پنجاب کے سکولوں میں جسمانی سزا کا خاتمہ


15 مارچ2018 کو رکنِ پنجاب اسمبلی ڈاکٹر نوشین حامد کی بچوں پر سکولوں میں ہونے والے تشدد کے خلاف قرار داد اتفاقِ رائے سے منظورہو گئی۔ قرارداد کا متن کچھ یوں ہے۔ ” اس ایوان کی رائے ہے کہ پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں کے طلباء بالخصوص ذہنی معذور بچوں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کے لئے موثر قانون سازی کے ذریعے جامع اقدامات کیے جائیں ‘‘۔ مضبوط اور مو ثر قانون سازی کی طرف بڑھنے کے لئے یہ ایک ابتدائی قدم ہے۔ جوکہ نوٹیفیکشز سے بہر طور آگے کی بات ہے۔

23 جنوری 2018 کو سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے صوبہ بھرکے تمام گورنمنٹ اور پرائیویٹ سکولوں میں جسمانی سزا پر پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ یہ اجرا ء عدالت عالیہ کے فیصلہ سیدمقداد مہدی بنام حکومت ِپنجاب پر عمل در آمد کے لئے کیا گیا۔ حکومت ِپنجاب نے آج سے 8 سال پیشتر 2005 میں بھی اسی طرزکا ایک نو ٹیفیکیشن جاری کیا تھا تاہم سکولوں میں دی جانے والی جسمانی سزا کی نگرانی کے لئے کوئی نظام وضع نہ کیا گیا۔ اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بھی مختلف سالوں میں سکولوں میں بچوں پر ہونے والے تشدد کے خاتمے کے لئے مختلف وزارتی حکم ناموں اور نو ٹیفیکیشنز پر ہی اکتفاء کیا ہے۔

2006 میں جاری کردہ نیشنل چائلڈ پالیسی میں بچے کا جسمانی سزا سے تحفظ کا حق بیان کیا گیاہے۔ Punjab Free and Compulsory Education Act 2014 جو کہ آئین کی دفعہ 25 A پر عمل درآمد کے لئے پاس ہوا کی شق (4)16کے مطابق بھی استاد اور سکول انچارج کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سکول میں پڑھنے ولا بچہ جسمانی سزا یا ہراسانی کا شکار نہ ہو۔ لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں تا دیبی کارروائی کا کو ئی نظام وضع نہ کیا گیا۔ حکومت نے اس سلسلہ میں موجود قانونی خلاء کو نظر انداز کیا ہے۔ بچوں پر جسمانی تشدد کا قانونی جواز پاکستان پینل کوڈ 1860کی شق 89 میں موجود ہے۔ تاہم صوبہ سندھ نے بچوں پر ہر قسم کے جسمانی تشدد کے خاتمے کے لئے تفصیلی قانون سازی کی ہے۔ چاہے یہ تشدد خاندان میں ہو یا کام کرنے کی جگہ پر، کسی سکول یا مدرسے میں یا بچوں کی دیکھ بھال کے کِسی ادارے میں، بحالی کے مرکز یا کسی حراستی مرکز میں۔ قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں تادیبی کارروائی کے لئے بھی سخت اصول ہیں۔

اگر انسانی حقوق کے بین الاقوامی نظام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی بچوں کو جسمانی سزا سے متعلق ملکی سطح پر قانون سازی کی طرف تو جہ دلاتا ہے۔ پاکستان 1990 سے اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوقِ اطفال کارکن ہے۔ جس کے آرٹیکل28 (2) کے مطابق سکولوں میں بچوں پر جسمانی تشدد کی کوئی گنجائش نہیں۔ جون 2016 میں پاکستان کی پانچویں رپورٹ کے مشاہدات میں بچوں کے حقوق کے معاہدہ کی کمیٹی نے بچوں پر ہونے والے ہر قسم کے تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور سفارشات میں حکومت ِ پاکستان پر زور دیا کہ وہ بچوں پر ہر طرح کی جسمانی سزا کی ممانعت اور خاتمے کو یقینی بنائے۔

پاکستان ” بین الاقوامی معاہدہ برائے تشدد کا خاتمہ‘‘ کا 2010 سے رکن ہے۔ جون 2017 میں اس معاہدے کی کمیٹی نے پاکستان کی رپورٹ پر سفارشات میں لکھا کہ ”۔ ہر طرح کی جسمانی سزا کی ممانعت اور مکمل خاتمے کے لئے ضروری قانونی اقدامات کیے جائیں۔ کیونکہ یہ ریاستی تشدد، غیرانسانی اور ذِلت آمیز سلوک اور سزاوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گورنمنٹ سکولوں میں دی جانے والی سزا ریاستی تشدد کے زمرے میں آتی ہے۔

حالیہ مہینوں میں پاکستان کا انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق عالمی معیاری جائزہ موضوع گفتگو بنا ہو ا ہے۔ اس میں بھی دوست ملک کیوبا نے حکومتِ پاکستان سے بچوں کو دی جانے والی جسمانی سزا سے تحفظ کے لئے اقدامات کو یقینی بنانے کی سفارش کی ہے۔ اس دوستانہ تنبیہہ اور عدالتی حکم جو حالیہ نو ٹیفکشن کا باعث بنے سے یہ بات واضع ہو تی ہے کہ پنجاب میں بچوں کو جسمانی سزا کی مشق عام ہے۔

2017 میں گو رنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سنٹر سمبڑیال اور گورنمنٹ سپشیل ایجوکیشن سنٹر ڈسکہ کے بچوں پر سنٹر کے بس کنڈکٹر کی طرف سے ہونے والے بیہمانہ تشدد کی وڈیوز سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئیں۔ اسی طرح سے دو اور وڈیوز میں گونگے بہرے بچوں کے گنگ محل سکول گلبرگ لاہور کے بس کنڈکٹرز کو بچوں کو پیٹتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم سپارک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جسمانی سزا بچوں پر ہونے والے تشددکی سب سے عام قسم ہے اور ان کے اعدادو شمار کے مطابق اس کی وجہ سے سالانہ تقریبا 35000 بچے سکول جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ یونیسیف کی 2014 کی ریسرچ کے مطابق پنجاب میں 14 سال سے کم عمر کے 81 فیصد بچوں نے نظم وضبط کے لئے متشدد طریقے برداشت کیے۔ اوسطا ً 74 فیصد بچے نفسیاتی جارجیت، 68 فیصد جسمانی سزا اور 27 فیصد شدید جسمانی سزا کا شکار ہوئے۔ صرف 6 فیصد بچوں نے نظم و ضبط کے لئے غیر متشدد، مثبت طریقوں کا تجربہ کیا ہے۔

پلان انٹرینشنل، پاکستان کے ایک سروے کے مطابق 20 فیصد اساتذہ نے مکمل جبکہ 47 فیصدنے جزوی اور 41 فیصد والدین نے مکمل جبکہ 38 فیصد نے جزوی طور پر اس بات سے اتفاق کیا کہ زیادہ تر بچوں کے لئے تھوڑی جسمانی سزا ضروری ہوتی ہے۔ 65 فیصد اساتذہ کے مطابق جو بچے سکول کے اصول و ضوابط کا خیال نہیں رکھتے وہ پٹائی کے مستحق ہیں۔ 20 فیصد اساتذہ مکمل اور 31 فیصد جزوی اتفاق کرتے ہیں کہ تھوڑی مقدار میں مسلسل مارپیٹ کا بچے پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑتا۔ زیادہ تر اساتذہ اور والدین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں کے پڑھائی پرمکمل دھیان اور اچھے تعلیمی نتائج کے لئے جسمانی سزا ضروری ہے۔ جب بچوں سے پوچھا گیا کہ انہیں عام طور پر کیا سزا دی جاتی ہے۔ تو 24 فیصد نے کہا کہ چھٹری سے ہاتھوں پر مارنا اور 22 فیصد نے کہا کہ چہرے یا سر پر تھپڑ مارنا۔

بین الاقوامی قوانین کی پاسداری اور پنجاب میں موجود صورتحال کے پیش نظر 23 جنوری کا حکومتِ پنجاب کا نوٹیفکشن ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے ایک قدم ہے۔ اس میں جسمانی سزا کی تشریح کی گی ہے جو کہ 2005 کے نوٹیفکشن میں موجودہ نہیں تھی۔ تاہم بچوں پر جسمانی سزا کے مکمل خاتمے کے لئے ٹھوس قانونی اقدامات اور پالیسی قواعد کی ضرورت ہے۔

حکومت پنجاب کو جسمانی سزا کے خطرناک اثرات سے واقفیت دینے کے لئے آگاہی مہم چلانی چاہے تاکہ لوگوں کا اس سے متعلق رویہ تبدیل ہو۔ انھیں بچوں کی تربیت اور ان میں نظم و ضبط پیدا کرنے کے متعلق مثبت، غیر متشدد اور شراکتی طریقوں کا پتہ چلے۔ سکولوں میں اساتذہ اوردیگرعملہ کوجسمانی سزاکے منفی اثرات کے متعلق حساس کیا جائے۔ تشدد سہنے والے بچے جسمانی تکلیف کے علاوہ افسردگی، ذہنی تناؤ، یا نشہ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ نوبت خودکشی تک بھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح تشدد سہنے اور دیکھنے والے بچے خود بھی متشدد انسان بنتے ہیں۔ جسمانی تشدد درد ناک ہونے کے علاوہ ذلت آمیز بھی ہوتا ہے جوکہ بچے کی ذہنی نشوونما کے لئے بے حد نقصان دہ ہے۔ بچے کی مکمل نشوونما کے لئے ہر طرح کی جسمانی سزا کی مکمل ممانعت ہونی چاہے۔ حکومت پنجاب کو اپنی قانون سازی کا دائرہ اور پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو اپنے نوٹیفکیشن کا محیط مدرسوں تک وسیع کر نے کی ضرورت ہے جہاں، 000 500 سے زائد طلباء زیر تعلیم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).