تھر مالامال ہو کر بھی پسماندہ کیوں ہے؟


تھرپارکر بیس ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ایک وسیع و عریض بیمارستان ہے جو سولہ لاکھ زندہ و جاوید لاشوں کے ساتھ ایشیئن ٹائیگر کا منہ چڑا رہا ہے۔ انیس سو سنتالیس میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک مملکت خداداد میں کیا کیا نہیں بدلا۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں، یکے بعد دیگرے آئین بنتے اور بکھرتے رہے، پی آئی اے، واپڈا اور سٹیل مل جیسے ادارے بام عروج پر پہنچ کر زمین بوس ہوتے دیکھے گئے۔ وہ روپیہ جو کبھی ڈالر کو آنکھیں دکھاتا تھا نظریں چراتا دکھائی دیا۔ ملک دو لخت ہونے کے بعد ایٹمی قوت بن کے ابھر بھی چکا۔ چھوٹے چھوٹے قصبے ارتقائی عمل سے گزر کر شہروں میں ڈھل گئے۔ ان سب کے بیچوں بیچ اگر کسی نے ثابت قدمی دکھائی تو وہ تھرپارکر کی تہذیب و ثقافت ہے۔

دنیا اب جبکہ چاند سے آگے پہنچ چکی ہے، تھر کے لوگ ہیں کہ اپنی اصل ثقافت کے سچے امین ہیں۔ تھری خواتین آج بھی چار چار مشکیزے سروں اور بازووں پہ اٹھا کہ ایسے ہرنی کی سی مستی سے چلی جاتی ہیں کہ نام نہاد ترقی یافتہ خواتین تو بس حسرت ہی کرسکتی ہیں۔ یہاں کے مرد آج بھی دیسی اوزاروں اور اونٹوں سے زمین تیارکرتے ہیں۔ آلائیشوں سے پاک پانی سے ایسی خالص فصلیں کاشت کرتے ہیں جن میں ادویات کی کوئی آمیزش نہی ہوتی۔ یہاں کے لوگ آج بھی سکول کالج جیسی جدید جیلوں سے آزاد ہیں۔ یہاں پر بیماریوں کی امرت آج بھی موت ہے۔ تمام تر کوششوں اور بچگانہ اموات کی بلند ترین شرح کے باوجود آبادی کی گروتھ تین اشاریہ ایک فیصد ہے جو کہ افریقی پسماندہ ترین ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ حالات و واقعات شاہد ہیں کہ تھر کے ہاریوں کا پسندیدہ مشغلہ بچے پیدا کرنا ہے اور ہو بھی کیوں نہ، قدیم تہذیبی روایات میں کرکٹ ایسے کھیل کہاں تھے۔ یہ تو فرنگیوں کی ایجاد ہے۔

یہ کہنا کہ تھر کے زمینی حقائق ہی ایسے ہیں زیادتی ہوگی۔ تھر پارکر کے پاس قدرتی وسائل بھی ہیں اور انسانی قوت بھی۔ نگر پارکر میں کرونجھر ایک ایسا علاقہ ہے جس پہ اراولی کا پہاڑی سلسلہ موجود ہے۔ یہ کرہ ارض کے قدیم ترین چٹانی نظام آرچیئن کا حصہ ہے۔ یہاں پر اعلی قسم کا ماربل پایا جاتا ہے۔ انیس کلومیٹر طویل اس خطے کے بارے میں مشہور ہے کہ کرونجھر باقاعدگی کے ساتھ سو کلو سونا اگلتا ہے۔

آنچلسر اور ساردھرو دو ایسی ندیاں ہیں جو خطے کی پیاس بجھاتی ہیں۔ ان کے علاوہ بارہ برساتی ندیوں پر مشتمل ایک نظام ہے جو کرونجھر ڈیم کو پانی سے بھرتا ہے۔
ان سب کے باوجود وہ کیا وجوہات ہیں کہ یہ خطہ شدید ترین پسماندگی کا شکار ہے۔ کیوں یہاں کے پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں۔ کیوں یہاں کی لڑکیوں پر جوانی سے پہلے بڑھاپا آجاتا ہے۔ ایسی کیا وجہ ہے کہ بر صغیر کے گدھوں نے اسی خطے کو اپنا مسکن مان لیا ہوا ہے۔ ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے اور وہ پاکستانیوں کی من حیث القوم بے حسی۔

سیاستدانوں نے آج تک اس خطے کے لئے کچھ سوچا تک نہی۔ اور وہ سوچیں بھی کیوں۔ ان کی تمام تر کوششیں بناؤ سنگھار کی طرف ہوتی ہیں۔ وہ وہی منصوبے اٹھاتے ہیں جن سے وہ اگلا الیکشن جیت سکیں اور اپنی جیبیں بھر سکیں۔ اج تک کسی قومی بجٹ میں تھرپارکر کے لئے رقم مخصوص نہیں کی گئی۔ سال بیس سو سترہ کا قومی بجٹ 4۔ 8ٹریلین روپوں پر مشتمل تھا جس میں سی ایک روپیہ بھی تھرپارکر کے لوگوں کا حصہ نہی۔ یہی صورتحال صوبائی حکومتوں کی ہے۔ خشک سالی اور وبائی امراض سے ہزاروں بچے مر جاتے ہیں لیکن ان کے لئے گئے سوموٹوز بس میڈیا شو ہوتا ہے۔ ملک دانشوروں سے بھرا پڑا ہے۔ تھر کے معصوم نونہالوں کا بہرحال ان کی دانش میں کوئی حصہ نہی۔ میڈیا ہاؤسز کے لئے یہ کوئی خبر نہیں ہے کیونکہ یہ کارپوریٹ ادارے ہیں۔ نہ تو اس خبر سے ان کی ریٹنگ بڑھنی ہے نہ ہی اس کے لئے کسی نے ادائیگی کرنی ہے۔ الٹا نقصان کی صورت ہے کہ صوبائی اور قومی حکومتوں کی ناراضی کی صورت میں سرکاری اشتہاروں کا کوٹا چھن جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ قصہ مختصر کہ تھر کے لوگوں پر اجتماعی ظلم میں ملک کے تمام لوگ اور ادارے حصہ بقدر جثہ شریک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).