ولایتی آئین سٹائن بمقابلہ دیسی وسی بابا


مشرق اور مغرب کا اگر آپ موازنہ کرنا چاہیں تو یہ دیکھیں کہ اپنے لکھنے اور بولنے والوں ،دانشوروں اورعوامی نمائندگی کرنے والوں کے بارے میں ان کا روّیہ کیا ہے ۔ اگر تو ایک دانشور، ایک کالم نویس اور ایک سیاستدان کے بارے میں ان کا روّیہ یہ ہے کہ اس شخص میں چار خوبیاں پائی جاتی ہیں ۔ دو خامیاں بھی ہیں ۔ مجموعی طور پر ٹھیک ہے ۔ یا پھر یہ کہ اس کی خامیاں اس کی خوبیوں سے زیادہ ہیں ۔ اس لیے ہم اسے اچھا نہیں سمجھتے توسمجھ لیجیے کہ معاشرہ صحت مند خطوط پر استوار ہے ۔

ہو سکتاہے کہ کوئی ایک آدھی شخصیت ایسی بھی ہوجو کہ مقبولِ عام ہو اور کوئی ایسی کہ جسے صرف مسترد ہی کیا جاتا ہولیکن ایسے لوگ استثنیات کے طور پر ملیں گے ۔ جب بندہ اپنے ہاں کا دستور دیکھتا ہے تو حیران پریشان رہ جاتاہے ۔ بطور ایک لکھنے والے کے ، میں نے یہ دیکھا کہ جو مجھے مانتے ہیں ، وہ مکمل طور پر مانتے ہیں ۔دل و جان سے مانتے ہیں ۔ جو نہیں مانتے ، ان کے نزدیک میں قابلِ گردن زنی ہوں ۔

کبھی کوئی ایسا شخص شاذ ہی دیکھا ، جس نے کچھ باتوں سے اتفاق اور کچھ سے اختلاف کیا ہو۔ شاید ہی کبھی شائستگی سے اختلاف کرنے والے سے واسطہ پڑا ہو ۔ہمارے یہاں اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو کھری کھری سنائی جائیں ۔اس کے اگلے پچھلوں کو بھی ساتھ ہی دھو دیا جائے ۔ مثلاً مجھ پر جنہوں نے تبرّہ کرنا ہوتاہے ، وہ میری ذات سے شروع ہوتے ہیں ، والد صاحب کی شان میں قصیدے پڑھنے کے بعد پروفیسر احمد رفیق اختر کی گوشمالی کرتے ہوئے جنرل کیانی پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ اس کے بعداجتماعی نمازِ جنازہ پڑھ کے، دفنا کر ، قبر میں لٹا کر اوپر سے بلڈوزر چلا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتے ہیں ۔ کتبے پر لکھ دیا جاتا ہے : مرحوم بہت برا شخص تھا، مغفرت کی دعا مت کیجیے۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا علّامہ ، کتنا ہی بڑا صوفی، کتنا ہی زیادہ پڑھا لکھا اور کتنا ہی زیادہ نیک کیوں نہ ہو، وہ انسان ہی ہوتاہے ۔ کبھی کسی کمزور لمحے میں کوئی ادنیٰ بات اس کے منہ سے نکل جاتی ہے ۔ ہر شخص زندگی میں غلطیاں کرتا ہے ۔ صوفی یا اہلِ علم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ ہر حال میں اس کا موقف درست ہی ہوگا۔

یہی روّیہ سیاستدانوں کے باب میں ہے۔عمران خان ، بھٹو اورنواز شریف ، انہیں یا تو فرشتے کی کیٹیگری میں رکھا جا سکتاہے یا شیطان کی ۔ درمیانی راستہ کوئی نہیں ۔ ان میں سے کسی پر بھی اگر آپ اعتراض کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پیروکار اس گستاخی پر آپ کے چیتھڑے اڑا دیں گے ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ معاشرہ انتہا پسندی کا شکار ہے ۔

اس انتہا پسندی کا مظاہرہ سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا پر ہوتاہے ۔ اللہ فرماتاہے کہ کسی گروہ کی دشمنی تمہیں نا انصافی پر مائل نہ کر دے۔اگر آپ کا دشمن بھی ایک درست بات کرتاہے تو آپ دشمنی کی وجہ سے اس بات کو غلط نہ کہیں ۔خود کو تعصبات کے حوالے نہ کر یں لیکن ہم تو کر چکے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ایک گروہ ہے مذہبی لوگوں کا ۔ ایک لبرل اور سیکولر لوگوں کا ۔

یہ ایک دوسرے کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ مذہبی لوگوں میں مولوی خادم حسین جیسے اصحاب موجود ہیں ۔ اسی طرح وہ ہستیاں ہیں ، جو پھلوں اور سبزیوں کو قبلہ رخ رکھنے میں جتی رہتی ہیں ۔ تو ظاہر ہے کہ پھر مذہبی لوگوں کا مذاق اڑتاہے ۔سیکولر طنز سے انہیں ”مومن‘‘ یا ”کٹر مسلمان ‘‘ کہتے ہیں ۔ دوسری طرف یہ مذہبی لوگ سیکولر لوگوں کی آزاد خیالی کو بنیاد بنا کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

‘ان کے بارے میں لطائف شیئر کرتے ہیں۔’خاتون نے کہا، میرے بھائیوں سے مت ڈرو ،وہ سیکولر ہیں ۔ ‘‘مجھے کبھی اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ کسی کا مذاق اڑا کر آپ اس کی اصلاح کیسے کر سکتے ہیں ۔ ہر گروہ کے ارکان اپنے اپنے نظریات کی اندھی پیروی کرتے ہیں ۔ اپنے مخالف سے ہمیشہ یہ اندھی دشمنی نبھاتے ہیں ؛ حالانکہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی تھی کہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے ، جہاں سے بھی ملے ، لے لو۔

پھر اینٹی اسٹیبلشمنٹ گروہ ہے ۔ ملک دنیا کی خوفناک ترین جنگ سے گزرا ہے ۔ 2007ء میں روزانہ کی بنیاد پر خودکش حملے ہو اکرتے تھے ۔ پہلے سویت یونین کی افغانستان آمد اور پھر امریکہ کی افغانستان پر یلغار پاکستانی فوج کے مشورے سے نہیں ہوئی تھی ۔ اس کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوئے، پاکستان اس کا ذمہ دا ر نہیں ۔ پاکستان ان حالات میں سلامت رہ گیا، ایٹم بم اورمیزائل بنا لیے ،انڈیا کو resistکر لیا۔یہ بہت بڑی کامیابی تھی ۔ خیر ، ان اینٹی اسٹیبلشمنٹ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ فوج کے حق میں ایک لفظ بھی کہا نہیں جا سکتا۔اگر کہا تو پھر تم فوجی بوٹ صاف کرنے والے موچی ہو۔ اسی طرح ہر گروہ دوسرے گروہ کے چیتھڑے اڑانے کے درپے ہے ۔

مزید برآں یہ کہ followersکی تعداد کے حساب سے ہرشخص کا سوشل میڈیا پر ایک درجہ ہے ۔چالیس ہزار فالوورز والا اگر 2 ہزار والے کی وال پر جا کر کمنٹ کرتاہے تو یہ چیونٹی کے گھر نارائن والی بات ہوتی ہے ، چاہے عملی زندگی میں ہزاروں فالورز والے یہ حضرات اپنے بیوی بچوں کے اخراجات پورے کرنے سے بھی قاصر ہوں۔یہ لوگ ایک دوسرے سے جنگ کرتے ہیں ۔ یہ جنگ کیا ہے ؟ یہ ہر صورت میں اپنے نظریات کو درست ثابت کرنے ، دوسروں کے نظریات کو غلط ثابت کرنے ، ایک دوسرے پر طنز کرنے ، ایک دوسرے کو حقیر اور گھٹیا ثابت کرنے کی جنگ ہے۔ اس میں کوئی توازن نہیں ہے ۔ مثلاً یہ نہیں کہا جاتاہے کہ فلاں شخص ویسے تو اچھی بات کرتاہے ، آج عجیب بات کی بلکہ یا تو آپ ایک شخص کو سجدہ کر رہے ہیں یا پتھر مار رہے ہیں ۔

ہمیشہ ہر صورت میں اپنے گروپ کی حمایت کی جاتی ہے ۔یہ گروپ منظم ہیں۔ باقاعدہ پلاننگ کے تحت ہلہ بولا جاتا ہے ۔اب اس سب کا نقصان سن لیں ۔ پاکستان بھر میں اگر تین کروڑ لوگ روزانہ چار گھنٹے سوشل میڈیا پر ضائع کر رہے ہیں تو یہ روزانہ کے 12کروڑ گھنٹے بنتے ہیں ۔مہینے کے ہو گئے 360کروڑ اور سال کے 43ارب گھنٹے ۔ یہ وقت سوچنے میں ، تحقیق میں ، مطالعہ میں ، معاشرے کو بہتر بنانے میں صرف ہو سکتا تھا لیکن یہ کس کام میں صرف ہوا؟

صرف اور صرف ایک دوسرے کے نظریات کو غلط ثابت کرنے، اپنے اپنے پسندیدہ لوگوں کو سجدے کرنے اور سکرین شاٹس کی بمباری میں ۔یہاںاختلاف نہیں ہوتا، ہمیشہ اعلانِ جنگ ہوتاہے ۔ ایک مظلومیت کی فلم چلتی ہے ، جس میں سکرین شاٹس لے کر یہ ثابت کیا جاتاہے کہ مجھ معصوم کے ساتھ اس سفاک بھیڑیے نے کیا کیا ۔

لوگ اس حال میں کام کر رہے ہوتے ہیں کہ جیب میں موجود دو موبائلز کی چار سمز پر مسلسل الرٹ موصول ہو رہے ہیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ لوگ اب دو دفعہ فیس بک استعمال کرنے کے درمیانی وقفوں میں ہی کام کرتے ہیں ۔ فیس بک سے نکلیں تو whatsappدانت تیز کیے کھڑا ہے ۔ ایک دفعہ تو میرے موبائل نے ای میل contactsکی سالگرہ کے الرٹ بھیجنے شروع کر دئیے ۔

یہ بندوبست ہو چکا ہے کہ بندہ لیپ ٹاپ اور موبائل کی سکرین سے سر نہ اٹھانے پائے ۔ بلکہ ان کے اندر ہی منہ دے کر بیٹھا رہے ۔اس کے بعد ملک میں اگر نیوٹن اور آئن سٹائن پیدا نہیں ہو رہے بلکہ صرف وصی بابے اور انعام رانے پیدا ہو رہے ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).