قوموں کے عروج و زوال کا فلسفہ


کسی قوم یا تہذیب کے عروج کو ایک زمانہ تک سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا تھا، جن قوموں نے فتوحات کے ذریعہ نئے ملکوں پر قبضہ کیا ہوتا تھا اور دوسری قومون کو محکوم بنایا ہوتا تھا، اسے عروج کا زمانہ کہا جاتا تھا، اور جب ان کی سیاسی قوت ٹوٹتی تھی تو اسے زوال سے تعبیر دیا جاتا تھا، جیسے یونانی، رومی اور عربوں کی سیاسی طاقت کے عروج و زوال کو تاریخ میں دیکھا جاتا ہے۔ اور نوآبادیاتی دور میں یورپی طاقتوں کے اُتار چڑھاؤ کو بھی اسی سیاسی پھیلاؤ کے نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

موجودہ دور میں یہ صورت حال بدل گئی، اب قوموں کی ترقی کو ان کی معاشی ترقی کے پیمانے سے جانچا جاتا ہے، عالمی منڈی میں ان کی ساکھ اور ان کا مالی استحکام، ان کی حیثٰت کو متعین کرتا ہے۔
جہاں تک کسی تہذیب کے عروج کو جانچنے کا مسئلہ ہے، تو اس کی حیثیت اس سے متعین ہوجاتی ہے کہ اس نے علمی و ادبی و سائنسی لحاظ سے دنیا کو کیا دیا؟ اگر کوئی تہذیب تخلیقی و ذہنی لحاظ سے دوسری تہذیبوں سے برتیر ہے، تو اس کا احترام و وقار مستحکم رہتا ہے، مگر جیسے ہی اس کے تخلیقی صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں اور اس کے پاس عالمی معاشرے کو دینے کے لیے کچھ نیہں رہتا اس طرح سے وہ زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔

یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کے اثرات کو صرف حکمراں طبقے اور امرا ہی محسوس کرسکتے ہیں یا ان سے عوام بھی متاثر ہوتے ہیں؟ یہ ضرور ہے کہ جب بھی سیاسی و معاشی طور پر قوموں کا عروج ہوتا ہے تو اس کے نتیجہ میں سب سے زیاد فائدہ طبقہ اعلی کے لوگ اٹھاتے ہیں اور ان کا معیار زندگی بلند ہوجاتا ہے۔ عام آدمی کو صرف اس صورت میں فائدہ ہوتا ہے کہ جب وہ حکمران طبقوں کے متوسلین میں شامل ہوجائے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ہو، جیسے انجنیئر و معمار ان کے لیے محلات و باغات و عالیشان عمارات بناتے تھے، صنعت کار و دست کار اور ہنر مند ان کے لیے اسلحہ، ہتھیار اور اوزار و آلات بناتے تھے۔ عالم و سائنس دان ان کی ذہنی و جسمانی ضروریتات کے لیے تخلیقات کرتے تھے، اور جب تک یہ سیاسی و معاشی طور پر مستحکم رہتے تھے معاشرہ میں ان کی سرگرمیوں سے ہنر مند لوگوں کے طبقات مالی فائدہ اٹھاتے رہتے تھے، مگر زوال کے زمانہ میں جب ان کے ذرائع آمدن جیسے جیسے کم ہوتے جاتے تھے اسی طرح سے ان کی ضروریات بھی گھٹتی جاتی تھیں، اور جب یہ نوبت پہنچ جاتی تھی کہ ان کے لیے اپنے اور اپنے خاندان کی بقا مشکل ہوجتی تھین تو اس کے نتیجہ میں ان کے متوسلین طبقات بے روزگاری کا شکار ہوکر مالی پریشانیوں میں الجھ جاتے تھے۔

زوال کے عہد کی علامات سب سے زیادہ عمارتوں میں نظر آتی ہیں، کیونکہ عروج کے زمانہ میں عالیشان عمارتی تعمیر ہوتی تھیں اور یہ تصور ہوتا تھا کہ عمارت ان کے عروج کو اپنی وسعت و بلندے سے ظاہر کرے۔ ان عمارات کی عروج کے زمانہ تک تو دیکھ بھال ہوتی رہتی تھی۔ مگر زوال کے آتے ہی یہ بے حسی کا شکار ہونا شروع ہوجاتے تھے۔ ان کے مالکان کے پاس اس قدر سرمایہ نہیں رہتا تھا کہ جس سے وہ ان کو بہتر رکھ سکیں، چناچہ اس کی مثال پرتگال سے دی جاسکتی کہ جس نے اپنی سلطنت کے عروج کے زمانہ میں چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی عالیشان چرچ تعمیر کرائے، مگر زوال کے زمانہ میں یہ خستگی و کہنگی کا شکار ہوگئے کیونکہ ان کی دیکھ بھال کے لیے کوئی روپیہ پیسہ نہ حکومت کے پاس تھا اور نہ ہی لوگوں کے پاس، اور یہی کچھ آخری عہد مغلیہ میں ہوا کہ مغلوں کی بنائی ہوئی عمارات ٹوٹنا شروع ہوگئیں، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ شاہی قلعہ میں کہ جہاں بادشاہ معہ خاندان کے رہتا تھا، خستہ ہونا شروع ہوگیا۔

جب حکمران طبقے ذرائع آمدن کے ساتھ ساتھ غریب و مفلس ہونا شروع ہوجاتے تو اہل فن کی سرپرستی بھی ختم ہوجاتی تھی۔ اور معاشرہ میں وہ لوگ کہ جنہوں نے کسی فن کو تخلیق کیا تھا اور اسے عورج پر پہنچایا تھا وہ فن آہستہ آہستہ مرجاتا ہے، اور آنے والی نسلوں میں اس کا ماہر اور استاد کوئی باقی نہیں رہتا ہے۔ اور ایک وقت وہ آتا ہے کہ جب اسی قوم کے لوگ اپنے ماضی کی یادگاروں کو دیکھ کر حیرت میں پڑجاتے ہیں اور ان کی تعمیر کو معجزے سے تعبیر کرنے لگتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3