شُکریہ اور خدا حافظ صبا محمود!


اخباروں سے تعلق رکھنے والے لوگ واقعات کی تلاش میں رہتے ہیں اور کوئی خبر نہ بن پڑے تو معمولی اور بالکل غیراہم باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض دفعہ یہ پتہ چلانا مشکل ہو جاتا ہے کہ واقعہ اصل میں پیش آیا ہے یا صرف خبر کی حد تک۔ خبروں کے وفور کے اس دور میں یہ خبر شاید کسی بھی اخبار میں سامنے نہیں آئی۔ انتقال کے چند روز بعد دو ایک اخباروں میں (اور وہ بھی انگریزی کے) ایک آدھ تعزیتی مضمون شائع ہوا۔ مگر یہ خبر محدود رہی کہ صبا محمود اس دنیا سے گزر گئیں۔ صبا محمود کی جیسی عالم فاضل ہستی کا اٹھ جانا کسی سانحے سے کم نہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں کم لوگ ان کے علمی مرتبے سے واقف ہیں یا ان کے تحقیقی تجزیوں کو پڑھ رکھا ہے۔ تحریر و تدریس کے شعبہ میں وہ ایسے بلند مقام پر فائز تھیں کہ ان کی خدمات کا وسیع تر پیمانے پر اعتراف ہونا چاہیے تھا۔ وہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی ان معدودے چند ہستیوں میں سے ایک تھیں جن کے کام کو بین الاقوامی حلقوں میں پہچانا اور سراہا جاتا تھا۔ قومی سطح پر اعتراف یا کسی قسم کا سرکاری اعزاز تو دور کی بات ہے، ان کے نام کو پاکستان میں اس طرح پذیرائی نہیں ملی جس کی وہ مستحق تھیں۔ صبا محمود تو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں مگر یہ ہمارا نقصان ہے، کسی ایک فرد کا دُکھ نہیں۔

قومی اور اجتماعی دکھ اپنی جگہ، میں ذاتی حوالے سے بات کروں گا، جن حوالوں سے صبا محمود کو جاننے اور ملنے جلنے کا اتفاق ہوا۔ اس اتفاق کو میں اب اعزاز سمجھتا ہوں۔ دو شہروں کی ایک کہانی __ لیکن یہ دونوں شہر اپنی کہانی کی طرح ایک ہی تھے۔ یہ شہر لندن اور پیرس نہیں ہیں، نہ یہ کہانی انقلاب فرانس کا قصّہ ہے۔ یہ دونوں شہر اس وقت کا کراچی اور اس سے پہلے کا کراچی ہیں۔ وہ سب سے اچھا زمانہ تھا، وہ سب سے خراب وقت تھا__ جیسے کہ چارلز ڈکنز نے اپنے یادگار ناول کا آغاز کیا ہے۔ وہی دن تھے جب پاکستان پر ضیاء الحق دور کی آمریت کا آہنی شکنجہ تنگ ہوتا جا رہا تھا اگرچہ اس کے اثرات اس وقت سے لے کر اب تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست اُلٹی زقند لگا رہی تھی اور معاشرے کے ہر طبقے، زندگی کے ہر شعبے پر اس کے مسموم اثرات واضح ہورہے تھے۔ آزاد فکر اور سیاسی اختلاف کا گلا گھونٹنے کی کوششیں منظم شکل اختیار کرتی جارہی تھیں۔ جن کا شکار نوجوان خاص طور پر بن رہے تھے۔ یعنی عمر کے جس حصّے میں ہم تھے۔ مگر یہ ہماری نوجوانی کی حوصلوں، امنگوں اور خواب دیکھنے کا زمانہ تو بھی تھا۔ بندش کے ماحول میں یہ کوششیں بھی کسی نہ کسی طرح جاری رہتیں۔ ہم خیال نوجوان مل بیٹھتے، کتابیں پڑھتے، بحث کرتے۔ ایکٹی وزم کا لفظ ہم نے اپنے وقت سنا نہیں تھا لیکن یہ اپنے طور پر ایسی ہی کوششوں کا دور تھا۔ ایسے ہی نوجوان دوستوں کے ساتھ صبا محمود سے میری ملاقات ہوئی۔ میں ڈائو میڈیکل کالج کا طالب علم تھا اور صبا کچھ دنوں کے بعدلاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس میں جانے والی تھی۔ مجھے یاد آیا، لاہور کی اس شاندار درس گاہ میں پہلی بار جانے کا اتفاق ہوا تو وہ صبا محمود سے ملنے کے لیے۔ شاید وہ بہت جلدی دوست بنا لینے کے دن تھے اور دوستیاں بھی بہت گہری۔ بااخلاق، ذہین اور عمدہ گفتگو کرنے والی صبا محمود کو بھلانا آسان نہیں تھا۔

جوش و جذبہ، ذہانت، حالات پر نظر، ہم دردی اور اپنے خیالات سے مکمل وابستگی کا ایک نقش قائم ہو جاتا جب صبا محمود سے ملاقات ہوتی اور یہی ان مٹ نقش آج تک قائم چلا آ رہا ہے۔

دوسروں کے ہمراہ ہمارے چھوٹے سے گروپ سے ملنے کے لیے صبا ڈائو میڈیکل کالج آیا کرتی تھی۔ اکثر اس کے ساتھ نائلہ بھی ہوا کرتیں جو لالی کے نام سے متعارف تھیں۔ ایک ملاقات مجھے خوب یاد ہے، اس لیے کہ اس موقع پر تصویر کھنچوانے کا اتفاق بھی ہوا۔ ڈائو کی پرانی عمارت کے سامنے ایک سایہ دار درخت تھا جس کا نام تو خدا جانے کیا ہوگا۔ طالب علم اسے ’’یم یم ٹری‘‘ کہتے تھے۔ ڈاکٹر انور عاقل ہمارے سیاسی گرو ہوا کرتے تھے، وہ تصویر کے وسط میں گائون پہنے مسکرا رہے ہیں۔ یہ موقع ان کو ایم بی بی ایس کی ڈگری ملنے کا دن تھا۔ ان کو مبارک باد دینے کے لیے ہم سب ان کے چاروں طرف جمع ہوگئے۔ جیسے آگے بڑھنے والی کونج کے آس پاس دوسری چھوٹی بڑی چڑیاں پر پھیلانے لگتی ہیں۔

وہی دن تھے جب ہمارا بے ضابطہ اور بے تکلّف اسٹڈی سرکل مختلف جگہوں پر اجلاس کیا کرتا۔ معروف شاعرہ تنویر انجم کے گھر پر ہمارے اجلاس ہونے لگے جن میں خاصی بحث ہوتی۔ تلخی کبھی نہیں ہوئی لیکن یہ احساس ہوتا تھا کہ دُھند میں سے راستے نمودار ہورہے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایسے ہی کسی اجلاس میں صبا نے ایک افسانہ پڑھ کر سنایا جو انھوں نے اردو میں لکھا تھا۔ یہ افسانہ ایک معزّز ادیب کو سنوانے کا اہتمام کیا گیا اور انھوں نے تبصرہ کیا کہ اس کا سیاسی قبلہ درست ہے مگر ادبیت خاص نہیں۔ صبا محمود نے اس تجزیے پر کوئی اعتراض نہیں کیا مگر میرے خیال میں اس قسم کی کوئی اور نہ کوشش نہیں کی۔ ان کا جو اصل میدان تھا جس میں ان کے جوہر کُھلنا تھے، اس کا اندازہ بعد میں ہوا، جب ہم اِدھر اُدھر بکھر گئے۔

ان نام ور درس گاہوں نے کچے پکے طالب علموں کے ایک انبوہ کو زندگی کے سامنے اُگل دیا اور ہم اپنی الٹی سیدھی راہوں پر لگ گئے۔ صبا سے نہیں مگر صبا کے دوستوں سے خیریت معلوم ہوتی رہتی تھی۔ خط و کتابت تو نہ رہی مگر ایسے غیررسمی سلسلوں سے سلام اور خیریت ملتی رہتی، ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس رہتا۔ دوستوں کے حلقے کے لیے غالب کے بقول بندش کی گیاہ کا کام کامران اصدر علی سرانجام دیتے تھے۔ آگے چل کر ان کو بھی پاکستان کی ایک سربرآوردہ علمی شخصیت بننا تھا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2