ہم سا ہو تو سامنے آئے


کالم کا عنوان ایک گانے کے بول سے لیا گیا ہے۔ یہ نغمہ ابتدا میں ملکہ پکھراج کی بیٹی، طاہرہ سید نے گایا۔ نوجوان اور خوبصورت گلوکارہ نے جب یہ بول ادا کئے تو الفاظ کی چلمن میں چھپا ہوا غرورِ، حسن کا بانکپن اور بھی نکھر گیا۔ آج یہ مقبول نغمہ، کرکٹ کے حوالے سے یاد آیا۔ تیس، پینتیس سال پہلے مغربی میڈیا حیران تھا کہ پاکستانی فاسٹ بائولروں کی گیند سانپ کی طرح ہوا میں لہراتی ہے اور ٹپا کھانے کے بعد پینترا بدل کر وکٹوں کو ڈس لیتی ہے۔

آخرکار اُنہیں پتا لگا کہ اِس کرشمے کو ریورس سوئنگ کہتے ہیں اور پاکستانی بائولر یہ بھید پا چکے ہیں کہ گیند کی سطح ایک طرف چمکے اور دوسری طرف کھردری ہو تو ریورس سوئنگ کے کرشمے دکھاتی ہے۔

قانون کے مطابق کرکٹ کی گیند کو مصنوعی طریقے سے تبدیل کرنا جرم ہے۔ پاکستانی بائولروں پر الزام لگے۔ مغربی میڈیا ہمیں رنگے ہاتھوں پکڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ ایک دفعہ ہمارے کپتان نے اپنی آپ بیتی میں ازخود ماضی بعید کی غلطی کا اعتراف کیا۔ یا پھر پتلون کی بیک پاکٹ پر کھردی زپ کیمرے کی آنکھ میں کھب گئی۔ ہمارا لالہ بھی ایک دفعہ گیند کو سیب سمجھ کر چباتا نظر آیا۔ مگر مغربی میڈیا کو ٹھوس ثبوت نہ ملا۔

اِس تناظر میں کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر ایک طرف آنسو بہاتے آسٹریلیا کے کپتان کی ویڈیو دکھائی تو ساتھ میں ایک تصویر بھی اسکرین پر ڈال دی جس میں ہمارے تین عظیم فاسٹ بائولر ہنستے مسکراتے نظر آرہے تھے۔ تصویر پر عنوان لکھا تھا ’’ناتجربہ کار آسٹریلین‘‘ مجھے اِس موقعہ پر وہی گانا یاد آ گیا ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘یہ کل کی بات تھی۔

آج اخبار پڑھتے ہوئے مجھے یہ مصرع دوبارہ یاد آیا۔ مصری صدر کے الیکشن سے متعلق نیو یارک ٹائمز میں خبر پڑھی۔ جو لوگ مصر کی سیاست سے واقف ہیں، اُنہیں علم ہو گا کہ مصر کو 1922ء میں برطانیہ سے آزادی ملی۔ آئندہ تیس سال بادشاہت قائم رہی۔ 1952ء میں فوجی انقلاب سے کنگ فاروق کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ جمال عبدالناصر کے طویل دور کے بعد، انور سادات نے حکومت سنبھالی۔ دونوں کا تعلق مصری فوج سے تھا۔

انور سادات کی ہلاکت پر اُن کے نائب، حسنی مبارک جو مصری فضائیہ سے تعلق رکھتے تھے، مصر کے مردِ آہن بنے۔ حسنی مبارک کا اقتدار 1981ء میں شروع ہوا۔ مصر کے ہر صدر کو کئی بار الیکشن کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر دفعہ وہ اکیلے ہی امیدوار ہوتے۔ یکطرفہ الیکشن میں رائے دہندگان کو پولنگ اسٹیشن پر لانے کے لئے قانون بنایا گیا اور ہر مصری کے لئے ووٹ ڈالنا لازم قرار پایا۔

2007ء کے دوران عرب دُنیا کی سیاست میں نئی بادِ صبا کا چلن ہوا۔ مغربی میڈیا نے اُسے ’’عرب اسپرنگ‘‘ کا نام دیا۔ بہت سی حکومتوں کا صفایا ہوا۔ حسنی مبارک کو بھی اقتدار چھوڑنا پڑا۔ قاہرہ کے (Tehrir Square) تحریر چوک میں حسنی مبارک کے مخالفوں نے کئی مہینے ڈٹ کر حکومت کا مقابلہ کیا۔ حکومت تبدیل ہوئی، نئے الیکشن کے ذریعے محمد مُرسی نے اقتدار سنبھالا۔ اُن کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا۔ اُن کے حمایتی، فوری طور پر مصر کو مذہبی ریاست بنانے پر مُصر تھے۔ دوسری طرف وہ طبقہ تھا جو حسنی مبارک کے جانے پر شخصی آزادیوں کے علاوہ معاشی حالات میں بہتری کی توقع رکھتا تھا۔ مصر کی معیشت کا دار و مدار بڑی حد تک سیاحت کی صنعت پر ہے۔

پوری دُنیا سے سیاح فرعونوں کی یادگار دیکھنے کے ساتھ بیلی ڈانس سے لطف اندوز ہونے، مصرکا رُخ کرتے۔ دریائے نیل پر کشتی رانی کے دوران رقص و سرود کی محفل میں ہر قسم کے مشروبات فراہم کئے جاتے۔ صدر مُرسی کی اسلامی حکومت کے دوران سیاحت سے آمدنی میں کمی واقع ہوئی۔ بیروزگاری بڑھنے لگی۔ صدر مرسی اپنے نظریات کے غلام تھے۔ اُنہوں نے جنگِ 1973ء کی یادگاری تقریبات میں انور سادات کے قاتل کو مدعو کیا۔ ایک بہت بڑے طبقے کے زخموں پر نمک پاشی ہوئی۔ جب صدر مُرسی نے نومبر 2012ء میں تمام اختیارات سنبھال لئے تو مصر کے لبرل طبقے کو نئے آئین کے بارے میں خدشات محسوس ہوئے۔ عوام میں بے چینی پھیلی تو تحریر چوک دوبارہ آباد ہو گیا۔ 3جولائی 2013ء کو فوج نے دوبارہ اقتدار سنبھال لیا۔

جنرل سیسی کی حکومت قائم ہوئے چار سال گزرنے پر دوبارہ چنائو کا مرحلہ درپیش ہوا۔ پھر مشکل پیش آئی کہ لوگوں کو پولنگ بوتھ پر کیسے لایا جائے۔ قانونی طور پر ہر مصری کے لئے لازم ہے کہ وہ ووٹ ڈالے، مگر جب عوام کی بیشتر تعداد، دلی طور پر راضی نہ ہو تو قانون کے مطابق، اٹھائیس ڈالر جرمانے کی دھمکی بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔ الیکشن میں چاشنی پیدا کرنے کے لئے جنرل سیسی کے ایک مددگار نے اُن کے خلاف الیکشن لڑا۔ عوام کی سہولت کے لئے الیکشن کا دورانیہ تین دن تک بڑھا دیا گیا۔

نیویارک ٹائمز امریکہ کا سب سے بڑا اخبار ہے۔ اُس نے اپنی 29 مارچ کی اشاعت میں فرنٹ پیج پر سرخی جمائی (Cash for votes in Egypt) ’’مصر میں ووٹ کے لئے نقدی‘‘۔ اخبار نے لکھا کہ ووٹرز کے مطابق اُنہیں تین ڈالر سے نو ڈالر تک ووٹ ڈالنے کا معاوضہ دیا جا رہا ہے۔ کچھ علاقوں میں حکومتی اہلکار بجلی اور صحت عامہ کی سہولتوں کا وعدہ اِس شرط پر کر رہے ہیں کہ اِس علاقے کے رائے دہندگان ووٹ ڈالیں گے۔

ایک خطے کے پانچ سو ووٹرز کو حج پر بھیجنے کا وعدہ کیا گیا۔ مصر کی فضائی کمپنی (Egypt Air) کے ریٹائرڈ ملازمین کو دھمکی ملی کہ ووٹ نہ ڈالنے کی صورت میں اُنہیں ماہ اپریل کی پنشن نہیں ملے گی۔ 2014ء میں سینتالیس فیصد لوگوں نے الیکشن میں ووٹ ڈالے، جن میں سیسی کی حمایت کا تناسب 96.9 فیصد تھا۔ 30مارچ بروز جمعہ ایک انگریزی اخبار میں خبر چھپی کہ موجودہ الیکشن میں صرف چالیس فیصد رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور جنرل سیسی کو بانوے فیصد کی حمایت حاصل ہوئی۔

اتنی تگ و دو کے بعد بھی مصری حکومت جنرل سیسی کی حمایت میں اضافہ نہ دکھا سکی۔

اخبار میں مصر کے الیکشن بارے پڑھتے ہوئے مجھے مقامی تجربات یاد آئے۔ 1983ء میں ریفرنڈم ہوا۔ پاکستانی عوام سے اسلام کے نفاذ بارے سوال پوچھا گیا۔ حمایت میں ووٹ دینے پر ضیاء الحق کو پانچ سال حکومت کرنے کا اختیار ملنا تھا۔ حبیب جالب جیسے شاعر لکھتے رہے کہ پولنگ اسٹیشن سنسان تھے، مگر الیکشن کمیشن نے عوام کا ’’جوش و خروش‘‘ دیکھتے ہوئے پولنگ کے وقت میں اضافہ کیا۔ لبالب بھرے ہوئے بیلٹ باکس کھلے تو ضیاء الحق کی مقبولیت پر مہرِ تصدیق ثبت ہو گئی۔

2002ء کے دوران بھی جنرل مشرف کے حق میں اتنے ووٹ ڈالے گئے کہ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر رائے دہندگان کی تعداد رجسٹرڈ ووٹروں سے بھی زیادہ نکلی۔ نہ مصر کی طرح ووٹ ڈالنے کو لازمی قرار دینے کا قانون بنانا پڑا، نہ کسی کے خلاف تادیبی کارروائی کی دھمکی دی گئی اور نہ ہی ووٹروں کو کسی قسم کی رشوت ملی۔ انتہائی مہذب طریقے سے تمام مراحل بخیر و خوبی طے پائے۔ مقتدر طبقوں نے اطمینان کا سانس لیا۔

مصر کی مثال سامنے رکھیں تو ہم بجا طور پر اپنے اوپر رشک کر سکتے ہیں۔طاہرہ سید نے برسوں پہلے ٹھیک کہا تھا ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood