بلوچستان کے بعد اب جنوبی پنجاب کا احساس محرومی


بلوچستان کا ”احساسِ محرومی“ دور کرنے کے لئے عمران خان صاحب نے کڑوا گھونٹ پیا۔ کرپشن کے خلاف لگے جہاد کے محاذ سے چند لمحوں کی رخصت لی اور سیاسی منظر نامے پر تقریباََ ایک نووارد صادق سنجرانی کو سینٹ کا چیئرمین منتخب کروادیا۔ اس انتخاب کو یقینی بنانے کی خاطر انہیں ”دنیا کی سب سے بڑی بیماری“ کے نامزد کردہ سلیم مانڈوی والا کو اس ایوان کا ڈپٹی چیئرمین بھی بنوانا پڑا۔

صادق سنجرانی کے ہم نواﺅں نے اپنی محرومی دور کروالینے کے بعد مگر تحریک انصاف میں شامل ہونا مناسب نہ سمجھا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت کھڑی کرلی۔ اس جماعت کو مزید توانا بنانے کے لئے وفاقی کابینہ کے ایک رکن جام کمال نے استعفیٰ دے دیا۔

موصوف کے دادا اور والد برسوں سے مرکز پسند سمجھے جاتے تھے۔ مرکز پسندی کو ہمارے ہاں حب الوطنی کا مترادف بھی سمجھا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں بالغ رائے دہی کے ذریعے 1970میں ہوئے پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی مینگل حکومت کو برطرف کرنا چاہا تو جام کمال کے دادا نے ان کو قبائلی کمک فراہم کی۔

محمد خان جونیجو کے دور میں وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نامزد ہوئے۔ بلوچستان کا احساسِ محرومی مگر دور نہ ہوا۔بالآخر جنرل پرویز مشرف نے ان کے فرزند جام یوسف کو 2002ءمیں ہوئے انتخابات کے بعد بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنایا۔ بلوچستان کا احساس محرومی مگر اپنی جگہ برقرار رہا۔ امید ہے کہ جام کمال بلوچستان عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد وزارتِ اعلیٰ کے منصب تک پہنچ گئے تو محرومی کے اس احساس کو دور کرنے میں آسانی ہوگی۔

ایسا مگر ہوا تو قدوس بزنجو کو بہت دُکھ پہنچے گا۔بہرحال سردار ثناءاللہ زہری سے بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ انہوں نے بہت محنت سے چھینی ہے۔ بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ کو ایک سردار سے چھیننے کے بعد ہمارے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے والے اس محب وطن اور صاف ستھرے نوجوان سیاست دان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ انہیں وزیر اعلیٰ نہ بنایا گیا تو وہ ایک ذاتی نوعیت کے احساسِ محرومی کا شکار ہوجائیں گے۔ انہیں شبہ ہوگا کہ نواز شریف کو سینٹ کی گیم میں زچ کرنے کے لئے انہیں استعمال کرنے کے بعد نظرانداز کردیا گیا۔

بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت کو فارغ کرنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے نواب اکبر بگٹی کو استعمال کیا تھا۔ کام نکال لینے کے بعد انہیں بھی فارغ کردیا گیاتھا۔ کئی برسوں کے وقفے کے بعد بھٹو کی بیٹی کی حکومت کو مفلوج بنانے کے لئے بگٹی صاحب1989میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ محض دو سال کی وزارتِ عظمیٰ کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت اگست 1990میں صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں فارغ ہوئی تو بگٹی صاحب کی بھی ضرورت نہ رہی۔ مسلسل ناراض رہتے ہوئے مشرف کے دور میں بالآخر پہاڑوں پر چلے گے۔

انجام کافی تکلیف دہ ہوا۔ ربّ کریم سے فریاد ہے کہ قدوس بزنجو کو اپنے دل میں بگٹی صاحب جیسے جذبات پیدا کرنے کا موقع نہ ملے۔ وطن عزیز کے استحکام اور خوش حالی کی خاطر آنے والے کئی برسوں تک ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت برقرار رہے۔

بلوچستان کے احساسِ محرومی کودور کرنے کی خاطر اس صوبے سے اُٹھے باصلاحیت نوجوانوں کے نمودار ہونے نے مجھے محترمہ زبیدہ جلال کی یاد دلادی ہے۔ 2002کے انتخابات میں وہ مکران کے ساحلی علاقوں سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ ان کے انتخاب کو یقینی بنانے کے لئے ”بابائے بلوچستان“ کے جانشین حاصل بزنجو کو خصوصی طورپر اسلام آباد بلواکر انتخابی دوڑ سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا۔ بہت ہی Pragmaticحاصل نے یہ مشورہ سرجھکا کر مان لیا۔

محترمہ زبیدہ جلال کرشماتی ہیولے کے ساتھ اسلام آباد میں نمودار ہوئیں تو یہاں کے صحافتی حلقوں میں تھرتھلی مچ گئی۔ ان کا بیک گراﺅنڈ معلوم کرنے کی لگن میں تحقیق شروع ہوگئی۔دریافت یہ ہوا کہ پڑھے لکھے خوشحال خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ خاندان ان کا مکران میں تعلیم کے فروغ کے لئے خطیر رقم خرچ کرتا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم سفارت کاروں کو ان کی یہ شہرت بہت بھائی۔ ان کی معرفت ساحل مکران میں فروغ تعلیم اور Women Empowermentکے لئے کئی منصوبوں کی بین الاقوامی NGOsکے ذریعے فنڈنگ ہونا شروع ہوگئی۔

2003میں افغانستان کی جنگ سے فارغ ہوئے بغیر امریکہ نے عراق پر بھی حملہ کردیا۔ کئی لوگوں کو گماں ہوا کہ عراق کے بعد ایران کی باری ہے۔ یہ باری آجاتی تو Strategicحوالوں سے ہمارا بلوچستان عالمی قوتوں کی لگائی Great Gameکے لئے بہت اہم ہوجاتا ۔ بلوچستان کے احساسِ محرومی کو دور کرنے کے لئے جنرل پرویز مشرف نے میر ظفر اللہ خان جمالی کو وزیر اعظم بنوایا تھا۔ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائزہوجانے کے بعد جمالی صاحب نے لیکن”میری“ والا انداز برقرار رکھا۔صبح دیر سے اُٹھتے اور کچہری لگاکر دوستوں سے حال احوال شروع کردیتے۔ دفتر بہت دیر سے آتے اور وہ بھی تھوڑی دیر کو۔ کمانڈو صدر کو ایسی ”غیر منظم“ زندگی پسند نہ آئی۔سرگوشیاں شروع ہوگئیں کہ ان کا متبادل ڈھونڈا جارہا ہے۔

مجھ تک ان سرگوشیوں کی بھنک پہنچی تو بخدا میں نے محض شرارتاََ اپنے انگریزی کالم میں بغیر کسی ٹھوس وجہ اور اطلاع کے یہ کہانی چلادی کہ میر ظفر اللہ جمالی کا متبادل بلوچستان ہی سے چنا جائے گا تاکہ اس صوبے میں احساسِ محرومی کی لہر دوبارہ نہ چل پڑے۔

کالم نگارِ جب کوئی مفروضہ گھڑلے تو اسے بااعتباربنانے کے لئے دلائل ایجاد کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے ”دریافت“ کیا کہ ہمارے بہت ہی Enlightened Moderated صدر مشرف انتہائی خلوص Women Empowermentکو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جمالی صاحب کا متبادل کوئی خاتون سیاست دان ہو۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو عالمی میڈیا میں Daughter of the Eastبھی کہا جاتا تھا۔میں نے نہایت ڈھٹائی سے محترمہ زبیدہ جلال کو Daughter of the Coastکا لقب دے دیا یعنی ”ساحل (مکران) کی بیٹی“۔ انگریزی اخبارات کے چند یورپی اور امریکی قارئین کو یہ لقب بہت پسند آیا۔

امریکی فوج کے ایک سابق سربراہ Colin Powellان دنوں اس ملک کے وزیر خارجہ ہوا کرتے تھے۔ محترمہ زبیدہ جلال امریکہ کسی اور مقصد سے دورے پر تشریف لے گئیں تو ان سے ملاقات کا اہتمام بھی ہوگیا۔ اخباروں کے لئے ایک تصویر جاری ہوئی جس میں Colin Powellچہرے پر فاخرانہ مسکراہٹ سجائے محترمہ زبیدہ جلال سے ہاتھ ملاتے ہوئے ان کا اپنے دفتر میں خیر مقدم کررہے تھے۔

میرا مفروضہ سچ ہوتا نظر آیا۔ یہ خبر ا لبتہ مجھے ذمہ دار ”ذرائع“ سے مل چکی تھی کہ جمالی صاحب کے بعد شوکت عزیز کو وزارتِ عظمیٰ پر بٹھانے کی تیاری ہورہی ہے۔ Daughter of the Coastکے ساتھ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوچکا ہے۔ ان دنوں مجھے خبر نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ ربّ کریم سے اس لئے فریاد ہے کہ قدوس بزنجو کو ان جیسی گمنامی سے بچائے رکھے۔

یہاں تک پہنچا ہوں تو خیال آیا کہ اس کالم کے ذریعے میں نے درحقیقت بلوچستان نہیں جنوبی پنجاب کے احساس محرومی کا ذکر کرنا تھا جسے دور کرنے کے لئے سرائیکی وسیب کے ”میاں والی قریشیاں“ کے نوجوان مخدوم خسروبختیار پیر کی سہ پہر منظرِ عام پر آگئے ہیں۔ ضلع رحیم یار خان سے ابھرے ”قدوس بزنجو“۔ توجہ ان کے بنائے ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ “ پر دینا تھی مگر یاد ”ساحل کی بیٹی“ آگئیں۔ یقینا سٹھیا گیا ہوں۔ ارتکاز توجہ کی صلاحیت سے بتدریج محروم ہورہا ہوں۔ اس موضوع کو کسی اور دن کے لئے ٹالنا ہوگا۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).