سیاسی بابوں سے نجات چاہئے


آجکل میری عمر کے بہت سے خواتین و حضرات یہ شکایت کرتے ملتے ہیں کہ اولاد خاص کر بیٹے یا تو اپنی زندگی میں مگن ہیں۔ کبھی بھول کر بھی پتہ نہیں لیتے، بلکہ الٹا مانگتے رہتے ہیں۔ ملاقات تو کجا جواب عموماً یہی ہوتا ہے، بچوں اور بزنس سے وقت ہی نہیں ملتا۔ یہ شکایتیں کبھی فون پر اور کبھی بالمشافہ سننے کو ملتی ہیں۔ اب تو بیٹیاں بھی ماں باپ کو بلانے سے خوفزدہ رہتی ہیں کہ ایک تو ان کے لئے وقت نکالو،ان کیلئے وقت پر کھانا بنائو پھر انہیں گھمانے لے جائو۔ یہ صحیح ہے کہ باہر کے ممالک میں خاتون خانہ کو بہت کام کرنا پڑتا ہےچلنا بھی بہت پڑتا ہےاور گھر کی گروسری سے لیکر واشنگ، کوکنگ ساری اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

جو لوگ وہیں پیدا ہوئے، وہیں پرورش پائے، وہ تو ایک سینڈوچ لے کر، پیزا کا ایک ٹکڑا لےکر، سڑک پر چلتے ہوئے کھا کر زندگی ہنسی خوشی بسر کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارے یہاں روٹی کا نوالہ پھر وہ شوربے اور بوٹی کے ساتھ کھانے کو نہ ملے تو کیا لندن اور کیا نیویارک سب بیکار۔

ورنہ پھر یہ ہوتا ہے کہ جیسے آسٹریلیا میں اشرف شاد کے گھر یا پھر سعید نقوی کے گھر نیویارک میں دیکھا کہ وہ پتی ورتا رات کو آٹھ بجےبھی دفتر سےگھر آکر، فٹافٹ،روٹیاں بنانا شروع کردیتی ہیں۔ ان خواتین کو دفتر سے گھر آنے میں کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے، پھر بھی مسکراتی ہوئی، آپ کو گرم گرم روٹی دیتی ہیں مگر یہ سب میری عمر اور میرے زمانے کی خواتین ہیں۔ آج کل کی بچیاںہم جیسے سیاپے پر یقین نہیں رکھتیں، وہ بہت ذہین اور سمجھدار ہیں۔ اس لئے وہ امریکہ یا لندن بلا کر،بوڑھے ماں باپ کیلئے چکن کڑاہی اور تازہ پھلکے نہیں بنا سکتیں۔

بوڑھے والدین، اگر دونوں سلامت ہوں تو پھر بھی دونوں ایک دوسرے سے دکھ سکھ کرلیتے ہیں۔ اپنی پنشن میں گزر اوقات کے باوجود، بچوں کیلئے کبھی سالگرہ کا بہانہ بناکر، تو کبھی کوئی اور تحفہ کہہ کر، بچوں کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں۔ بچوں سے مانگنے کے روادار نہیں ہوتے ، جبکہ بچےخاص کر بیٹے تو ان کی پنشن پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ یہ شعار، صرف برصغیر کے لوگوں کا ہے۔ اور وہ بھی پڑھے لکھے بیٹوں کا جنہیں والدین نے کتنا کشٹ کاٹ کے بہتر مستقبل کیلئے بھیجا تھا مگر یہ رویہ شہر میں فیشن ایبل گھرانوں کے بچوں کا ہے ورنہ آج بھی دیہات سے گئے بچے،چاہے اوور ٹائم لگا کر ماں باپ کی دوائیوں اور گھر بار کیلئے ہر ماہ باقاعدگی سے کچھ رقم بھجواتے رہتے ہیں۔ ان کو اپنا گھر بنانے کا بہت شوق ہوتا ہے۔

مزید پریشانی کا مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے،جب ماں یا باپ میں سے ایک نہ رہے۔ بوڑھی ماں یا بوڑھا باپ اس تنہائی کو اوڑھ کر کبھی انزائمر کے شکارہوتے ہیں تو کبھی ڈیمینشیا کے۔ اتنی استطاعت بھی نہیں رکھتے کہ ہائوس نرس رکھ سکیں۔

میں ملتان کے ایک بوڑھے جوڑے کو جانتی ہوں کہ جن کی مالی مدد کے علاوہ دونوں وقت کا کھانا بنا کر بھی کھلانے کی ذمہ داری، محلے والوں نے لی ہوئی ہے۔ مگر ایسے لوگ تو چراغ لیکر ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ میرے دفتر کے پاس ایک لنگڑا بابا ناریل بیچنے آتا تھا۔ ہم سب نے مل کر اسے رکشہ لے دیا۔ اس پر وہ بچوں کی جرابوں اور ٹائیوں سے لیکر، بسکٹ چھوٹے چھوٹے کھلونے بیچتا ہے ۔ ایسی کئی بوڑھی عورتیں بیکریوں کے سامنے زمین پر چھا بہ رکھے اپنی ایمانداری کی اور عزت کی روٹی کما رہی ہوتی ہیں۔ بس اولاد کا پوچھو تو ٹھنڈی سانس بھر کر دعا دیتے ہوئے کہتی ہیں’’ سلامت رہیں‘‘۔

بڑھاپے کا ذکر کرتے کرتے مجھے سیاسی بوڑھے بھی یاد آرہے ہیں۔ ایک زمانے میں نوابزادہ نصر اللہ کو سب لوگ بابائے جمہوریت کہنے لگے ۔ وہ نکلسن روڈ پر ایک معمولی سے فلیٹ میں رہتے تھے، وہ اور ان کا حقہ بالکل صوفی تبسم کے حقہ کی طرح مشہور تھا۔ نوابزادہ صاحب تو جمہوریت کی آبرو تھے۔ آج کے سارے سیاسی بابے، اتنے الٹے سیدھے بیان دے رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ اس پرطرہ یہ کہ ہمارے سارے اینکرز، ان کو موضوع بناکر ان مزاحیہ باتوں کو سنجیدگی کا پیرہن پہنا دیتے ہیں۔ کچھ بزرگ ایسے ہیں جیسے لطیف پلیجو، انہوں نے اپنے بڑھاپے کو چھپا کر، وراثت ایاز پلیجو کے سپرد کردی ہے۔ دیکھا دیکھی یہی کام شریف برادران نے بھی کیا، بلکہ پیپلز پارٹی کے سربراہ کا بس چلے توجھولے میں پڑے بچوں کو بھی لیڈری سکھا دیں کہ بقول غالب بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے۔
سیاسی بوڑھوں سے اگر میں درخواست کروں کہ بجائے مزید خوار ہونے کے، اچھا ہو کہ اپنی یادداشتیں ، مشرف صاحب کی طرح لکھوائیں، یہ صاف ظاہر ہو کہ آپ نے کونسے اقدامات کے عوض کتنا سرمایہ، فلیٹ یا آف شور کمپنیاں بنائی ہیں۔

کون کونسی سیاسی غلطیاں کی ہیں، جن کا ادراک اب آپ کو ہورہا ہے۔ یہی ہنر، ریٹائرڈ سرکاری افسروں نے تو کتابیں لکھ کر روئیداد خان کی طرح ہر حکومت میں رہنے کے باوجود، خود کو بری الذمہ قرار دیا ہے۔ البتہ فوجی افسران رائو فرمان علی کی طرح نہیں کچھ تو سچ لکھ ڈالیں، کچھ یہ بھی تو بتائیں کہ بلوچستان میں فوجی کارروائی بھٹو صاحب کے زمانے سے شروع ہوئی تو آج تک ختم کیوں نہیں ہوئی۔ یہ بھی بتائیں کہ پشتون علاقوں میں قیوم خان کے زمانے سے جو دل شکنی کے واقعات ہوئے ،وہ ہر دور میں بڑھتے ہی کیوں گئے ہیں۔

پاکستان میں جو ریاستیں تھیں، جیسے خیرپور،بہاولپور،قلات، کس نے اور کب ختم کیں۔ ان کی جاگیریںاب کس کے زیر استعمال ہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کہ بہاولپور کے ساتوں محلات، بردگی کا منظر ہیں۔ خیرپور اور قلات کا بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان علاقوں سے تو کوئی کام کے سیاست دان بھی نہیں ابھرے، تو اب آخر کیا کیا جائے۔ وہ سب لڑکے، لڑکیاں جو باہر سے ڈگریاں لیکر، خود، پاکستان کی خدمت کرنے،ملک کو لوٹے ہیں۔ یہ ملک ان کے سپرد کردیا جائے، ہمیں امریکہ میں روزی کمانے والے بوڑھے نہیں چاہئیں۔ ہمیں قائداعظم کی طرح ’’کام‘‘کرنے والے چاہئیں۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).