قوموں کے عروج و زوال کا فلسفہ


امپائر اپنی محکوم قوموں کے قومی جذبات کو نظر انداز کرکے اس پر زور دیتی ہے کہ وفاداری صرف مرکز سے رہے، اس کے نتیجہ میں جب محکوم قوموں کی طرف سے مزاحمت ہوتی ہے تو یہ خانہ جنگی کو پیدا کرتی ہے، ایک وقت تو امپیریل طاقت ان خانہ جنگیوں سے نمٹ سکتی ہے، مگر ایک وقت وہ آتا ہے کہ جب مرکزی طاقت کمزور ہوجاتی ہے اور وہ ان بغاوتوں کو کچل دینے مٰن ناکام رہتی ہے، ہہذا اس کے نتیجہ میں وہ لاقانونیت پھیلتی ہے، شاہراہیں غیر محفوظ ہوجاتی ہیں، تجارت و صنعت و حرفت میں کمی آجاتی ہے، زراعت کے متاثر ہونے سے ریوینو کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں کرپشن اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے، اور بدعنوان افراد دولت مند ہوجاتے ہیں جبکہ ریاست غریب سے غریب تر ہوجات چلی چلی جاتی ہے۔ ان حالات میں امپائر کے خاتمہ کے بعد قومیں اپنی سرحدوں پہ واپس آجاتی ہیں۔

اگر اس نقطہ نظر سے قدیم اور جدید قوموں کے عروج و زوال کو دیکھا جائے تو اس عمل کو پوری طرح سے سمجھا جاسکتا ہے، خصوصیت کے ساتھ یہاں پر دو جدید امپیریل طاقتوں کا ذکر ضروری ہے ترکی اور برطانیہ۔

سلطنت عثمانیہ کو جب پہلی جنگ عظیم میں شکست ہوئی اور ترکی میں مصطفی کمال اتاترک نے جمہوریت قائم کی، تو اس نے یہ فیصلہ کیا کہ عثمانی سلطنت اور اس کے تمام سامراجی اداروں کو ختم کردیا جائے اور ترکی کو اس کی اصل سرحودوں میں محفوظ کرکے آئندہ سے جنگ سے دور رکھا جائے، کیونکہ صرف اسی صورت میں ترکی خود کو محفوظ رکھ سکتا تھا، اس کے بعد ہی سے ترکی میں ایک علیحدہ قومیت کا احساس پیدا ہوا اور انہوں نے ترکی کلچر کی ترقی کی طرف توجہ دی۔

دوسری مثال برطانیہ کی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اس بات کو محسوس کرلیا کہ اس کی محکوم قوموں میں قومیت کے جذبات اس قدر شدید ہوگئے ہی کہ ان پر اب حکومت کرنا مشکل ہے، اس لیے انہوں نے آہستہ آہستہ ان ملکوں کو آزاد کرنا شروع کردیا اور خود اپنی سرحدوں پر واپس چلے گئے۔

اگرچہ امپیریل طاقتوں کی واپسی رضاکارانہ نہیں ہوتی ہے تو اس صورت میں محکوم قومیں مزاحمت کے ذریعے انہی مجبور کرتی ہیں کہ وہ شکست تو تسلیم کرلیں اور اپنی حاکمیت کو ختم کردیں۔
تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تتمام تہذیبوں کے عروج و زوال کی ایک مدت مقررنہیں کی جاسکتی کیونکہ ہر تہذیب اپنے عروج وزوا کے کئی درجے رکھتی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ زوال پذیر تہذیب ایک دم زوال پذیر نہیں ہوتی بلکہ اس عمل کے دوران اس میں ٹھراؤ بھی آجاتا ہے اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ عالمی ریاست یا امپیریل طاقت وحشی قبائل کے حملوں کے نتیجہ میں تباہ ہوجاتی ہے، اس کے برعکس ان حملوں کے نتیجہ میں یہ طاقتیں ایک نئی توانائی بھی حاصل کرتی ہیں اور ان قبائل کو اپنے اندر ذب کرکے دوبار سے تازہ دم ہوجاتی ہیں جیسے مصر میں ہئس کوس اور اسلام میں ترکوں اور منگولوں نے انہیں ایک نئی زندگی دی۔ مگر جب معاشرہ یا تہذیب ان وحشی قبائل کو اپنے میں ضم نہیں کرسکے تو اس صورت میں یہ اسے تباہ کردیتے ہیں، جیسے کہ جرمن قبائل نے رومی سلطنت کو ختم کردیا۔

اس مرحلہ پر عروج و ترقی اور زوال و پسماندگی کی اصطلاح کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اور اس ضمن میں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ شاہی خاندان، قوم اور تہذیب میں کیا فرق ہے؟ جب تک شاہی خاندانوں کی حکومت ہوتی تھی اس وقت تک ایک قوم یا ملکی و قومی سرحد کا کوئی تصور نہیں تھا۔ حکمران خاندان اپنی سیاسی طاقت کو بڑھاتے ہوئے نئے علاقے پر قبضہ کرتے تھے اور نئی اقوام کو محکوم کرتے تھے، ان کی یہ سرحدیں وقت کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی تھیں۔ لیکن جب یورپ میں تحریک اصلاح مذہب اور فرانسیسی انقلاب کے بعد قوم کا تصور آیا تو اس کے ساتھ ہی ملکی و قومی سرحدیں بھی متعین ہونا شروع ہوگئیں۔ اگرچہ اس میں رد بدل ہوتا رہا، مگر قوم کے ساتھ ساتھ ملک کی سرحدوں کے بارے میں تعین ہوگیا۔ اسی طرح یورپ تہذیب کے اندر قومی تہذیبیں ہیں اور ان سب نے مل کر یورپی تہذیب کو تخلیق کیا ہے۔ اگرچہ ان قومی تہذیبوں کے اندر برابری نہیں ہے۔ کچھ سماجی و معاشی طور پر ترقی یافتہ ہیں اور کچھ پسماندہ، مگر مجموعی طور پر تمام یورپ کو ایک تہذیب کے دارئے مین لایا جاتا ہے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3