ضیا محی الدین اور کرکٹ


عظیم کرکٹ لکھاری سی ایل آر جیمز نے لکھا ہے

What do they know of cricket who only know cricket?

اس مقولے میں وہ اشارہ کر رہے ہیں اس پھیلاؤ کی طرف جو کرکٹ کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے واسطے لازم ہے۔ پاکستان میں ضیا محی الدین کے سوا اور کون ہوگا جو کرکٹ کا رسیا ہو اور اس سے باہر کے میدانوں سے متعلق بھی ان کے جتنا جانتا ہو۔ تقسیم سے پہلے اور بعد کی کرکٹ کا علم ان کے ناخنوں میں بھرا ہے۔ برصغیر میں کرکٹ کا جنون ان کا آنکھوں دیکھا ہے۔ لاہور میں گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کے درمیان میچ کے لیے وہ ہل چل مچتی کہ دنگل کا سماں ہوتا۔ اس میچ کے باب میں انھوں نے کمال کا مضمون لکھا ہے۔ برصغیر سے باہر کرکٹ کی جنم بھومی انگلینڈ میں عمر عزیز کا معتدبہ حصہ گزرا ، وہاں فلم ، تھیٹر اور ادب سے متعلق سرگرمیاں اپنی جگہ لیکن اس سارے عرصے میں کرکٹ کے خیال سے غافل نہیں رہے۔ آسٹریلیا میں بھی رہے۔ ناموران کرکٹ کو ایکشن میں دیکھا ۔ بی بی سی کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کا پہلا دورۂ انگلینڈ کور کیا۔ کرکٹ نے انھیں بچپن سے پکڑ رکھا ہے۔ دل چسپی ہنوز قائم ہے، جس روز ہماری کراچی میں ان سے ملاقات ہوئی، تازہ بہ تازہ معلومات سے لیس پایا۔ جنوبی افریقہ کے سیاہ فام بولر لنگی نگیڈی کا ذکر کیا جس نے چند روز پہلے انڈیا کے خلاف چھ وکٹیں لی تھیں، یہ بھی بتایا کہ 39 رنز کے عوض۔ اس کھیل میں آنے والے تغیرات سے آگاہ ہیں اور اس میں در آنے والی تیزی سے خوش نہیں۔ کہتے ہیں ’’اب میں اس حد تک کرکٹ کا دھتیا نہیں رہا جتنا دس برس پہلے تھا۔ اخبار میں سب سے پہلے سپورٹس کا صفحہ کھولتا۔ کرکٹ کی کیا خبریں ہیں وہ دیکھتا۔ ولایت میں بھی یہ معمول رہا۔ ہر قسم کا میچ دیکھتا ۔‘‘ ضیا محی الدین نے برطانیہ میں دی ایونجر ٹی وی سیریز کے ایک پلے میں کراؤن پرنس کا کردار بھی کیا جو کرکٹ کا جویا تھا۔ اس پارٹ میں انھوں نے کرکٹ بھی کھیلی۔

بات چیت کا سلسلہ تھوڑا آگے بڑھا تو ہم نے ماضی میں ان کے پسندیدہ کھلاڑیوں کی بابت جاننا چاہا۔ سب سے پہلے وجے ہزارے کا نام لیا جو ان کے خیال میں بڑی نفاست سے بیٹنگ کرتے۔ ان کا کھیل اسٹیڈیم میں دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا۔ وجے ہزارے کا عالمی سطح پر نام اس وقت چمکا جب آسٹریلیا میں انھوں نے دونوں اننگز میں سنچری بنائی، خاص طور سے دوسری اننگزمیں ٹیم کو فالو آن ہونے کے بعد 145 رنز جبکہ ان کے چھ ساتھی کھاتہ کھولے بغیرآؤٹ ہوئے ۔وجے مرچنٹ بھی ان کے پسندیدہ بیٹسمین رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے باعث کرکٹ کا محاذ برصغیر سے باہر سرد ہوا تو اسے انڈیا میں گرم رکھنے میں وجے ہزارے اور وجے مرچنٹ نے اپنا کردار دوسروں سے بڑھ کر ادا کیا۔ سنیل گواسکر کو کلاسیک ٹیسٹ بیٹسمین قرار دیتے ہیں۔ گواسکر کے ذکر پر ہمیں فلمی دنیا کی معروف ہستی اور ادیب گلزار یاد آئے، گواسکر ان کے بھی پسندیدہ کھلاڑی ہیں ، انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے سنچری کرنے پر وہ دوستوں کی دعوت کرتے۔

ویسٹ انڈیز کے سر گیری سوبرز ضیا محی الدین کے آل ٹائم فیورٹ کرکٹر ہیں۔ ان کو رائل کرکٹر قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول ” سوبرز بولنگ کرے تو کمال. بیٹنگ کرے تو کمال, ڈیشنگ بیٹسمین. فیلڈنگ کرے تو انتہا کی کمال, سلی پوائنٹ پر ایسے ایسے زبردست کیچ پکڑے کہ ان کا جواب نہیں۔

حنیف محمد کو تکنیکی اعتبار سے بڑا بیٹسمین گردانتے ہیں جو چھوٹے قد کے ساتھ بڑے بولروں سے نمٹتے ۔ 1954میں لارڈز ٹیسٹ میں کڑے وقت میں جس دلیری سے فاسٹ بولروں کا سامنا کیا اس کے ضیا محی الدین ناظر ہیں اور اس اننگز کی تعریف کرتے ہیں۔ بتایا کہ دو دن کی بارش نے ہمیں ہار سے بچایا۔ 1954میں اوول ٹیسٹ میں پاکستان نے تاریخی فتح حاصل کی۔ اس میچ کے دوران آپ وہیں موجود تھے۔ پاکستانی فیلڈروں تک بات پہنچی اور خاص طور پر وزیر محمد کا ذکر ہوا۔ ہم نے امتیاز احمد سے سنا یہ قصہ ان کے گوش گزار کیا۔ ’’ میچ نازک مرحلے میں تھا کہ کامپٹن نے شاٹ کھیلا اور گیند فضا میں بلند ہوئی، فیلڈر کے پاس اسے ہاتھوں میں محفوظ کرنے کے واسطے مناسب وقت تھا، وزیر محمد کیچ پکڑنے کے لیے حرکت میں آئے تو ساتھی کھلاڑی کہنے لگے کہ ’ وزیر ! خدا کا واسطہ ہے، کیچ پکڑ لینا ، ملک کی عزت کا سوال ہے، ‘ ان جناب نے کیچ توخیر کیا پکڑنا تھا ، گیند ہاتھوں میں ٹھہرنے کے بجائے ماتھے سے جا ٹکرائی۔‘‘

یہ سن کر کہا کہ اس کہانی میں امتیاز احمد نے کچھ زیب داستاں کے لیے بڑھایا بھی ہے۔ امتیاز احمد کے بارے میں بتایا کہ ان کی بیٹنگ مجھے اچھی لگتی تھی۔ میری میکس کے نام سے معروف مقصود احمد کا نام سنتے ہی ان کے منہ سے بے ساختہ واہ واہ نکلا۔ انھیں سٹائلش بیٹسمین بتایا۔ معلوم ہوا کہ وہ فیلڈر بھی اچھے تھے۔کہنے لگے کہ مقصود احمد جیسے کرکٹر شوقیہ کھیلتے ، موڈ ہے تو رنز ہو رہے ہیں وگرنہ نہیں۔ ان کے نزدیک وہ ایسے بلے باز تھے کہ رات ڈیڑھ دو بجے ہوٹل لوٹے اور صبح جاکر سنچری کردی۔ کہا کہ مقصود احمد امرتسری تھے اور شاعر اور نقاد حمید نسیم سے ان کا بہت اچھا تعلق تھا۔ ذوالفقار احمد کی لطیفہ بازی پر بات ہوئی۔ ہم نے بتایا کہ وہ حضرت کیچ گرانے میں ماہر تھے ، ایک دفعہ لالہ امر ناتھ کا اس قدر آسان کیچ گرایا کہ انھوں نے کہا کہ یار ! یہ کیچ تو میری بیوی بھی پکڑ لیتی۔ کہنے لگے کہ ذوالفقار احمد کی شاید عبدالحفیظ کاردار سے رشتہ داری بھی تھی۔ ہم نے کہا کہ بالکل تھی ، کاردار ان کے بہنوئی تھے اور انگلینڈ کے دورے کے دوران ہی انھوں نے دوسری شادی کے واسطے قاہرہ کے لیے اڑان بھری تھی اور یہ سب کچھ ظاہر ہے کہ ذوالفقار احمد کے لیے بہت Embarrassing  تھا۔ انھوں نے بتایا کہ آکسفرڈ میں جانے سے پہلے کاردار ، عبدالحفیظ کے نام سے جانے جاتے تھے البتہ ولایت پلٹ ہونے کے بعد وہ اے ایچ کاردار کہلائے۔ ناٹنگھم میں ڈینس کامپٹن کی پاکستان کے خلاف 278 سکور کرنا اور پاکستانی بولروں کی اس کے سامنے بے بسی بھی ان کی یادداشت کا حصہ ہے۔

1952میں لکھنؤ میں پاکستان کی طرف سے پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے والے نذر محمد کا کھیل بھی بھاتا تھا۔ کہتے ہیں، ان کو کھیلتے دیکھ کر بہت اچھا لگتا ۔ ان کے بقول، نذر محمد جیسا عمدہ لیٹ کٹ کھیلنے والابہت کم دیکھا۔ ان کے خیال میں مدتوں بعد ویرات کوہلی کی صورت میں عمدگی سے لیٹ کٹ کھیلنے والا بیٹسمین سامنے آیا۔ ان کے نزدیک، یہ شاٹ کھیلنے کے لیے بہت نفاست کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لیے آخری وقت میں بلے سے گیند کا رخ موڑنا ہوتا ہے، اور یہ شاٹ وہی کھیل سکتا ہے جس کا فٹ ورک عمدہ اور نظر اچھی ہو، اور یہ وہ کام ہیں جو ان کی دانست میں دھواں دھار بیٹنگ کرنے والوں کے بس کا روگ نہیں۔ سچن ٹنڈولکر بہت پسند تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کا ریکارڈ ہی بتا دیتا ہے کہ وہ کس پائے کے کھلاڑی تھے ۔ انھوں نے بتایا کہ ماجد خان فارم میں ہوتے تو بہت عمدہ کھیلتے اور ان کا کھیل دیکھنے سے تعلق رکھتا۔

ظہیر عباس کو وہ Overrated کرکٹر کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ حقیقی فاسٹ بولروں سے ڈرتے تھے، اور جہاں گیند زیادہ سوئنگ ہوا وہاں وہ پھسلے۔ ظہیر عباس کو دہلا کر تین گیندوں میں رچرڈ ہیڈلی نے جس طرح پھانسا اس کا ذکر کیا کہ اس وقت وہیں اسٹیڈیم میں یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ ضیا محی الدین جس میچ کا ذکر کر رہے ہیں وہ غالباً 1983کے ورلڈ کپ کا میچ ہے جس میں ظہیر عباس صرف دو ہی گیند کھیل پائے اور تیسرے پر ہیڈلی نے انھیں بولڈ کردیا۔ ظہیر عباس کے فاسٹ بولروں سے خائف ہونے کا ذکر عمران خان نے بھی اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments