دی سیکرٹ لائف آف ظفر عمران


”باو وارث کی گم شدگی“ اخلاق احمد کا یہ پہلا افسانہ تھا، جسے پڑھ کر میں ان کا پرستار ہوگیا۔ اور یہ بھی کہ ”باو وارث کی گم شدگی“ پڑھنے کے بعد، میں باو اخلاق احمد کو ڈھونڈتا رہ گیا۔

باو اخلاق احمد کا پتا معلوم تھا۔ میں کراچی میں تھا، اور باو اخلاق احمد یہیں کہیں تھا، لیکن اپنی کم مائیگی کا احساس تھا، کہ چند قدم چل کے ”جنگ“ کے دفتر نہ جا سکا؛ سامنا کرنے کی ہمت نہ تھی۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہوتی ہیں؛ کسی کا وقت کیوں برباد کیا جائے۔ جھجک کی یہ دیوار پاٹنے میں دس بارہ پندرہ برس بیت گئے۔ آخر جنوری دو ہزار اٹھارہ میں ملاقات ہوگئی۔

تراجم کی بات ہو، تو ہمارے یہاں عوامی سطح پر مترجم کو وہ پہچان نہیں ملتی، جو ملنا چاہیے۔ کبھی دو الگ الگ مترجمین کی ایک ہی کہانی کے تراجم پڑھ کے دیکھیے، آپ کو احساس ہوگا، کہ ترجمہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ شکوہ کیا کریں، کہ ہم اس سماج سے ہیں، جہاں کتاب پڑھنے والوں‌ کی تعداد افسوس ناک حد تک کم ہے، اور پڑھنے والوں میں سے اُن کی تعداد کثیر ہے، جو مصنف کا نام پڑھنا گوارا نہیں کرتے۔ ایسا ہی احوال ٹیلے ویژن ڈراموں اور فلموں کا ہے۔ بہت سے مشہور ڈراموں، ہٹ فلموں کے اداکاروں کے نام یاد رکھے جاتے ہیں، لیکن اسکرین پلے رائٹر، ہدایت کار کا نام شاذ ہی پڑھا جاتا ہے۔

پانچویں درویش کا ”سب رنگ ڈائجسٹ“ اردو کے معروف ادبی صحیفوں میں سے ایک ہے؛ یہ اور بات ہے کہ پرچے کی پیشانی پر ”ڈائجسٹ“ لکھ دیے جانے سے اسے ادبی پرچا نہیں تسلیم کیا جاتا۔ (یہ بحث ناقدین کے لیے چھوڑتے ہیں) ”سب رنگ“ کے آخری صفحات میں ”خاص کہانی“ کا انتخاب واقعی خاص ہوتا تھا۔ ”سب رنگ ڈائجسٹ“ کی ”خاص کہانی“ میں امریکی کارٹونسٹ، صحافی، ادیب جیمز تھربر کی شہرہ آفاق کہانی The Secret Life of Walter Mitty کا اردو ترجمہ ”سایہ“ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔ ”سایہ“ نے ایک عرصے تک مجھے اپنے حصار میں رکھا۔ جیمز تھربر کا نام تو یاد رہا، لیکن مترجم کے نام پر غور ہی نہیں کیا۔ بہت بعد میں جا کے معلوم ہوا کہ اس کا ترجمہ اخلاق احمد نے کیا تھا۔

اخلاق احمد کیسی کہانی لکھتے ہیں؛ اُن کی کہانیوں میں کیا کیا خوبیاں ہیں؛ اُن کی زبان و بیان کس درجے پر ہیں؛ ادب میں اُن کا کیا مقام ہے؛ اس بارے میں کچھ کہنے سے معذور ہوں، کہ میں ناقد نہ ہوا۔ ناقد بننے کے لیے بہت سے علوم حاصل کرنا پڑتے ہیں۔ کہانیاں لکھنے کے لیے مشاہدے اور مہارت سے کام چلایا جاسکتا ہے۔ میں ٹوٹی پھوٹی کہانیاں‌ لکھتا ہوں، چوں کہ مشاہدہ محدود، مہارت مفقود ہے؛ اس لیے انھیں کہیں چھپوانے کے لیے نہیں بھیجتا۔ ایسی بات ہے، تو کیوں لکھتا ہوں؟ اس لیے کہ مہارت ہوجائے۔ مہارت حاصل کرنے کی اور کوئی راہ مجھے سوجھی نہیں۔ مجھ سے پوچھا جائے کہ کیسی کہانیاں لکھنا چاہو گے، تو میرا جواب ہوگا، ایسی کہانیاں جیسی اخلاق احمد لکھتا ہے۔

اخلاق احمد، مستنصر حسین تارڑ کو ”ابھی کچھ دیر باقی ہے“ پیش کرتے ہوئے۔ پہلو میں وسعت اللہ خان کھڑے ہیں۔

اخلاق احمد سے پہلی ملاقات میں ان سے بہت سے باتیں ہوئیں؛ بہت سی دل چسپ باتوں میں سے، یہ بات حسین تر لگی، کہ کہانیاں کہنے والا بس کہانی کہتا ہے، لوگ باگ بے وجہ اس میں سے اسباق یا معنی تلاشتے ہیں۔ میرا خیال تھا، دس پندرہ منٹ یا زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے کی ہم نشینی ہوگی، لیکن ان کی باتیں سنتے کتنا وقت بیت گیا، صحیح سے یاد نہیں؛ گھڑی دیکھی نہیں گئی؛ شاید دو گھنٹے۔ اُٹھنے کو جی نہیں چاہتا تھا، لیکن کب تک؛ کوئی جانے کو کَہ دے اس سے پہلے اُٹھ جانا مناسب ہے۔

اخلاق احمد میرے ’فیس بک فرینڈ‘ ہیں؛ فیس بک پر میری ’لغویات‘ ان کی نظر سے گزرتی ہوں گی، اس پر میرا دھیان نہیں تھا۔ ان دو گھنٹوں میں باو اخلاق احمد میری فیس بک کی ’لغویات‘ کا حوالہ دیتے، بارہا اکساتے رہے کہ مجھے افسانہ لکھنا چاہیے۔ میں اتنی جرات نہ کر پایا کہ کہتا، میں لکھتا ہوں، لیکن ابھی کہانی کہنے کے فن کی اُس معراج کو نہیں پہنچا، جہاں آپ براجمان ہیں۔

”جانے پہچانے“، اور ”ابھی کچھ دیر باقی ہے“، اپنے افسانوں کے یہ دو مجموعے مجھ ناچیز کو ہدیہ کیے۔ افسانوں کا، کہانیوں کا معاملہ یہ ہے کہ شعر کی طرح اس پر ’واہ وا‘ نہیں ملتی؛ لیکن کچھ کہانیاں، کچھ داستانیں یوں دِل پر اُترتی ہیں، کہ ختم کیے جانے پر قاری دیر تک ساکت بیٹھا رہ جاتا ہے۔ ”جانے پہچانے“ میں ’اونچا، لمبا، تنہا سردار‘ پڑھنے کے بعد میری وہی حالت ہوئی، جو اخلاق احمد کی ”سایہ“، ”باو وارث کی گم شدگی“ پڑھنے کے بعد ہوئی تھی۔ حیرت؛ کسک، دُکھ، خلا، ناچاری، سرشاری، ایک ہی لمحے میں سب متضاد کیفیات مجھ میں سما گئیں۔

جیمز تھربر کی ”دی سیکرٹ لائف آف والٹر مِٹی“ کا مرکزی کردار ’دن دیہاڑے‘ خواب دیکھتا ہے۔ ایک ہی جست میں وہ کسی نہ کسی ہیرو کی جگہ لے لیتا ہے، اور آخری منظر میں وہ سپاہی بن جاتا ہے، جو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے بندھا، ہیرو کی طرح بے خوفی سے موت کا سامنا کرتا دکھائی دیتا ہے۔

”والٹر مٹی“ کی طرح میں بھی ’دن دیہاڑے‘ یہ خواب دیکھتا ہوں، کہ کسی روز کچھ ایسا کر جاوں گا، جس کی شہرت کا ڈنکا چہار عالم میں ہوگا۔ کھلی آنکھوں سے دیکھتے ایسے سپنوں میں، ایک یہ بھی ہے کہ میں ”باو وارث کی گم شدگی“، یا ”اونچا، لمبا، تنہا سردار“ جیسی ایک بھی کہانی لکھ پایا، تو باو اخلاق احمد سے فوری ملاقات کروں گا، اور ان کو بتادوں گا، کہ ہاں میں بھی افسانہ نویس ہوگیا ہوں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran