میں غصیلے دہریہ سے محبتی انسان دوست کیسے بنا؟


میں نے جب اپنا کالم ’مسلمانوں کے بیٹے مسلمان اور عیسائیوں کی بیٹیاں عیسائی کیوں ہوتی ہیں‘ اپنے فیس بک پیج پر لگایا تو ’ہم سب‘ کے ایک ادیب دوست اویس احمد نے اپنے کومنٹ میں لکھا کہ وہ ایک اعتراف کرنا چاہتے ہیں۔ کہنے لگے کہ مجھ سے ملنے سے پہلے وہ دہریوں سے نفرت کرتے تھے کیونکہ انہیں دہریوں کی تحریر اور تقریر‘گفتار اور کردار میں غصہ‘ نفرت اور تلخی کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ وہ دہریے مذاہب پر کیچڑ اچھالتے تھے۔ لیکن انہیں میری تحریروں میں انسان دوستی کی جھلک نظر آئی تو ان کے رویے میں ایک مثبت تبدیلی آئی اور دہریوں کے بارے میں ان کے دل میں ایک نرم گوشہ پیدا ہوا۔ یہ تو اویس احمد کا اعتراف تھا اب میرے اعتراف کی باری ہے۔

ایک وہ زمانہ تھا کہ میں بھی ایک غصیلہ دہریہ ہوتا تھا اور کسی بھی مذہب کے ماننے والے پر اپنی منطق کی تلوار لیے چڑھ دوڑتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ میں نے وہ تلوار میان میں واپس رکھ لی اور دوسروں کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھایا۔ angry atheist سے loving humanist کا سفر طویل بھی تھا پیچیدہ بھی اور جانگسل بھی۔ میں اس سفر کے چند سنگِ میل آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ایک ماہرِ نفسیات کی حیثیت سے جب میں نے سوچا کہ میں اپنے کلینک میں دوسروں کی تحلیلِ نفسی کرتا رہتا ہوں ایک دن مجھے اپنی تحلیلِ نفسی بھی کرنی چاہیے اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے۔ میرے شاعر چچا عارفؔ عبدالمتین کا شعر ہے

عمر گزری ہے تری اوروں کو دیتے ہوئے درس
کیا کبھی خود کو بھی سمجھایا ہے تو نے عارفؔ

سقراط فرمایا کرتے تھے
UNEXAMINED LIFE IS NOT WORTH LIVING

جب میں نے اپنے ماضی میں جھانکا تو مجھے احساس ہوا کہ کوئی بھی بچہ غصہ لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ اگر یہ غصہ پیدائشی نہیں تو میں نے اسے اپنے ماحول سے جذب کیا ہوگا۔

مجھے بچپن کا وہ دور یاد ہے جب ہمارے محلے میں ایک شوہر اپنی بیوی کو سرِ عام پیٹتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے بیوی کو لکڑی سے مارا تو مجھے اس پر غصہ آیا۔ میں نے ایک اور ہمسائے سے کہا کہ اسے روکو تو وہ کہنے لگا یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے ان کا ازدواجی مسئلہ ہے۔۔ میں اپنا غصہ پی گیا ۔ اب مجھے احساس ہوا کہ جو غصہ میں پی جاتا تھا وہ میرے لاشعور میں جمع ہوتا رہتا تھا۔

جب میں تیرہ برس کا تھا تو 1965 کی پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ہوئی اور مجھے بتایا گیا کہ ہندو ہمارے دشمن ہیں، ہمیں ان کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔ میرے دل میں بھی جذبہ پیدا ہوا کہ میں بھی ایم ایم عالم کی طرح ہوائی جہاز اڑائوں اور ہندوستان کے چھ جہاز ایک منٹ میں گرا کر کوئی تمغہ حاصل کروں۔ ہندوئوں، سکھوں اور دوسرے غیر مسلموں کے بارے میں نفرت اور غصہ بھی میرے اندر جمع ہوتے رہے۔

جب میں خیبر میڈیکل کالج میں تھا تو میرے احمدی دوستوں کے دروازوں پر ان کے ہمسایوں نے کوڑا کرکٹ پھینکنا شروع کیا۔ مجھے کوڑا پھینکنے والوں پر بھی بہت غصہ آیا لیکن میں وہ غصہ بھی پی گیا۔

میرے اندر غصہ بڑھتا رہا۔ خاندانی غصہ‘ معاشرتی غصہ‘ مذہبی غصہ اور مسلکی غصہ۔ مجھے یوں لگا جیسے میں ایک غصے کا بم بن گیا ہوں اور ایک دن غصے سے پھٹ پڑوں گا۔ میں نے مذہب سے، روایت سے، حب الوطنی سے بغاوت کی اور ہجرت میں پناہ ڈھونڈی۔

یہ وہ دور تھا جب میں نے مذہب اور خدا کو خدا حافظ کہا۔ میں ایک غصیلہ دہریہ بن گیا۔

لیکن پھر میں کینیڈا آ گیا۔ میں نے نفسیات کی تعلیم حاصل کی۔ میں نے باقی دنیا کے مذاہب اور روایات کا مطالعہ کیا۔ میں نے مختلف مکاتبِ فکر کے دوستوں سے مکالمہ کیا۔

مجھے آہستہ آہستہ احساس ہوا کہ چاہے وہ مذہبی لوگ ہوں یا غیر مذہبی وہ مسلمان ہوں یا عیسائی، یہودی ہوں یا ہندو، دہریہ ہوں یا انارکسٹ، ہم سب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اس خاندان کا نام انسانیت ہے۔ ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں اس لیے ہمارے دشمن بھی ہمارے دور کے رشتہ دار ہیں۔

جب مجھے یہ بات سمجھ آئی تو میں ایک غصیلے دہریہ سے آہستہ آہستہ ایک محبتی انسان دوست بننے لگا۔ جب مجھے یہ احساس ہوا کہ مذہبی اور غیر مذہبی لوگوں میں کچھ غصیلے ہیں اور کچھ محبتی تو میں نے محبتی لوگوں سے دوستی کرنی شروع کی۔ اب میرے دوستوں میں محبتی مذہبی بھی ہیں اور محبتی غیر مذہبی بھی۔ وہ سب انسان دوست ہیں کچھ RELIGIOUS HUMANIST ہیں اور کچھ SECULAR HUMANIST

اب میری نگاہ میں انسانیت کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے۔

اب میں ہر مذہب اور ہر مسلک کے پیروکار سے محبت پیار اور احترام سے ملنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر کوئی غصیلہ دہریہ یا غصیلہ مذہبی انسان ملتا ہے تو خاموشی اختیار کرلیتا ہوں۔

ہم سب کے قارئین کے ساتھ ایک محبت بھرا مکالمہ چل رہا ہے۔ اب میرے ’ہم سب‘ کے دوستوں میں مذہبی لوگ بھی شامل ہیں اور غیر مذہبی بھی۔ میری ایک دوست میری بہن عنبر ہیں۔۔ عنبر جب پاکستان سے مجھ سے ملنے کینیڈا آئیں تو رمضان کا مہینہ تھا۔ وہ روزے رکھ رہی تھیں۔ میں ان کے لیے بازار سے خاص مدینہ کی کھجوریں لایا تا کہ وہ روزہ افطار کر سکیں۔ وہ نہ تو مجھے مسلمان بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور نہ میں انہیں دہریہ بناننے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہماری محبت ہماری دوستی سے عیاں ہے۔ یہی معاملہ میرا اپنے شیعہ سنی اور احمدی دوستوں کے ساتھ ہے۔ ایک دوسرے کا احترام ہماری محبت کا آئینہ دار ہے۔ میں اپنے غصیلے مذہبی اور دہریہ دوستوں سے کہتا ہوں

WINNING HEARTS IS AS IMPORTANT AS WINNING ARGUMENTS

اب میرا خیال ہے کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔

اب میں غصیلے دوستوں سے کہتا ہوں‘ چاہے وہ دہریہ ہوں یا مذہبی‘ کہ آپ نے غصہ اپنے ماحول سے جذب کیا ہے۔ آپ نے بچپن میں جو ظلم جو جبر جو استحصال دیکھا ہے وہ آپ کی شخصیت کے نہاں خانوں میں اور آپ کے لاشعور میں جمع ہو چکا ہے جب تک ہم اس غصے سے نہیں نبٹیں گے ہم اپنے اندر کی محبت تک نہیں پہنچیں گے۔ ہماری شخصیت مالٹے کی طرح بن گئی ہے۔ اوپر سے کڑوا اندر سے میٹھا۔ ہم نے اپنے غصے کا چھلکا اتارنا ہے اور اپنے اندر کی مٹھاس تک پہنچنا ہے اور پھر وہ مٹھاس دوسروں تک پہنچانی ہے۔

میں ایک طویل عرصے اس عمل سے گزر رہا ہوں۔ مجھے اب بھی کبھی کبھار غصہ آتا ہے کیونکہ میں بھی انسان ہوں لیکن غصہ آئے تو میں خاموش رہتا ہوں جب تک کہ وہ غصے کی لہر گزر نہیں جاتی۔ ’ہم سب‘ پر میں سب محبت کرنے والے اور سوال پوچھنے والے دوستوں کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن اگر غصے سے بھرا کومنٹ آتا ہے تو خاموش رہتا ہوں۔ بعض دفعہ خاموشی الفاظ سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اتنا ظلم اتنا جبر اور اتنا استحصال دیکھا ہے کہ ہم ایک غصے بھری قوم بن گئے ہیں۔ ہمیں غصے کی حالت میں خاموش رہنا سیکھنا ہے۔ ہمیں غصے پر قابو پانا سیکھنا ہے۔ ہمیں ان حالات کو بدلنا ہے جو غصہ پیدا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنوں اور غیروں سے محبت کرنا سیکھنا ہے تا کہ ہم سب مذاہب اور سب مسالک کے لوگوں سے مکالمہ کر سکیں اور ایک دوسرے سے کچھ سیکھ سکیں۔ہمیں ایک محبت کرنے والا پرامن معاشرہ تخلیق کرنا ہے۔

میں اویس احمد کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھے یہ کالم لکھنے کی تحریک دی۔جہاں تکHUMANISM اور انسان دوستی کی عالمی روایت کا تعلق ہے‘ جو مجھے بہت عزیز ہے‘ میں کسی دن اس حوالے سے ایک کالم لکھوں گا تا کہ اس روایت کا تفصیلی تعارف کروا سکوں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail