موساد، سی آئی اے اور را کے ایجنٹ کون؟ ملالہ یوسف زئی یا ….؟


مجھے امریکہ کی ریاست میری لینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے کے ایک ہائی سکول میں کسی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اُس کے ایک ہال کی دیوار پر ملالہ یوسف زئی کی تصویر لگی تھی جس پر لڑکیوں کو ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ میں نے ہال میں کھڑی ایک امریکن بچی سے پوچھا کہ وہ اس تصویر کو دیکھ کر کیا سوچتی ہے کہ اسے یہاں کیوں لگایا گیا ہے۔ وہ کہنے لگی کہ یہ لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ہے کہ انہیں بھی تعلیم حاصل کرنے کیلئے کسی رکاوٹ کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے۔ اُس نے بتایا کہ یہ تصویر اس لیے لگائی گئی ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ ملالہ نے گولیوں اور بندوقوں کے خطرے کے باوجود سکول جانے کا عزم کیے رکھا۔ وہ کہنے لگی کہ اُسے یہ فخر محسوس ہوتا ہے کہ لڑکیاں بھی اتنی بہادرہوتی ہیں۔ میں نے پھر ایک لڑکے سے یہی پوچھا تو وہ بولا کہ جب وہ اپنا ہوم ورک نہیں کرتا تو اُس کا باپ اُسے یاد دلاتا ہے کہ دنیا میں ایسے بچے بھی ہیں جو بندوق کے سائے میں تعلیم حاصل کر تے ہیں اور تم اتنی سہولتوں کے باوجود پڑھنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ یہ سوچ کر اُسے بھی یہ خیال آتا ہے کہ سکول جانا کتنا ضروری ہے۔

گھر آکے میں نے اپنا فیس بک پیج کھولا اور اپنے پیج پر ملالہ کی اس تصویر کو لگانے کا سوچا۔ بہت سے لوگوں نے ملالہ یوسف زئی پر تبصرہ کیا ہوا تھا کہ وہ چھٹیوں میں پاکستان آئی تھی۔ میرے بہت سے دوستوں نے اُسے خوش آمدید کہا تھا اور اُسے دعائیں دی تھیں۔ مگر کچھ نے اُسے برا بھلا کہا تھا۔ اُسے سی آئی اے، موساد اور را کاایجنٹ قرار دیا تھا۔صرف غدار کہنے پر ان لوگوں کا دل ٹھنڈا نہیں ہوا۔ تو کچھ نے اس کی کتاب کے اقتباسات کو بٖغیر صحیح حوالہ جات کے پیش کیا۔ میں نے اس کی کتاب نہیں پڑھی مگر جنہوں نے پڑھی ہےان میں بہت سوں نے ہر اس اعتراض کا بہت استدلال سے جواب دیا ہے۔ مجھے خصوصا میر احمد کامران مگسی کا ان اعتراضات کے ایک ایک کر کے دلائل کے ساتھ جوابات پسند آئے ہیں جو سوشل میڈیا پر سرکولیٹ کر رہے ہیں۔

پھر کسی نے اُس کی ایک تصویر لگائی جس میں وہ یوروپین پارلیمنٹ کے صدر مارٹن شلز کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ انعام کی ایک تقریب ہے جس کے مہمانوں پر ملالہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس تصویرمیں مارٹن شلز کو سلمان رشدی بتایا گیا تاکہ اُس پر اسلام دشمنی کا ٹھپہ باتصویر لگا دیا جائے۔ باقی لوگوں نے بغیر تحقیق کیے یہ باتیں شیئر کیں اور اُسے گالیاں دی ہوئی تھیں۔

پھر معلوم ہو ا کہ پاکستان کے ایک سکول میں ’’میں ملالہ نہیں ہوں‘‘کا دن منایا گیا ہے۔ اس کے بعد مولانا خادم حسین رضوی کی ایک وڈیو بھی نظر آئی جس میں وہ ملالہ کو گالی دے کر کہتے ہیں کہ اسلام کی بیٹیاں ایسی نہیں ہوتیں۔ اُنہوں نے پھر اسلام کی ایک بیٹی کی تاریخ سے ایک مثال دی۔ وہ کچھ ایسے ہے کہ ایک بزرگ وضو کی تلاش میں ایک کنویں کے قریب گئے تو اُس پر کوئی رسی یا ڈول نہیں تھا۔اِدھر اُدھر دیکھنے لگے تو قریبی گھر سے 11-12سال کی ایک لڑکی نکلی جس نے ان بزرگ سے پوچھا کہ انہیں کیا چاہیے۔ بزرگ نے بتایا کہ وضو کے لیے پانی چاہیے۔ جس پر اس بچی نے کنویں کے پاس آکر تھوک پھینکا تو کنویں کا پانی ابل کر باہر آگیا اور چشمہ بن گیا۔ اُن بزرگ نے وضو کر لیا۔ مولانا خادم حسین رضوی پھر بولے کہ ایسی ہوتی ہیں اسلام کی بچیاں۔ اس کہانی پر اُن کے پیروکاروں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔

 مولانا خادم حسین رضوی اور ان جیسے لوگوں کی ملالہ کو اسلام کی بیٹی نہ ماننے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اُن کا تاریخی شعور تھوک میں لتھڑا ہوا ہے۔ رہ گئی اُن لوگوں کی بات جو سارا وقت ملالہ کو سی آئی اے، موساد اور را کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں سمجھ نہیں آتی۔ ان میں سے زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ہیں اور اپنے آپ کو محب الوطن اور اسلام پسند کہتے ہیں۔

اُن کی منطق کچھ ایسے ہے کہ ملالہ کو چونکہ پوری دنیا میں بھارت سمیت پذیرائی ملی ہے اور اسے نوبل امن انعام ملا ہے اس لیے وہ اُن کی ایجنسیوں کی ایجنٹ ہے اور وہ اس کو پاکستان اور اسلام کے خلاف کسی بڑی سازش کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ میں نے اُن سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ ایک بار اپنے آپ کو را، موساد اور سی آئی اے کا ایجنٹ تصور کریں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے طریقے سوچیں۔

کیا اس کے لیے آپ ایک پاکستانی بچی کی تصویر اپنے سکولوں میں لگائیں گے ا ور اپنے بچوں کو اس کی مثالیں دیں گے؟ کیا آپ ایک پاکستانی لڑکی کو نوبل امن انعام دیں گے۔ کیا آپ اس لڑکی پر اس لیے فلم بنائیں گے کہ آپ کے بچے اس کہانی سے انسپائر ہو کر علم حاصل کریں اور تعلیم کی قدر کریں۔ اگر آپ اس طرح سے پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو را، موساد اور سی آئی اے کو چاہیے کہ وہ آپ کو نوکری سے نکال کر جیل میں ڈال دے کہ آپ ڈبل ایجنٹ ہیں اور اپنے ملکوں کے غدار ہیں۔

ملالہ یوسفزئی کو سی آئی اے، موساد اور را کا ایجنٹ کہنے والوں کو پاکستان کی ہسٹری پڑھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب، امریکہ اور مغربی یورپ کے ساتھ مل کر افغان ــ’’جہاد‘‘کیا جس میں لاکھوں افغانی اور پاکستانی جاں بحق ہوئے۔ اس کیلئے سینکڑوں مدرسے بنائے گئے، جہاں بچوں کو بچپن سے ہی جہاد کی تعلیم دے کر اُنہیں سوویت یونین سے لڑنے کیلئے تیار کیا گیا۔ اس کیلئے اُنہیں سعودی عرب سے برآمد کی گئی وہابیت کی مدد لینا پڑی کہ ایک سخت گیر عقیدے سے ہی اپنے نظریاتی مخالفین کو دبایا جاسکتا ہے اور جہاد کے نظریے کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جو اس مقصد کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوا۔ افغانیوں کی کئی نسلوں کو اس کے نتائج بھگتنا پڑرہے ہیں۔ اُن کی عورتوں پر اسی برانڈ کے اسلام کو نافذ کیا گیا۔ اب سعودی شہزادے محمد بن سلمان کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ اس کا مقصد سوویت یونین کو ہرانا اور مشرقی یورپ کو روس کے قبضے سے چھڑانا تھا اور یہ سب مغرب کے کہنے پر کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے ایک اسلامی جماعت کے لیڈر نے خود تسلیم کیا ہے کہ ملک میں نظام ِ مصطفی کے تحریک انہیں طاقتوں کے کہنے پر چلائی گئی تھی۔ یادر رہے کہ پاکستان کے سب لیڈر کے جو اس جہاد میں فعال تھے اپنے بچے کبھی بھی اس جہاد کا حصہ نہیں بنے تھے۔ ہمارے لبرل کو اس بات کا علم تھا اور انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ اس کے نتائج پاکستان اور اس خطے کے لیے خطرناک ہو ںگے مگر ان پر غداری کا لیبل لگایا گیا۔

آل پاکستان پرائیویٹ اسکول فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا اہک ہاتھ میں ملالہ کی کتاب تھام کر دوسرے ہاتھ میں وہ کتاب دکھا رہے ہیں جس کا عنوان ہے، “میں ملالہ نہیں ہوں”۔

 اس کے بعد پاکستانی ریاست نے طالبان کو سپورٹ کیا جنہوں نے اس کی سر زمین پر خود کش حملوں کے لیے چھوٹے لڑکوں کو تیار کیا۔ ایک اندازے کے مطابق طالبان کے ہاتھوں ستر ہزار سے زیادہ پاکستانی مارے جا چکے ہیں۔ جن لوگوں نے اسلام کو استعمال کرکے مغرب کی اس جنگ میں اس قوم کے بچوں کو جھونکا اور مغرب کے ساتھ مل کر تاریخ کی اتنی بڑی سازش تیار کی، انہیں کوئی سی آئی اے اور موساد کا ایجنٹ نہیں کہتا۔ انہیں کو ئی غدار اور اسلام دشمن کا لقب نہیں دیتا۔

مگر ایک گیارہ سالہ بچی جس کے شہر پر طالبان کا قبضہ تھا اور جس نے اُس قبضے کے خلاف اور اپنے سکول بند کرنے کے خلاف آواز اٹھائی، وہ غدار ہے؟ وہ بچی جو جان پر خطرے کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کا عزم رکھتی تھی وہ اسلام کی بچی نہیں ہے؟ وہ بچی جو پوری دنیا میں تعلیم کے حصول کا عملی نمونہ بن گئی ہے۔ جو دنیا کے اُن بچوں کی رہنمائی کرتی ہے جن سے ابھی بھی جنگوں کی وجہ سے اپنا بچپن چھین لیا گیا ہے وہ ہماری ہیرو نہیں ہے؟ وہ بچی جس کو پوری دنیا سے لوگ تعلیم کے لیے فنڈ دیتے ہیں اور وہ پاکستان، نائجیریا، روہینگیا، عراق اور شام کے بچوں کی تعلیم کیلئے وقف کرتی ہے،وہ پاکستان اور اسلام کی نمائندگی نہیں کرتی ؟

ملالہ یوسف زئی کی پوری دنیا میں پزیرائی ہوتی ہے اور آپ اپنے سکول میں ’’میں ملالہ نہیں ہوں‘‘کا دن مناتے  ہیں اور ہر روز اُس کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ مجھے دراصل آپ سب ایک سازش کا حصہ لگتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہی لوگ جنہوں نے افغان جہاد کی آگ میں لاکھوں بچے جھونکے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ پاکستانی اور افغانی بچے ملالہ کے نقشِ قدم پر چلیں اور تعلیم حاصل کریں۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ یہ بچے اُن کے کنٹرول میں رہیں تاکہ وہ ہمیشہ اُنہیں اپنی سیاست کیلئے استعمال کر سکیں۔

 وہ لوگ جو ملالہ یوسف زئی کو برا بھلا کہتے ہیں اُن کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی گالیوں سے ملالہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ہر رکاوٹ کے باوجود علم کی تمنا کرنے کی علامت بن چکی ہے۔ آپ کی گالیوں سے اُس کی تصویر امریکہ کی ایک ریاست کے ایک چھوٹے سے قصبے کے سکول کی دیوار سے نہیں اترے گی۔ آپ ان گالیوں سے اُس کے عزم کی داستان اُس سکول کے بچے بچیوں کے دلوںسے نہیں مٹا سکیں گے۔ البتہ اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے وقتی طور پر آپ پاکستانی بچوں اور بچیوں کو اپنی ہم وطن ملالہ کے تعلیم حاصل کرنے کے عزم پر فخر کرنے سے محروم کر رہے ہیں۔ آپ کے اپنے سکول میں ’’میں ملالہ نہیں ہوں‘‘ کہنے سے آپ اُن بچیوں کو جو ہر رکاوٹ کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ سچ پوچھیں تو مجھے آپ را، موساد اور سی آئی اے کا ایجنٹ لگتے ہیں۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi