مظلوم جمہوریت پر دانش کی چاندماری


ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات بہت منفرد ہیں۔ بہت برس بیت گئے، امریکی رسالے ’’ٹائم‘‘ نے دونوں ہمسایوں کے باہمی مراسم پر ایک لطیفے کے ذریعے تبصرہ کیا تھا ۔ آج بھی حالات میں تبدیلی نہیں آئی۔ لطیفہ کچھ یوں تھا کہ کسی شخص کے قابو میں ایک جن آ گیا۔ وہ اُس کی ہر خواہش پوری کر سکتا تھا۔ شرط اتنی تھی کہ جو اُسے ملے ، ہمسائے کو اُس سے دُگنا ملے گا۔ کچھ دیر پیشکش پر غور کرنے کے بعد اُس نے جن سے کہا، میری ایک آنکھ نکال دو۔

1960ء کی دہائی میں اخبار پڑھنا شروع کیا۔ اُس وقت بھی کئی دانشور پیشین گوئی کرتے تھے کہ چند برس کی بات ہے، ہندوستان کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ ایسا ہوا نہیں۔ بھٹو مرحوم نے ایک دفعہ بڑی پتے کی بات کہی کہ ہندوستان کی وحدت، جمہوریت کے شور شرابے سے قائم ہے۔

اگر بھٹو کی بات دُرست ہے تو ہندوستان کا شیرازہ بکھرنے کے لئے وہاں جمہوریت کا خاتمہ ضروری ہو گا۔ ممکن ہے ہمارے حریف بھی انہی خطوط پر سوچتے ہوں۔ شاید وہ بھی اِس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ پاکستان کی جمہوریت نے اُسے قائم رکھا ہوا ہے۔ شاید اُن کی بھی حکمتِ عملی ہو کہ پاکستان کے مزید ٹکڑے کرنے کے لئے جمہوری نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔

جمہوریت پر ہماری قوم کا ایمان کیوں قائم نہ ہوا، اِس سوال کا جواب ہماری تاریخ اور مذہبی نظریات میں پنہاں ہے۔ انگریز نے ہندوستان میں جمہوریت کو متعارف کروایا، مگر جمہوریت مسلمانوں میں غیر مقبول ہو گئی۔ وجہ ہندوئوں کی عددی اکثریت تھی۔ مسلمان آبادی کا تقریباً تیسرا حصہ تھے۔ اُنہیں پتا تھا کہ برطانوی طرزِ جمہوریت میں اکثریت کو مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اکثریت سیاہ کو سفید اور عورت کو مرد قرار دے سکتی ہے۔ اُنہیں نظر آ رہا تھا کہ برطانوی جمہوری نظام کے تحت آزاد ہندوستان میں اُن کی حیثیت ایک بے بس اقلیت سے زیادہ نہیں ہو گی۔ وہ آزاد ہونے کے بجائے مستقل طور پر ہندوئوں کے زیرنگیں ہو جائیں گے۔

مسلمانوں نے اپنے لئے تحفظات چاہے۔ 1906ء میں شملہ وفد کے مطالبے پر جداگانہ انتخاب اور نوکریوں میں علیحدہ حصے کا مطالبہ منظور ہوا۔ مگر اُنہیں علم تھا کہ یہ تحفظات عارضی اور ناکافی ہیں۔ انگریز کے جانے پر ہندو اکثریت اِنہیں تبدیل کر دے گی۔ ہمیشہ کی محکومیت مسلمانوں کو قابلِ قبول نہ تھی۔ رہی سہی کسر 1937ء کے الیکشن میں قائم ہونے والی کانگرسی حکومتوں کے حسنِ سلوک نے پوری کر دی۔ مسلمان ہندوستان کے شہری تو تھے، مگر عددی کمتری، خوف کی کوکھ میں، اپنے لئے علیحدہ جزیرے تلاش کرتی رہی۔

ایک اور وجہ کا تعلق مذہبی رہنمائوں کے نظریات سے تھا۔ مسلمان علماء اور مشائخ برطانوی جمہوری نظام کو غیر اسلامی سمجھتے تھے۔ اسلام میں پارلیمان کے انتخاب کا مغربی تصور موجود نہیں۔ اِس کے علاوہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا غیر مشروط اختیار دینا اُنہیں قبول نہ تھا۔ وہ اِس اختیار پر مذہبی پابندیاں چاہتے تھے۔ اُن کا تحفظ دُور کرنے کی تجویز منظور نہ ہوئی۔ غیر مشروط جمہوریت کی مخالفت مذہبی رہنمائوں میں آج بھی موجود ہے۔

پاکستان بنا تو عددی اکثریت مشرقی پاکستان میں تھی اور اقتدار کا مرکز مغربی پاکستان میں۔ مقتدر حلقوں کے لئے اکثریت کا حقِ حاکمیت تسلیم کرنا مشکل تھا۔ جمہوری راستوں کو ہموار کرنے کے لئے غیر سیاسی کدال چلائی گئی۔ شعبدہ باز میدان میں آئے۔ رشوت اور بدعنوانی کے الزام میں نااہل سیاسی لیڈر، راتوں رات سندھ کے چیف منسٹر بنے۔ صوبائی اسمبلی کا اجلاس، کراچی کے بجائے حیدرآباد کے محفوظ مقام پر ہوا۔ صوبائی اکائیاں ختم ہونے پر ون یونٹ تشکیل پایا اور مشرقی پاکستان کی عددی برتری کا علاج ہو گیا۔ سارا عمل جمہوری طریقے سے سرانجام پایا۔ کلیدی مہرے کو انعام میں دفاع کی وزارت عنایت ہوئی مگر جمہوریت کا چہرہ داغدار ہو گیا۔

جمہوری نظام میں اعلیٰ کردار کا مظاہرہ خال خال ہی نظر آتا ہے۔ شکسپیئر کے ایک ڈرامے (Tempest) ٹیمپسٹ میں ایک جملہ تھا ’’حُرماں نصیبی، انجانے لوگوں کو بستر کا شریک بنا دیتی ہے‘‘ اہلِ علم نے ’’حُرماں نصیبی‘‘ کی جگہ ’’سیاست‘‘ لکھا تو یہ جملہ مقبولِ عام ہو گیا۔ دُنیا تسلیم کرتی ہے کہ سیاست میں انجانے لوگ شریکِ بستر ہو جاتے ہیں۔

دو سو برس سے کچھ اُوپر ہوئے، جرمنی میں ایک صاحبِ کمال سیاست دان بسمارک (Bismark) کا جنم ہوا۔ جرمنی کے مختلف علاقے متحد کرنے پر شہرت پائی۔ کئی دہائیاں جرمنی کے چانسلر رہے۔ عملی سیاست کے ماہر تھے۔ اُن کا ایک قول بہت مشہور ہوا ’’سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔‘‘ اہلِ فہم جانتے ہیں کہ ممکنات کی کھوج میں اُصول قربان ہوتے ہیں۔ دوستی دُشمنی میں بدل جاتی ہے۔ حریف کو حلیف بننے میں دیر نہیں لگتی۔

انتظامی کارکردگی کے حوالے سے بھی جمہوریت ایک بہترین نظامِ حکومت نہیں۔ مختلف نسلو ں، گروہوں اور مذاہب میں بٹے لوگوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کا عمل بدعنوانی سے پاک نہیں رہتا۔ کچھ لو، کچھ دو اور سیاسی مُک مُکا ، جوڑ توڑ جمہوری عمل کا سکہ رائج الوقت ہے۔ ہر جمہوری نظام اپنے ڈونلڈ ٹرمپ اور لالو پرشاد یادیو پیدا کرتا ہے۔ ہمہ وقتی بیدار رائے عامہ ہی جمہوری قیادت کو راہِ راست پر قائم رکھ سکتی ہے۔ اِن تمام خرابیوں کے باوجود ملک کے مختلف خطوں میں تہذیبی، لسانی اور سماجی فرق موجود ہو تو قومی وحدت کے لئے جمہوریت ناگزیر ہو جاتی ہے۔

کسی بھی حریف کی خواہش ہوتی ہے کہ دُشمن اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے۔ اِس حکمت عملی کو سمجھنے کی ذمہ داری اُن اہل علم پرعائد ہوتی ہے جن کا ہتھیار سیاسی دانش ہے۔ جمہوریت میں دُدوھ سے دُھلی قیادت دستیاب نہیں ہوتی۔ کبھی کبھار ہی اچھا لیڈر میسر آتا ہے۔ا سکینڈل اور الزامات کی چاند ماری سے جمہوریت بہتر نہیں ہوتی۔

فیض احمد فیض نے دُعا مانگی تھی ’’ہمت کُفر ملے، جرأت تحقیق ملے‘‘۔ صحافت کی تن آسانی نے کھوج کا ہنر چھین لیا، سیاست کے بازار میں تہمت کی جنس ارزاں ہو گئی۔

ہم بھُول جاتے ہیں کہ پاکستان تیسری دُنیا کا ملک ہے۔ وسائل کی کمی، ہاتھ باندھ دیتی ہے۔ حکومت عوامی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکتی۔ اِن حالات میں جمہوریت کو مطعون کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ کسی متبادل تجویز کا ذکر کئے بغیر بہت آسانی سے ملکی انتظام کو برسرِ عام، گلا سڑا، بدبودار اور ناقص قرار دیا جا سکتا ہے۔عجب ستم ظریفی ہے کہ ہماری دانش، عوام کو اُسی نظام سے متنفر کر رہی ہے، جس کے علاوہ قومی وحدت کو قائم رکھنے کا کوئی اور راستہ موجود نہیں۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood