کیا منظور پشتین، اسما نواب کو جانتا ہے؟


سنا ہے کوئی منظور پشتین نامی ریاست کو دہائی دیتا ہے، کہ نامعلوم افراد کا پتا دو۔ ان پر الزام ہے، تو عدالت میں پیش کرو، ثابت ہوجائے تو سزا دو، وگرنہ رہا کرو۔ منظور پشتین پختون کی ستم رسیدگی کا وکیل بنا ہے۔ چہ خوب!

منظور پشتین یقینا غیر پشتون اسما نواب کو نہیں جانتا ہوگا، کہ جب وہ ریاست کے خلاف دھرنا دیے بیٹھا ہے، تو اسما نواب کو ’باعزت‘ طور پر بری کردیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے، کہ ”باعزت‘ طور پر۔ منظور پشتین کو خبر ہو کہ ’معلوم‘ کی یہاں یہ عزت ہے۔ کون کہتا ہے کہ عزت سے جینے کا مطالبہ نہ کرے، کوئی؛ ’عزت‘ اک استعارہ ہے۔ یا پھر عزت انھی کی دُلھن ہوئی، جن پر انگلی اٹھانے سے ان کی توہین ہوتی ہے۔

منظور پشتین کو کوئی کہے گا، کہ ہر پاکستانی جس سے کوئی اور طاقت ور ہے، وہ اسما نواب ہے! ’باعزت‘ رہائی کا منتظر۔ اجی اچنبھے کی کوئی بات نہیں، کہ قانون سے فرد زور آور ہوں، تو یہی منظر بنتا ہے۔ اسما نواب ’معلوم‘ تھی، پر ’نامعلوم‘ سے جدا مقدر نہ ٹھیرا۔ ’معلوم‘ تھی، تبھی تو قریب بیس برس پہلے یہ نام اخباروں میں چھپا تھا۔ اس وقت نہ سوشل میڈیا کی یہ صورت تھی، نہ پاکستانی الیکٹرونک میڈیا کی یہ بہار۔ یہاں خیال رہے کہ اس ’بہار‘ کا عرب اسپرنگ سے کوئی ناتا نہیں، ہاں اتنا کہ دونوں بہاروں کی خزاں سامنے ہے۔

منظور پشتین کوہستانی ہے، کہ میدانوں کے موسموں سے نا آشنا ہوگا۔ ”نامعلوم کا پتا دو“؟ بھلا مظلوم کے لیے ایسے کیا تبدیلی آ جائے گی، کہ نامعلوم کی خبر دے دی جائے؟ ملکی قوانین کے مطابق مقدمہ چلایا جائے؟ تو کیا ہوگا؟ وہی ہوگا، جو منظور ’ناخدا‘ ہوگا۔ میں تو یہی سمجھا ہوں، کہ منظور پشتین خوابوں کی دُنیا میں رہنے والا کوئی مردِ ناداں ہے۔

منظور پشتین جیسوں کو جیلوں میں سڑنے والے ان ہزاروں کیڑوں مکوڑوں کی کچھ خبر ہے، کہ جن کے مقدموں کے فیصلوں میں صدیاں بیت گئیں؟ کوئی پوچھے جا کر منظور پشتین سے کہ کیا وہ جانتا ہے، بیس برس، کتنی کالی سیاہ راتوں، کتنے تاریک دنوں، کتنے ہفتوں، مہینوں پر مشتمل ہوتے ہیں؟ قاصد جواب لایا ہے، کہ وہ کچھ نہیں جانتا؛ وہ منظور پشتین اتنا جانتا ہے کہ پشتونوں پر ظلم ہورہا ہے۔ منظور پشتین کو کوئی کَہ دے، ایسا ہی ہے، تو پاکستان کا ہر محکوم پشتون ہے۔

کون ہے جو اس کرب کا اندازہ کرے، کہ کسی کو بیس سال تک زنداں میں رکھا جائے، جب کہ وہ مجرم بھی نہ ثابت ہو؟ بیس دِن، بیس گھنٹے بھی بہت ہیں؛ کجا بیس برس۔ اے مظلوموں کے خدا مجھے اپنی امان میں رکھنا۔

ایسے ملزم کو عمر قید ہی دے دی جاتی، کہ چودہ برس سے اوپر کیا سزا ہوتی! اس میں بھی دن رات کا شمار غنیمت ہے، کہ عید رمضان کی خوشی میں سزا میں کمی کی نوید سوا ہے۔ کسی کی زندگی کے بیس برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے؛ کیا خوب انصاف ہے! میرے مالک! کیا یہی انصاف ہے؟ قسم ہے تیری، یہ انصاف نہیں ہے۔

اسما نواب کالج سے گھر لوٹتی ہے، تو ماں باپ اور بھائی کی بریدہ لاشوں کا سامنا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تفتیشی ادارے والدین اور جواں سالہ بھائی کے قتل کے جرم میں اسی کو ملزمہ قرار دیتے گرفتار کرتے ہیں؛ بیس سال وہ انصاف کے لیے ایک عدالت سے دوسری عدالت میں پیش کی جاتی ہے، لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیس سال۔

بیس سال۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کے بیش قیمت بیس برس۔ یہ سوچ ہی کر ہول اٹھتا ہے، کہ کسی کی زندگی کے بیس سال مقدمے بھگتتے قید خانے میں گزرے۔ منظور پشتین تمھیں معلوم ہے، کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جیل خانے میں، ایک عورت اتنی ہی محفوظ ہے، جتنی ملک شام کے راستے میں سفر کرتے وہ عورت بھی نہ ہوگی، جس کا ذکر ’مثالی تاریخ‘ میں ملتا ہے؟

ڈاکیے کو تار دو، کہ منظور پشتین کی راہ سے رُخ موڑے، اور پیغام دے اسما نواب کو، کہ بیس برسوں میں یہاں، اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیا کچھ بدل گیا؛ کیا کچھ بدلا؟ کچھ بھی تو نہیں! اس وقت بھی سیاست دانوں کی حکومت تھی، آج بھی سیاست دانوں پر وہی حکمران ہیں۔ اُس وقت بھی یونھی انصاف بکتا تھا، آج بھی ارزاں ہے۔ اُس وقت بھی محب وطن کا سرٹفکیٹ ایک ہی ادارہ جاری کرتا تھا، آج بھی وہی مجاز ہے۔ اُس وقت گلیوں، سڑکوں، چوراہوں پر پولِس کا ناکا تھا، آج فوجی چوکیاں اضافی ہیں۔ شہری اپنے ہی دیس میں اجنبی ہیں؛ رُسوا ہیں، محصور ہیں۔

بیس سال پہلے کیا تھا، جو اب نہیں ہے؟ تھانوں کے ریٹ تھے؛ جج کیے جاتے تھے، وکیل خریدے جاتے تھے۔ پیمان باندھ کر بے وفائی کرنے والے گھوڑے تھے؛ بھٹو زندہ تھا، زندہ ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا خواب تھا، سو ہے۔ کیسے کیسے مجاہد تھے، کیسے کیسے غازی تھے؛ دائیں ہاتھ سے پانی پینے کی ترغیب دی جاتی تھی، بایاں پنجہ حلقوم پر تھا؛ اپنوں کے سامنے اپنوں کے لاشے تھے۔ انصاف کے طلب گاروں کے ہاتھ کڑیوں میں تھے؛ انصاف کے متمنی آج بھی لرزیداں ہیں، کہ اُن کی محرومیوں کا الزام انھی پر ہے۔

آج کیا نہیں ہے، جو کل نہیں تھا؟ خیالوں پر پہرے تھے، تو سانسیں قید تھیں۔ تھی! ہاں! پر جنت کی نوید تھی؛ آج کیا الگ ہے؟ سب کچھ وہی تو ہے؛ ہم یہاں ہیں، جنت بھی کہیں منتظر ہے۔

منظور پشتین تم کہتے ہو، ”پختون اب جنگ سے تھک چکے ہیں“۔ اسما نواب کہتی ہے، ”میری قید کا ذمہ دار معاشرہ ہے، حکومت اور میڈیا ہے“۔ میں تم دونوں سے کہوں، ”رعایا بھی تھک چکی ہے، جنگ سے؛ حکومت سے، ریاست سے بیزار ہے؛ قید میں ہے، پر زنجیروں سے پیار ہے“۔

نامہ بر! کہنا اسما نواب سے، کہ بیس برس پہلے 1998ء تھا، آج 2018ء ہے؛ وہی ”8“۔ ”8“ کہ گھوم پر کر ہم اسی مقام پر آ ٹھیرتے ہیں۔ سب کچھ وہی تو ہے۔ یہ پیام دینا کہ اے خوش نصیب، تم تو پھر رہا ہوگئی ہو، ہماری قید کی بھی کچھ خبر ہے؟ تم اُمید لے کر نکلی ہو، گویا کچھ بھی تو کھویا نہیں۔ ہم قید میں ہیں، نومید ہیں؛ نوحے بھی نہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran