میری نوجوانی کے خواب، مائی اللہ والی اور سگمنڈ فرائیڈ


اس دنیا میں کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جس نے کبھی خواب نہ دیکھا ہو کچھ لوگ نیند میں تو کچھ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ریسرچ بتاتی ہے کہ دیکھے جانے والے خوابوں کا 90فیصد ہم نیند سے اٹھتے ہی بھلا دیتے ہیں اور یہ کہ انسان تین سال کی عمر سے ہی خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ خواب رنگین اور بلیک اینڈ وہائٹ دونوں ہی قسم کے ہوتے ہیں نور سے محروم آنکھیں بھی خواب دیکھ سکتی ہیں۔ نیند کی حالت میں خیالات اور جذبات کے مکسچر کو خواب کہاجاتا ہے۔ میں آپ کو اس وقت ہی بات بتانے جارہی ہوں جب تک میں نے مشہور ماہر نفسیات سگمنڈفرائیڈ کو ابھی نہیں پڑھا تھا میں کالج میں فائنل ایئر کی طالبہ تھی روز ہی ایک خواب دیکھتی تھی جو اردو فیچر فلم کی طرح نغماتی شاہکار ہوتا تھا اس خواب میں انٹر ویل بھی آتا تھا پھر اسٹوری وہیں سے شروع ہوجاتی تھی میں اپنا ہر خواب روزانہ کی بنیاد پر سب گھروالوں کو بتا تی تھی یہ اٹھتے کے ساتھ ہی بتاتی جاتی اور کالج کے لئے تیار بھی ہوتی جاتی تھی میرے خوابوں کو توجہ سے سنا جاتا تھا خاص طور پر اماں اگر شام کو بھی خواب کی تفصیل جاننا چاہتی تو میں اپنے اس خواب کو کامیاب تصور کرتی تھی۔

ایک دفعہ میں نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا جس میں میں شبنم کی طرح گاتی ہوئی تانگہ چلاتی جارہی ہوں پھر ایک قبرستان آتا ہے یہاں سے بھی میرا تانگہ ٹھپ ٹھپ کرتا ہوا قبریں لتاڑتا ہوا جارہا ہے میری اماں یہ خواب سن کر تو بہت ہی پریشان ہوگئیں ان کو میرے تانگہ چلانے پر کوئی اعتراض نہ تھا پر جیسا کہ قبرستان اور قبریں بھی خواب میں موجود تھیں جس کی وجہ سے ان کو ہول اٹھ رہے تھے اور وہم آنے لگے تھے۔ ان دنوں شہر میں اللہ والی مائی بہت ہی مشہور تھی جس کے دم دعا سے کافی لوگوں نے فائدہ حاصل کیا تھا کئی عورتوں نے اپنے شوہروں کو غلام بنالیا تھا کافی نے اپنی ساسوں کی زبان بندی کرادی تھی۔ مائی اللہ والی خوابوں کی تعبیر بھی بلکل صحیح بتاتی تھی۔

اماں مجھے کھینچ کھانچ کے مائی اللہ والی کے آستانے پہ لے گئیں۔ وہاں لوبان کی پراسرار خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ چلبلی عورتیں ادھر ادھر پھر کے کچھ نہ کچھ کررہی تھیں یہ وہ عورتیں تھیں جو دعا سے مستفید ہوئی تھیں ہمارے جیسی سائل کو وہاں ایک دری پر بٹھایا گیا تھا۔ ایک عورت اشارہ کرکے کسی کو آگے کرتی جو پہلے نذرانہ پیش کرکے تو اپنا مسئلہ بیان کرتی تھی کچھ دیر میں ہمیں بھی اشارہ کیا گیا میں اور اماں خالی ہونے والی جگہ پر سرک آئیں جہاں حسب روایت اماں نے نذرانہ پیش کیا اور مجھے اشارہ کیا کہ خواب سنانا شروع کردوں مائی اللہ والی چار پائی پہ پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی اس کی آنکھیں بند تھیں جس غیب میں سے کچھ دیکھتی جارہی ہے اس کے ہاتھ میں تسبیح تیزی سے حرکت کرتی جارہی تھی۔

میں نے پورا خواب سنادیا تو اس نے تسبیح روک کر آنکھیں کھول دیں وہ مجھے غور سے دیکھ رہی تھیں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی پھر وہ میری طرف انگلی اٹھا کر چہرہ اماں کی طرف کرکے بولیں خواب بتاتا ہے تیری لڑکی کا رستہ (رشتہ) آوے گا یہ سن کر تو ہم ماں بیٹی بہت ہی خوش ہوگئیں تھیں سچ مجھے تو دلہن بننے کا بہت ہی شوق تھا۔ وہ پھر کچھ بڑبڑائیں ہم ہمہ تن گوش ہوگئے۔ وہ گویا ہوئیں تیری لڑکی کے لئے رنڈوے کا رستہ (رشتہ) آوے گا کیوں کہ یہ موٹی ہے۔ یہ سن کر تو ہماری خوشی کا فور ہوگئی۔ جو تھوڑی دیر پہلے وارد ہوئی تھی میرے ارمانوں پہ اوس پڑچکی تھی۔ ہوں۔ تو میرے لئے رنڈوے لڑکے کا رشتہ آنا ہے۔

مجھے مائی اللہ والی پر سو فیصد یقین آگیا تھا کیوں کہ وہ تین دن پہلے جو کلاس میں ایک لڑکی انچی ٹیپ لے کر آئی تھی سب کی کمر ناپ رہی تھی اس حساب سے پوری کلاس میں میری کمر ہی موٹی آئی تھی۔ جس پر لڑکیوں نے بیش و قیمت مشورے دینے شروع کیے جو میں نے اپنی کاپی میں لکھ لئے تھے۔ خواب سنانے والا معمول میرا جاری ہی تھا جب تک میں نے مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نہیں پڑھا تھا۔ سگمنڈ فرائیڈ کو سائیکو اینا لائنس کا باپ کہا جاتا ہے۔ جب میں نے ان کا انٹر پریٹیشن آف ڈریمس پڑھا تو میری آنکھیں کھل گئیں۔

آج کل کے دور میں شاید ہی کوئی پڑھا لکھا انسان ایسا ہو جو ان کو نہیں جانتا ہوگا۔ آپ حضرت نے عورت کو آدھا مرد قرار دے کر بہت ہی مشہوری حاصل کی اس کے علاوہ بھی کافی جھگڑے گلے میں ڈالے رکھے۔ سگمنڈ فرائیڈ 1856 کو آسٹریا میں پیدا ہوئے ان کا تعلق یہودی خاندان سے تھا۔ 1881 میں ویانا سے ایم ڈی کی ڈگری لے کے وہیں جنرل ہسپتال میں کام کرنے لگے مگر ان کا رحجان دماغ کی طرف زیادہ تھا۔ ان کا بڑا کارنامہ سائیکو اینا لائنس ہے۔ وہ کتنی ہی بولیاں بول سکتا تھا جیسے فرینچ جرمن انگریزی عبرانی ہسپانوی وغیرہ ان کے کام کا مخصوص طریقہ کار تھا یہ بہت لوگوں کے بجائے ایک بندے کو ہی ماڈل بناکے کام کرتے یا اپنے ذاتی تجربات سے نتائج اخذ کرتے تھے۔

ان کا اختیار کیا گیا طریقہ ٹاک تھراپی دنیا بھر میں مقبول ہے۔ اس سے مریض کے پیچیدہ مسئلے معلوم کیے جاتے ہیں۔ کافی مریض تو بغیر کسی دوا کے ہی شفایاب ہوجاتے ہیں 1887 میں انٹر پریٹیشن آف ڈریمس کی تھیوری نے دنیا میں دھوم مچادی تھی۔ سگمنڈ فرائیڈ کے نزدیک حسب نسب کوئی چیز نہیں بلکہ یہ بچپن کے حالات ہی ہیں جو شخصیت بناتے ہیں۔ خوابوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ لاشہور میں دبی ہوئی خواہشات ہی خوابوں کی صورت دھار لیتی ہیں جو کسی وجہ سے تکمیل سے رہ گئی ہیں۔ اس کے نظریہ کا لنک روڈ سیکریٹ سروس کی طرف جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد میں نے کسی کو بھی اپنا خواب بتانے سے توبہ کی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).