خود کھانا گرم کر لو ۔۔۔۔ خود پکانا بھی سیکھ لو


’خود کھانا گرم کر لو، والے پلے کارڈ پر ہر میڈیم پر بہت بحث ہوئی ہے۔ کچھ نے اسے ہمارے مشرقی معاشرے پر مغربی تہذیب کی یلغار قرار دیا ہے۔ کچھ نے اسے اسلامی معاشرے کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ کچھ مردوں کو حقیقتاً فکر پڑ گئی ہے کہ اب شاید اُنہیں گرم کھانا بھی نہیں ملے گا کہ اُنہں کھانا گرم کرنا تو کیا چولہا جلانا بھی نہیں آتا۔

ہمارے معاشرے میں عورت کے کچھ کام اپنے گھر سے باہر کرنے کو ہمیشہ سے قابل ِقبول سمجھا جاتا ہے۔ مثلاًعورت کے کھیتوں میں، اینٹوں کے بھٹے پر، سڑکوں پر روڑی کوٹنے پر، لوگوں کے گھروں میں صفائی کرنے اور برتن مانجھنے پر، گلیوں میں صفائی کرنے پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ ان کاموں کے خلاف کسی نے مشرقی اقدار کا حوالہ نہیں دیا۔ مولوی حضرات کو بھی ان کاموں میں مذہب کے خلاف کوئی بات نظر نہیں آتی۔ البتہ باقی عورتوں کو چادر اور چار دیواری کا حوالہ دے کراکا دکا اعتراض سامنے آتا رہتا ہے۔ شروع میں اعتراض کے بعد اب بہت لوگوں نے عورت کے دفتروں میں، بینکوں میں، سکولوں میں اور ہسپتالوں وغیرہ میں کام کرنے کی حقیقت کو بھی تسلیم کر لیا ہے جو نہایت خوش آئند بات ہے کہ آج کے اس مہنگائی کے دور میں معاش کی ساری ذمہ داری مرد پر ڈالنا درست نہیں ہے۔

یہ خوشی کی بات ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں عورت کے باہر کام کرنے کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ مگر گھر کے کاموں میں مردوں کے ہاتھ بٹانے کو ابھی بھی مشرقی اقداراور مذہب کے خلاف سازش سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے پورے معاشرے کو اس کی اتنی فکر ہے کہ ہر شخص اس صورت حال کو برقرار رکھنے کیلئے کوشاں ہے۔ ہماری مائوں، بہنوں کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُنکے بیٹوں اور بھایئوں کو گھر کے کاموں کا کوئی علم نہ ہو۔ اس کوشش میں یہ خواہش بھی شامل ہوتی ہے کہ کہیں شادی کے بعد وہ اپنی بیوی کا ’’غلام‘‘ نہ بن جائے۔ جو شوہر بیوی کے ساتھ مل جل کر گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا ہے اُسے زن مرید کا نام دیا جاتا ہے۔ ہند کو میں اُسے زنان کناکہا جاتا ہے۔ اس کو پاپولر کلچر کا بھی حصہ بنا دیا گیا ہے اور گانوں کے ذریعے اس کام کی تقسیم کو باور کروایا جاتا ہے۔

رناں والیاں دے پکن پروٹھے

تے چھڑیاں دی اگ نہ بلے

شادی شدہ مردوں کے گھر پراٹھے بنتے ہیں اور کنوارے مردوں کے ہاں آگ بھی نہیں جلتی۔

مردوں پر معاشرے کا اتنا پریشر ہے کہ وہ مرد جو خوشی سے اپنی بیوی کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور جن کو کھانے بنانے کا شوق بھی ہے وہ بھی دوسروں کے سامنے ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ رجحان میں نے انڈین اور ترکی کے لوگوں میں بھی دیکھا ہے۔

ہمارے ایک انڈین دوست کا خیال ہے کہ یہ دراصل مردوں کے خلاف سازش ہے تاکہ وہ اپنے بقا کی خاطر عورتوں کے کنٹرول میں رہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ مردوں کو اس استحصال کی خبر نہیں ہے اور اسی لیے وہ اپنے آپ کو اس محتاجی سے نکالنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ وہ بتاتے ہیں جب وہ پہلی بار ملک سے باہر اکیلے گئے تو اُنہیں ایک انڈہ تک ابالنا نہیں آتا تھا۔ اُس زمانے میں پکے پکائے کھانے بھی دستیاب نہیں تھے۔ اس وجہ سے انہیں ریسٹورنٹ کے غیر صحت مند کھانے کھانا پڑتے تھے جو بہت مہنگے بھی پڑتے تھے۔ جب اُنہوں نے اپنے کھانے خود بنانا سیکھ لیے تو وہ اپنے لیے صاف ستھرے، صحت مندانہ کھانے پکانے لگے۔ بیوی کے آنے کے بعد دونوں مل کر کھانا بناتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس گزارے ہوئے وقت کو مسرت بخش سمجھتے ہیں۔ ہمیں ایک بار پاکستان سے آئے ہوئے ایک سٹوڈنٹ کے ہوسٹل کے کمرے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس کے کمرے اور باتھ روم کی گندگی سےوہاں بیٹھنا محال ہوگیا۔ وہ اپنے کھانے کے لیے فریز ر کے کھانے اور کین فوڈ پر گزارہ کرتا تھا۔

ہمارے ہاں بہت سے گھرانوں میں عورت ابھی بھی گھر میں رہ کر گھر کے کام کرتی ہے اور بچوں کو سنبھالتی ہے۔ گھر کے کام اور بچوں کو سنبھالنا بھی باہر کی مزدوری سے کم نہیں ہے۔ اس بات کا اظہار ہمارے گائوں کی عورت نے کچھ اس طرح کیاہے۔

نکے نکے کم تے ترٹ موئی رن

چھوٹے چھوٹے کاموں سے عورت تھک مرتی ہے۔

اگر اُس کا شوہر خوشی سے اس کے کچھ کاموں میں ہاتھ بٹا دے تو اس سے مشرقی اقدار کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرنا چا ہیے۔ میں یہاں پر ان خواتین کی بات نہیں کر رہی جوکام بھی نہیں کرتیں اور جن کوبٹلر، مالی،صفائی کرنے والے بھی دستیاب ہیں۔ وہ ہماری آبادی کا صرف چھوٹا سا حصہ ہیں۔

باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi