھے اور عمران خان تو گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے اپنے منشور کے ساتھ دہائی دیتا پھر رہا تھا لیکن میاں محمود الرشید اور احسن رشید (مرحوم) کے علاوہ کوئی سر پھرا اس کی بات پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا اس کے باوجود لندن میں مقیم ان پڑھے لکھے نوجوانوں کی عمران خان کے ساتھ بے لوث محبت قابل دید تھی۔

23 اکتوبر کو جب پاکستان واپسی ہوئی تو علم ہوا کہ عمران خان 30 اکتوبر کو مینار پاکستان پر جلسہ کررہا ہے جبکہ ابرارالحق 27 اکتوبر کو ”پاکستان بچاﺅ ریلی “ نکال رہا ہے جو ناصر باغ سے شروع ہوکر داتا علی ہجویری ؒ کے دربار پر اختتام پذیر ہوجائے گی، عمران خان اور ابرارالحق کے ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو بھی کافی مماثلت پائی جاتی ہے گو کہ دونوں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے فلاحی کاموں کی طرف آئے دونوں نے پاکستانی قوم کی مدد سے اپنی اپنی ماﺅں کے نام پر ہسپتال بنائے دونوں کی شروع میں پہلی ترجیح فلاحی کام ہی تھا لیکن عمران خان اپنے وعدے کے برعکس ایک پارٹی بنا کر کارزار سیاست میں قدم رکھ چکا تھا البتہ ابرارالحق کی ریلی سے بھی کچھ ایسے ہی شکوک و شبہات جنم لے رہے تھے کہ شاید اس ریلی کا مقصد بھی سیاست میں انٹری ہے

کچھ لوگ سمجھ رہے تھے کہ ابرارالحق جس نے ہمیشہ عمران خان کو کاپی کیا شاید اپنی پارٹی بنانے کا اعلان کرنا چاہتا ہے اس لیے عمران خان کے جلسے سے پہلے ریلی نکالی جارہی ہے خیر ریلی گزر گئی اور صرف “پاکستان بچانے” کا ہی اعلان کیا گیا اس کے بعد عمران کا ریلہ گزرا جو سب کچھ بہا کر لے گیا، مینار پاکستان میں ایک تاریخ ساز جلسے کے بعد عمران خان کا سٹیٹس ہی بدل گیا اس سے پہلے عمران خان کی سیاسی حالت یہ تھی کہ ہمارے گاﺅں اکال گڑھ میں ہرسال 25 ستمبر کو ایک میلہ ہوتا ہے جس میں کبڈی وغیرہ کے مقابلے ہوتے ہیں

2013ء میں جب میلہ کی تاریخ قریب آئی تو ایک دوست کی پی ٹی آئی گوجرانوالہ ڈویژن کے صدر منصور سرور خان سے بات ہوئی کہ عمران خان کو مہمان خصوصی بلا لیتے ہیں بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ بیل منڈھے نہ چڑھی البتہ منصور سرور اگر کہتے تو عمران خان آ بھی جاتے کیونکہ اس سے پہلے اس طرح کی چھوٹی بڑی تقریبات کو خان صاحب رونق بخش چکے تھے لیکن 30 اکتوبر کو مینار پاکستان کے جلسے کے بعد پھر وہ عمران خان رہانہ پھر پارٹی رہنما اور ورکر؟

عمران خان کی اس کامیابی کو ناقدین تو جنرل شجاع پاشا کا “دست شفقت” قرار دیتے ہیں البتہ اس کے بعد عمران خان کے چاہنے والوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور تبدیلی کا نعرہ سر چڑھ کر بولنے لگا یہی وجہ ہے کہ فلاحی میدان میں ایک دوسرے کے حریف سمجھے جانے والے عمران خان اور ابرارالحق بھی ایک ہی تانگے کے سوار ہو گئے۔

عمران خان اس قدر پاپولر ہوا کہ گناہ گار کانوں سے جن لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ” یار فلاں بندے کو روکو تحریک انصاف میں نہ جائے“ اگلے روز اسی کا فون آگیا کہ” یار کل آنا ذرا میں بھی پی ٹی آئی کو پیارا ہونے لگا ہوں“ پوچھا جناب آپ تو کل اس کے خلاف تھے اب کیا ہوگیا؟ گویا ہوئے ”بس کچھ نہ پوچھیں صرف تبدیلی کا ساتھ دینا ہے“ ۔

عمران خان کو جیسے بھی یہ کامیابی ملی تھی اس کے بعد نوجوانوں کی آنکھوں میں ایک چمک نظر آئی کہ اب واقعی ”نیا پاکستان “بنے گا، 2013ء کے انتخابات سے قبل لگ رہا تھا عمران خان ملکی تاریخ کا دوسرا ذوالفقار علی بھٹو ثابت ہوگا اور اگر پی ٹی آئی نے صاف ستھرے کردار کے حامل نوجوان بھی میدان میں اتارے تو کامیابی یقینی ہے حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کھمبے بھی کامیاب ہوجائیں گے

پھر حالات یکسر بدلنے لگے اور ساری جماعتوں کے گندے انڈے عمران خان کی جھولی میں ”تبدیلی“ تلاش کرنے لگے، نوجوانوں کی آنکھیں” تبدیلی“ کا یہ انداز بھی برداشت کرگئیں، جنر ل الیکشن سے پہلے پارٹی الیکشن سے گروپ بندی کو فروغ ملا اور سرمایہ دار جیت گئے جبکہ ٹکٹ دینے کا وقت آیا تو پھر لوٹے اور لٹیرے آگے نکل گئے، ملک بھر میں صرف چند غیر معروف نوجوانوں کو ٹکٹ دیا گیا لیکن وہ پھر بھی خاطر خواہ ووٹ لینے میں کامیاب رہے البتہ لوٹے پِٹ گئے، ن لیگ وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو پھر عمران اور قادری کے دھرنا سیزن شروع ہوئے، ریحام خان سے شادی پھر طلاق، پارلیمنٹ کو پہلے گالیاں دینا پھر پوری تنخواہ لینا، پنکی بی بی سے شادی، کبھی شہباز شریف کی میٹرو پر تنقید پھر پشاور میں بنانے کی تقلید، جن کے طرز سیاست سے ہمیشہ ”پناہ “مانگی پھر انہی سے” نئی راہ“ مانگی، عمران خان کی آئے روز بدلتی ترجیحات سے پی ٹی آئی کے بڑے بڑے پرانے نظریاتی بھی جذباتی نظر آئے، یہ بددلی نوجوانوں میں بھی پھیلتی نظرآئی ۔

25 دسمبر2017 ءکو ایک بار برطانیہ جانے کا اتفاق ہوا تو سوچا کیوں نا انہی نوجوانوں کو ایک بار پھر ملا جائے جو 2011 ءمیں ہی جنرل شجاع پاشا کی چمک سے بھی پہلے عمران خان کے گروید ہوچکے تھے، خیر ان سے ملاقات ہوئی تو ان کی سوچ کے دھارے اب کہیں اور بہہ رہے تھے

کہنے لگے ” پی ٹی آئی کی تبدیلی کو چھوڑیں اب تو عمران خان خود ہی تبدیل ہوچکے ہیں، ان کو بہت یقین دلایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا یہ آپ کا وہم ہے عمران خان اپنے قول فعل کا بہت “پکا” ہے وہ کبھی بھی پاکستانی سیاست کو “گندہ” نہیں ہونے دے گا، نوازشریف اور زرداری کو وہ ایک ہی بال پر کلین بولڈ کرے گا لیکن نوجوان اتھرے ہوتے ہیں وہ کب مانتے ہیں ایسی دلیل، اب لندن تو پتہ نہیں کب جانا ہے وہ دوست اگر یہ تحریر پڑھ سکیں تو ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ جناب آپ کو کہا تھا نا کہ پی ٹی آئی کی تبدیلی پر یقین رکھیں عمران خان “تبدیل” نہیں ہوئے، نہیں یقین تو سینٹ کے الیکشن کا رزلٹ دیکھ لیں عمران خان کی” اصولی سیاست “کے سامنے کہاں گیا زرداری اور کہاں رہ گیا نوازشریف ؟ عمران خان بھی اب پاکستانی سیاست میں کامیابی کے اصل گر سیکھ چکا ہے، عامر لیاقت جیسے پارساﺅں کو ایسے ہی قبول نہیں کر لیا جاتا؟

عمران خان کی لائن اور لینتھ یہی رہی اور 2018 ء کے الیکشن ہوگئے تو پھر دیکھنا نوازشریف کی اکثریت بھی کسی کام نہیں آئے گی البتہ ”زرداری“ کی ” عسکریت “سے خطرہ ضرور رہے گا کیونکہ یہ نیا “شریک” سارا کھیل” ایزی لوڈ “سے خراب کر دیتا ھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).