کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا


قطر والے چاچو کا بیاہ تھا۔ ہر طرف رونق ہی رونق۔ سب اتنے خوش تھے کہ دن بھر ڈانٹ ڈپٹ کھانے والے نگوڑے پرویز کی بھی موجیں تھیں۔ موجیں کیوں نہ ہوں گھر کا سب سے لاڈلا بیٹا پورے سات سال بعد پردیس سے لوٹا تھا۔ بیاہ ہونا تھا نا۔  ویسے بیٹے کے لئے دلہن ڈھونڈنا بھی کسی مہم سے کم نہیں اور جب بیٹا لاڈلا اور دو پیسے کمانے لائق ہو سو تو مانو جوتیاں گھس ہی جاتی ہیں اور جوتیاں کیوں نہ گھسیں بھئی؟ کسی کا رنگ گورا نہیں ہوتا، کوئی ٹھگنی ہوتی ہے، کسی کی آنکھیں چھوٹی۔ مختصر یہ کہ اللہ میاں سے لگتا ہے بڑی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں برصغیر میں لڑکیاں بناتے ہوئے۔

اماں نے بھی بیسوں لڑکیاں دیکھنے کے بعد ہی صائمہ کے حق میں فیصلہ سنا ہی دیا۔ سو آج بارات جانے لگی تھی ، چاند نے آج عابد چاچو کے گھر طلوع ہونا تھا۔ باراتیوں میں سب سے جوشیلا موا نو سالہ اپنے لاڈلے چاچو کا لاڈلہ پرویز تھا۔ خیر دلہن آ گئی۔  دلہن صائمہ کے آتے ہی گھر کی رونقیں دوبالا ہو گئیں۔ گھر بھر دلہن کا دیوانہ تھا۔ پرویز کی تو جیسے ساری دنیا ہی بس دلہن کا یہ کمرہ تھی۔  خوشی کے یہ سہانے دن تیزی سے گزرنے لگے۔ اور پھر وہ منحوس دن بھی آ ہی گیا جب عابد چاچو واپس بڑی بے دلی سے قطر روانہ ہوئے۔

گھر سونے سا ہو گیا۔ صائمہ کا رنگ بھی پھیکا پڑ گیا۔ بھلا دو مہینے بھی کوئی ساتھ ہوا۔ اتنی کم مدت میں کہاں پورے ہوتے ہیں تن و من کے ارماں۔  پرویز کو البتہ چاچو کے جانے کا زیادہ غم نہیں تھا کیونکہ اب صائمہ چچی کے پاس ہر وقت نازل ہونا مزید آسان ہو گیا تھا۔

سکول سے چھٹیاں تھیں تو پرویز دوپہر کو صائمہ کے کمرے میں جا وارد ہوا۔ صائمہ کمالِ بے نیازی سے کنگ سائز بیڈ پہ لیٹی تھی۔ اسکا بھرا بھرا سا جسم کسی کو بھی بھٹکا سکتا تھا۔ مگر پرویز کو کہاں یہ سب دکھتا۔ بچہ جھٹ سے آ کر چچی کے سرہانے آ بیٹھا۔  اور اپنی بہادری کے جھوٹے سچے قصے سنانے لگا کہ اتنے میں صائمہ چچی کے کمر میں ٹیسں اٹھی اور اس نے بلبلاتے ہوئے پرویز سے کمر سہلانے کی استدعا کی، پرویز نے فوراً سے پیشتر حکم کی تعمیل کی اور صائمہ چچی کی کمر سہلانے لگا۔

اب تو یہ روز ہی ہونے لگا۔ ہر دوپہر بیچاری صائمہ چچی کو کبھی کہاں تو کبھی کہاں درد اٹھتے اور پرویز شفا بننے لگا۔ آج تو صائمہ چچی نے پوری کمر ننگی کراکر پرویز سے گرم تیل کی مالش کرائی اور گالوں پہ چوم چوم کہ پرویز کا دیر تک شکریہ ادا کرتی رہی۔  چچی دل کی اچھی تھیں ، جب پرویز تھک جاتا تو اسکے سارے بدن پر ہاتھ پھیرتی رہتی تاکہ بچے کی تھکن دور ہو۔ پرویز کو اب اچھا نہ لگتا تھا چچی کا کمرہ پر چچی نے اسے کہہ رکھا تھا کہ اگر نہ آئے تو بتا دینا ہے اس نے اسکی اماں کو کہ وہ کیسے ہر دوسرے روز اسے نہاتے دیکھتا ہے۔ اور کوئی نہیں مانے گا کہ وہ کتنا روتا تڑپتا ہے کہ دروازہ بند ہی کر دیں۔

چاچو پردیس سے آتے دو چار سال بعد تو کچھ دن پرویز کو سکون ملتا ورنہ اذیت ہر لمحہ اس سے چمٹی رہتی۔  چچی کی گود میں بچہ بھی پرویز کا بچپن رہا نہ کرا سکا۔  سولہ سے اٹھارہ برس کی چھلانگ بھی اسے نہ بچا سکی۔ بھلا اب مرد کی بھی کیا مجبوریاں پر وہ تو جیسے نو سال کے پرویز سے آگے بڑھ ہی نہ سکا۔ وہ تو وہیں کہیں قید ہو کہ رہ گیا۔  اس کمرے کی جان لیوا حبس سے اب بھی ہر پل اسکا دم گھٹتا تھا۔ اسکے اندر ایک لاوا سا تھا جو اندر ہی اندر ابل رہا تھا۔

بڑے شہر بھیجا تھا اسے اماں نے عابد چچا کی واپسی کیلئے سودا سلف لانا تھا۔ بازاروں کی چکا چوند اسے عابد چاچو کی دم نکالنے والی روشنیاں یاد دلا رہی تھیں۔ ایسے میں ایک خواجہ سرا نے اسے آواز دی اور تقریباً اس کے جسم سے رگڑتے ہوئے بڑے چاؤ سے چار پیسوں کی بھیک مانگی۔ پرویز نے اسکے سرخی پاؤڈر سے لیس چہرے کو حقارت سے دیکھ کہ اسے جھٹکا دیا اور اپنی راہ پہ چل پڑا ۔ خواجہ سرا نے بھی ہار نہیں مانی اور لپک کے پیچھے ہو لیا۔ پرویز کے ذہن میں دھماکے ہونے لگے۔ اندر ہی اندر پلنے والا چپ کا آتش فشاں ابلنے کو تھا ۔ خواجہ سرا اب بھی پرویز کے پیچھے ہی تھا۔ اب وہ قدرے ویران علاقہ میں تھے، پرویز اسے جھڑکنے کو مڑا ہی تھا کہ یہ کیا صائمہ چچی اسکے سامنے تھیں۔ اس کا سر چکرایا اور نظر ساتھ پڑے پتھروں پہ جا پڑی۔ اس نے مزید انتظار کئے بغیر یکایک ایک پتھر اٹھایا اور اس سے پہلے کہ صائمہ چچی کوئی چال چلتی، اس نے پے در پہ وار کر کہ اسکی ہر چال کا گلہ گھونٹ دیا۔

آتش فشاں کے پھٹتے ہی سب بھسم تو ہو گیا ۔ اب سکوت تو چھا گیا تھا مگر ایک اور بھیانک سکوت۔

خون سے لتھڑے ہاتھوں کو گھورتے ہوئے پرویز نے دھاڑیں مار مار کر خود کو آزاد کر کے ہمیشہ کیلئے قید کر دیا۔

نیلوفر مروت

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نیلوفر مروت

محترمہ نیلوفر مروت یونیورسٹی آف سوات میں انگریزی ادبیات کی استاد ہیں

nelofur-marwat has 4 posts and counting.See all posts by nelofur-marwat