بھٹو کو پھانسی لگنے کا یقین تھا


4اپریل 2018کی صبح اُٹھا ہوں تو 1979کی وہ ملاقاتیں یاد آنا شروع ہوگئیں جو اس سال کے آغاز سے ذوالفقار علی بھٹو کی اسی سال کی 4اپریل کی صبح ہوئی پھانسی تک بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ ہوئی تھیں۔ ان ملاقاتوں کی بدولت ایک جونیئر مگر متجسس رپورٹر ہوتے ہوئے میں نے ملکی اور عالمی سیاست کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ چند ایسی باتوں کا علم بھی ہوا جو ابھی تک لوگوں کے سامنے نہیں آئی ہیں۔

سوچ رکھا تھا کہ ان باتوں کو صحافت سے ریٹائر ہونے کے بعد اس کتاب میں لکھوں گا جس کا مسودہ کئی برسوں سے میرے ذہن میں پکتا چلا جارہا ہے۔ میری ماں اللہ بخشے مگر میری کاہلی سے خوب واقف تھیں۔ مختلف معاملات کے بارے میں اپنے ارادوںکا اظہار کرتا تو بے ساختہ پنجابی کا وہ محاورہ دہرادیتیں جو اس روز کا ذکر کرتا ہے جب کسی کبڑے کو گھوڑے پر سوار ہونا نصیب ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مگر ثابت ہورہا ہے کہ میری شخصیت میں ثابت قدمی کے ساتھ ٹک کر مشقت وصبر سے کوئی کتاب لکھنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اپنی کتاب کے لئے الگ باندھ کے جو مال رکھا ہے اسے کھول کر وقتاََ فوقتاََ ان ہی کالموں میں بیان کرنا شروع کردوں۔

بیگم نصرت بھٹو کی شخصیت سے جڑے کئی واقعات ہیں جو اس حقیقت کا اثبات کرتے ہیں کہ کڑا وقت جب بھٹو جیسے شخص اور خاندان پر بھی آئے تو ہمیں پھنے خان نظر آنے والے مصیبت کے گھیرے میں آئے بدنصیبوں سے کنی کترانا شروع ہوجاتے ہیں۔

سرائیکی وسیب کا مثال کے طورپر ایک بہت مشہور جاگیر دار گھرانا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں اس خاندان نے اقتدار کے بہت مزے لئے۔ زراعت سے جدید ترین صنعت کی طرف منتقل ہونے کے لئے سرکاری سرپرستی کو بے دریغ استعمال کیا۔ جنرل ضیاء کے ٹیک اوور کے بعد مگر بھٹو کو نواب محمد احمد خاں کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ان کے خلاف چلائے مقدمے کی پیروی اور پیپلز پارٹی کو مزاحمتی جماعت بنانے کے لئے بیگم نصرت بھٹو دن رات جدوجہد میں مصروف ہوگئیں۔ اس ضمن میں انہیں شہر شہر جانا ہوتا تھا۔ ملتان شہر بھی اس ضمن میں ان کی توجہ کا مرکز تھا۔

چیف آف آرمی سٹاف تعینات ہونے سے قبل جنرل ضیاء اس شہر میں کورکمانڈر ہوا کرتے تھے۔اپنی اس حیثیت میں لہذا وہاں کے تمام طاقت ور خاندانوں سے خوب واقف تھے۔مذکورہ بالا خاندان بھی ان میں شامل تھا۔ بیگم صاحبہ جب ملتان پہنچیں تو وہاں رہائش کے لئے اس خاندان نے اپنا گھر بہت اصرار سے انہیں پیش کیا۔ انکار کی گنجائش ہی نہ چھوڑی۔ بیگم صاحبہ اپنے سامان سمیت وہاں منتقل ہوگیں تو اس خاندان کے سربراہ کو ضیاء الحق کا فون آگیا۔ ماضی کے تعلقات کو بہت محبت سے یاد کرتے ہوئے جنرل نے اچانک کہا کہ جب ان کو ’’ایجنسیوں‘‘ نے بتایا کہ ملتان میں ’’بغاوت کے شعلے‘‘ بھڑکانے بیگم صاحبہ ان کے گھر کو اپنا مرکز بنائے ہوئے ہیں تو انہیں اعتبار نہیں آیا۔ انہیں یقین تھاکہ مذکورہ خاندان ان سے ’’دغا‘‘ نہیں کرسکتا۔

اس فون کے بعد آئی صبح کے وقت بیگم صاحبہ جب نیند سے بیدار ہوئیں تو سونے سے قبل اپنے کانوں سے اُتار کر انہوں نے جو بالیاں بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھی تھیں ان میں سے ایک وہاں موجود نہیں تھی ۔ پریشانی میں اسے ڈھونڈنے کے بعد وہ ڈائنگ روم میں ناشتے کے لئے چلی گئیں۔ ناشتے کی میز پر بیٹھے ہوئے انہوں نے بالی کی گم شدگی کا ذکر چھیڑدیا۔ اس ذکر نے اس خاندان کی سربراہ خاتون کو “Hurt”کردیا۔ ’’مہمانوں کے سامان کا‘‘ ایسے نامور گھرانے میں ’’چوری ہونا ناممکنات‘‘ میں سمجھا جاتا تھا۔ میزبان نے بالی گم ہونے کے ذکرکو اپنی توہین سمجھا۔ بیگم صاحبہ کو پیغام مل گیا۔ آئندہ ملتان آئیں تو انہیں رہائش کے لئے کسی اور گھر جانا ہوگا۔

اسلام آباد میں ذوالفقار علی بھٹو کا کوئی ذاتی مکان نہیں تھا۔ حالانکہ انہیں ایوب خان نے اپنا وزیر بنانے کے بعد اس شہر کو تعمیر کرنے والے ادارے CDAکا سربراہ بھی مقرر کیا تھا۔ اپنے دورِ اقتدار میں بطور وزیراعظم بھٹو صاحب نے اپنے وزراء اور اسمبلی کے اراکین کو بے تحاشہ پلاٹ الاٹ کئے تھے۔ وہ اس شہر کو بسانا اور بارونق بنانا چاہتے تھے۔سینکڑوں افراد نے ان کے دستخطوں سے جاری ہوئے احکامات کی بدولت پلاٹ لئے اور ان پر کئی ایک نے عالیشان گھر بھی تعمیر کئے۔ ان پر لیکن کڑا وقت آیا تو بیگم صاحبہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی رہائش کے لئے صرف دو مکان میسر تھے۔

E-7میں احسان پراچہ کا گھر شاید آمنہ پراچہ کی وساطت سے محترمہ بے نظیر کے لئے مختص تھا۔ بیگم صاحبہ کے لئے بھٹو صاحب کے دانتوں کے معالج مگر قطعاََ غیر سیاسی ڈاکٹر ظفر نیازی مرحوم نے دامنِ کوہ کو جانے والی سڑک کی آخری گلی میں تعمیر ہوئے گھر جس کی بیس منٹ ڈرائیو میں ان کا کلینک بھی تھا،وقف کردیا۔

میری بیگم صاحبہ سے ملاقاتیں اسی گھر میں ہوتی تھیں۔اس کی اوپری منزل میں ایک کشادہ بیڈروم ان کا گوشۂ عافیت تھا۔ جیالوں کو اکثر شکوہ رہتاکہ ’’عوامی پارٹی‘‘ کی قائد اس گھر میں کیوں رہتی ہیں جہاں کا ماحول ’’سیاسی‘‘ نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا گھر ’’سکیورٹی‘‘ کے حوالوں سے بھی ’’غیر محفوظ‘‘ ٹھہرا دیا گیا۔

چند ’’جنگجو جیالے‘‘ تو بہت ڈھٹائی سے یہ الزام بھی لگاتے کہ دانتوں کے علاج کے حوالے سے بہت معروف ڈاکٹر ظفر نیازی درحقیقت اپنے کلینک کو سفارت کاروں سے روابط کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ امریکی سفارت کاروں اور غیر ملکی صحافیوں سے ڈاکٹر ظفر نیازی کا میل ملاپ ’’انقلابی جیالوں‘‘ کو ہرگز پسند نہیں تھا۔ان میں سے کوئی ایک بھی یہ بات سوچنے کو تیار ہی نہیں تھا کہ بھٹو صاحب کو اپنی جان بچانے کے لئے سفارت کاروں کی مدد بھی درکار تھی۔ ان سے گہرے روابط اس ضمن میں انتہائی کلیدی اہمیت کے حامل تھے۔

بھٹو صاحب سے جیل میں ملاقاتوں کے لئے ہفتے میں بیگم صاحبہ کے لئے ایک دن وقف تھا۔ اس ملاقات کے لئے جانے سے قبل وہ اپنے ہاتھ سے ’’صاحب‘‘کے لئے سینڈوچز بنایا کرتی تھیں۔ ملاقات کے بعد آتیں تو بیڈروم میں بند ہوجاتیں۔ اس روز وہ کسی اور شخص سے ملانہیں کرتی تھیں۔

میں خوش نصیب تھا کہ بیگم صاحبہ بھٹو سے ملاقات کے بعد اپنے بیڈروم میں تھوڑا آرام کرنے کے بعد شام کی چائے طلب کرتیں تو میرا پوچھتیں۔ میں ان کے بلاوے کا اس گھر ہی میں بیٹھے منتظر ہوتا۔ مجھے بیڈ روم میں جانے کا کہا جاتا تو وہاں تک پہنچتے ہوئے ڈاکٹرصاحب کا بہت ہی وفادار السیشن میرے ہمراہ ہوجاتا۔ غالباََ اس کا نام شیرو تھا۔بیگم صا حبہ کو اس سے بہت خوف آتا تھا۔ ’’اسے ہٹائو-اسے ہٹائو‘‘ کے ساتھ وہ میرا ’’خیرمقدم‘‘ کرتیں۔

اس بیڈ روم میں بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کے ساتھ بیٹھ کر میں نے بہت کچھ سنا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ بیگم صاحبہ کو مکمل یقین تھا کہ جنرل ضیاء بھٹو صاحب کو ہر صورت پھانسی لگائے گا۔ ان سے کہیں زیادہ بھٹو صاحب کو بھی اپنی پھانسی کا انتظار تھا۔ چندلوگوں کا یہ دعویٰ مکمل جھوٹ اوربددیانتی پر منحصر ہے کہ ’’مغرور‘‘ بھٹو کو زعم تھا کہ جنرل ضیاء میں انہیں پھانسی لگانے کی ہمت ہی نہیں۔

میں کئی بار بیگم نصرت بھٹوکا حوصلہ بڑھانے مگر پرخلوص اعتماد کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ’’ترجمان‘‘ اخبار میں شہ سرخیوں کے ساتھ چھپی ان اپیلوں کا حوالہ دیتا جو کئی عالمی شخصیات بھٹو صاحب کی جاں بخشی کے لئے تواتر کے ساتھ خطوط کی صورت جنرل ضیاء کوبھیج رہی تھیں۔ بیگم صاحبہ ان حوالوں کے ذکر سے طیش میں آجاتیں۔ اصرار کرتیں کہ ایسی خبروں کے ذریعے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو درحقیقت غیر متحرک کیا جارہا ہے۔ کارکن یہ طے کربیٹھے ہیں کہ ان کی جانب سے کوئی مؤثر تحریک چلائے بغیر بھٹو صاحب فقط اپنے طاقت ور غیر ملکی دوستوں کے دبائو کی وجہ سے پھانسی نہیں لگیں گے۔

بھٹوصاحب بھی عالمی شخصیات کی جانب سے جاری ہوئی اپیلوں کے ’’اثر‘‘ سے تاریخ اور سفارت کاری کے ذہین ترین طالب علم ہوتے ہوئے خوب واقف تھے۔ بیگم صاحبہ ان کے تجزیے کو میرے ساتھ بے ساختہ Shareکرتی تھیں۔

بیگم صاحبہ ہی کی وجہ سے مجھے علم ہوا کہ بھٹو صاحب کی نظر میں افغانستان میں 1978کے اپریل میں ہوئے ’’کمیونسٹ انقلاب‘‘ اور ایران میں امام خمینی کی 1979کے آغاز میں آمد کے بعد سے جنرل ضیاء اور پاک فوج کی اہمیت امریکہ کے لئے Strategic بنیادوں پر بہت کلیدی ہوگئی تھی۔ جنرل ضیاء کو اپنی اس اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ نہایت اطمینان سے وہ مناسب وقت کا انتظار کرتا رہا اور 4اپریل 1979کی صبح بھٹو صاحب کو پھانسی لگوا دی۔

اس پھانسی کے بعد جب ’’افغان جہاد‘‘ کی گیم کھلی تو میں ہرگز حیران نہیں ہوا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کا سبق میری ناقص رائے میں کوئی ہے تو صرف اتنا کہ ملک کے عوام اپنے کسی محبوب رہ نما کو صرف اپنی جدوجہد ہی سے بچاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سارا کھیل مفادات کا ہے اور کڑا وقت جب بھٹو صاحب جیسے قدآور رہ نمائوں پر نازل ہوجائے تو اپنے بھی بیگانے ہو جایا کرتے ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).