اہل ایمان کی ہمراہی میں زندگی کرنا اور سفر کرنا۔۔۔


زندگی اک سفر ہے۔ اس نہایت ہی مقبول قول کو مجھ ناچیز نے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سیریس لے لیا ہے، جبھی ہر دوسرے روز چھوٹی سی گھٹڑی لئے ملک کے اس سرے سے اُس سرے جناب کی دوڑیں لگتی رہتی ہیں۔ دیکھنے اور سننے والوں کو ہماری یہ مہم جوئی کافی پر لطف معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت جس تن لاگت وہی تن جانے کے مصداق سوات سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے پشاور اور پھر سوات آنے کی یہ اذیت ہمیں اس بات پہ مجبور کرتی ہے کہ ہم ماضی میں جا جا کہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں کہ آخر وہ کونسا گناہِ صغیرہ و کبیرہ سرزد ہوا ہے اس گنہگار سے جس کی پاداش میں ہم بانی اسرئیل کے عذاب زدہ قبیلے کی مانند یوں در در مارے مارے پھرتے ہیں۔

اسلام آباد سے میرے ارد گرد کے لوگ بڑے ہی متاثر معلوم ہوتے ہیں، جبھی اگر کوئی پوچھ لے کہ “ویئر“ (کہاں؟) اور میں جواب میں “آئی ایس بی” (اسلام آباد) ٹائپ کر دوں تو ممکن ہی نہیں کہ “واہ بھئ مزے ہیں” کی گردان کے علاوہ مجھے کوئی رپلائی ملے۔ خیر سے منگورہ اڈے سے جناب نے اسلام آباد کی ٹھانی۔ ملک کی مشہور بس سروس کے متعلق میری وصیت کے تحت تو اس بس میں سفر کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی سو لوکل کیب کا ارادہ کیا۔ وصیت کا متن کچھ یوں ہے کہ اس بس میں میری لاشِ مبارک کو بھی منزلِ مقصود تک لے جانے کی سخت ممانعت ہے کیونکہ سفر کی طوالت اور دم گھٹنے کے انتہائی اعلیٰ انتظام کے باعث میں نے اٹھ بیٹھنا ہے۔ جو کہ دفنانے والوں پہ کافی گراں گزرے گا۔ اور کچھ بھی ہو جائے کمپنی کسی قسم کی ذمہ داری بھی نہیں لیتی۔

بات ہو رہی تھی لوکل کیب کی۔ موئی قسمت مجھے ہر جگہ لات ہی مارتی ہے سو یہاں بھی ایسی آنکھیں بدل لیں نصیب نے کہ گھنٹہ انتظار کے بعد بھی کوئی سواری نہ آئی۔ ڈبل سیٹ کے پیسے بھرنے کے بعد بھی کوئی اسلام آباد کا مسافر ہاتھ نہ آیا، جبھی لوکل کوسٹر میں قسمت آزمائی کا فیصلہ ہوا۔ یہاں آ کر یہ پختہ یقین ہو چلا کہ یہ عورت ہونا اس جنم میں میرا پیچھا چھوڑ ہی نہیں سکتا ۔ باقی سب نے تو 450 روپیہ کرایہ بھرا لیکن میری وجہ سے چونکہ میرے ساتھ والی سیٹ ضائع ہو گئی سو نقصان میرے غریب بٹوے سے بھرا گیا۔ سوچا مریم نواز ، شیری رحمان ، شیریں مزاری جیسی حسیناؤں کو بھی کیا عورتوں کی اس اذیت کا اندازہ ہو گا یا شاید وہ خود ڈرائیو کر لیتی ہوں گی۔ میں بھی نا۔۔

سفر شروع ہوا اور تاڑا تاڑی جو پہلے سے ہی جاری تھی مزید زور پکڑ گئی۔ ڈائیور کے بالکل پیچھے سیٹ ملی، ڈرائیور موصوف نے دو چار بار سیٹ بیلٹ ٹھیک کرتے وقت ہر دفع میرے پاؤں ٹچ کرنا خود پہ فرض کر لیا تھا، پہلے لگا ایسا غلطی سے ہو رہا ہے مگر جب اس نے شیشہ بھی سیٹ کر لیا تب اپنے غلیظ معاشرے پہ افسوس ہوا۔ جہاں گھر کے باہر کی ہر عورت مردوں کے لیے چند سیر لذیذ گوشت کے علاوہ کچھ نہیں۔ زینب و اسما کیس میں اس موصوف نے بھی کافی غم و غصہ کا اظہار کیا ہو گا، یہ سوچ کر کافی دیر تک ہنسی روکنے کے مشکل ترین مرحلہ سے گزرنا پڑا ۔

سفر کافی لمبا تھا، نمازوں کے وقفوں کے دوران اندازہ ہوا کہ پاکستان کے اسلام میں عورتوں کیلئے سفری نماز کی کوئی شرط ہی نہیں کیونکہ مرد حضرات کو اس بات سے کوئی غرض ہی نہ تھی کہ نماز کے لئے رکنے والے مقام پہ عورتوں کیلئے نماز کی ادائیگی کا انتظام ہے کہ نہیں۔

خیر سے آٹھ گھنٹے کی ذلت کے بعد سوات سے اسلام آباد انٹری ہوئی، اب ٹیکسی والوں کے ہاتھوں لٹنے کی باری تھی، ٹیکسی کرائی، ہاسٹل پہنچتے ہی زیادہ کرایہ کا رونا روتے ہوئی دوست سے معلوم ہوا کہ چونکہ میں اس شہر میں نو وارد ہوں اس لئے صاحب نے مجھ سے چار گنا کرایہ وصول کیا ہے، یہ حال اس بے ایمان قوم کا ہے جو صبح شام اپنے حکمرانوں کو کرپشن کرپشن کی رٹ لگا لگا کر گالیاں بکتی رہتی ہے۔

اس ملک میں جس بندے کا جتنا بس چلے اتنا ہی وہ اس ملک اور معاشرے کے بگاڑ میں حصہ ڈالتا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کو گالیاں دے کر ہم اپنی ہی تسکین کرتے ہیں کہ ہم برے نہیں، ہم سے برے بھی ہیں، ہم کہاں گھٹیا ہیں، ہم سے بھی کوئی گھٹیا تو ہیں۔ بات سے ہی بات نکلتی ہے ، ہم تو سفری مشکلات کا رونا رونا چاہ رہے تھے مگر بات سے بات نکلتی ہے نا اور بات ہمیشہ دور تلک پھر جاتی ہے ، سو ہم واپس اپنے ہاسٹل کے اس کمرے میں آتے ہیں جہاں ہاسٹل کے مالکان ہم سے فی مہینہ 12 ہزار کا کرایہ بٹورتے ہیں جبکہ کمرے میں موجود افراد کی تعداد چار ہے اور گنجائش دو کی۔ تو لوٹ مار تو جاری رہے گی نہ کیونکہ پوچھنے والا جو کوئی نہیں۔۔ بوریت ذاتی طور پہ مجھ سے بھی گوارا نہیں ہوتی لہٰذا سستا لیتے ہیں تاکہ پڑھنے والوں کو بھی مزید سطریں پڑھنے کی بوریت سے چھٹکارا ملے۔۔

نیلوفر مروت

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نیلوفر مروت

محترمہ نیلوفر مروت یونیورسٹی آف سوات میں انگریزی ادبیات کی استاد ہیں

nelofur-marwat has 4 posts and counting.See all posts by nelofur-marwat