میں پاکستان کی سنی لیون ہوں


پورنو گرافی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ شاید اتنی ہی پرانی جتنا کہ حضرت انسان خود پرانے ہیں۔ جہاں انسان نے جدیدیت کی طرف بڑھتے ہوئے ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھا اور بہت ساری نئی ایجادات کیں اور دنیا کی شکل ہی بدل کے رکھ دی، اسی طرح پورنوگرافی نے بھی بہت سی شکلیں بدلیں اور آج ہماری انگلیوں کی معمولی سی حرکت پر پردوں کے پیچھے کی ہر سرگرمی لباس مجاز میں رونمائی پر تیار ہے۔ لیجئے، حضرت اقبال یاد آ گئے اور کیوںکر یاد نہ آئیں، آخر امیر بائی اور اس کا طائفہ لاہور کی تاریخ میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا۔

حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لئے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن

پورنو گرافی ایک منافع بخش کاروبار ہے اور یقین کریں یہ محض ایک کاروبار ہے جو اشاروں، کنایوں، داستانوں، تصاویر اور مورتیوں سے نکل کر فلموں، ویڈیو فلکس اور ورچوئل گیمز کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کاروبار کی حیثیت برے نتائج کے حوالے سے ہیروئین کے نشے جیسی ہے۔ میں قطعی طور پر انسانی نفسیات پر رائے دینے کی اہل نہیں بلکہ میرا مقصد اس تحریر میں صرف انسانی جبلت کی اس کمزوری کا معاشیات سے تعلق بیان کرنا ہے۔ اربوں ڈالر کا بزنس جو کہ محض اس بنیاد پر کھڑا ہے کہ اس سے دنیا کے کونے کونے میں انسان جنسی تفریح حاصل کرتے ہیں، اسے رواروی میں طاغوت یا ہنود و یہود کی سازش کہنا قطعی غلط ہے۔

اگر ایسا ہوتا تو پھر ہنود و یہود امریکہ اور یورپ میں یہ فلمیں کہیں نہ پائی جاتیں پہلے پہل مسلمان ممالک میں یہ فلمیں سمگل ہو کر آیا کرتی تھیں ۔ مسلمان لاتے تھے نہ کہ فلم میکر زبردستی بھیجتے تھے اور ان فلموں کا ذکر کیسے ہو گا جو پاکستان ہی میں 80ء کی دہائی سے بن رہی ہیں اور کہیں زیادہ شوق سے دیکھی جا رہی ہیں۔

خلیل جبران نے ایک بار کہا تھا کہ جو بھی میں کہتا ہوں اس کا نصف بے معنی ہوتا ہے تاکہ باقی کے آدھے کا معنی آپ کو سمجھ میں آئے۔

اب آتی ہوں اپنے اصل موضوع کی طرف۔ ”سنی لیون“جنوبی ایشیا کی ایک مشہور ہستی ہے اس کی وجہِ شہرت اس کا کام ہے۔ کیا کام؟ ہم سب واقف ہیں کہ وہ ماضی میں ایک باقاعدہ پورن سٹار تھی اور اب بھی بیشتر فلموں میں نیم عریاں کردار ادا کرتی ہیں۔ ہندی فلموں میں اُس کی عریاں ترین فلمیں ہوں یا نیم عریاں، بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں کیونکہ وہ اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنا جانتی ہے اُس کی اداکاری میں ہر سچ کا گمان ہوتا ہے وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔ گندہ ہے پر دھندہ ہے۔ ایمانداری سے جتنے پیسے لیتی ہے، اتنا کام بھی کرتی ہے۔ دھندے کے ساتھ انصاف کرنے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں ۔

میرا دھندہ لکھنا لکھانا ہے۔ مجھ پر سوال داغا گیا کہ کس لابی سے ہو؟“۔ لکھنے والے کا کام لکھنا ہے، بے چہرہ، جعلی نام، اتا پتا نامعلوم، عقل سے فارغ، فراغت بے پناہ، ایسے دھوپ چھاؤں کرداروں کو اس  سوال کا حق کس نے دیا؟ لکھنے والے کی لابی پوچھتے ہیں، کیا انہیں یہ معلوم ہے کہ لابی کہتے کسے ہیں نیز یہ کہ کشمش میں تنکے کا محل وقوع کیا ہوتا ہے؟ صرف یہ جان لیا ہے کہ انٹرنیٹ ایک ایسی اوٹ ہے جس کی آڑ میں بیٹھ کر اپنے اندر کی غلاظت اگلی جا سکتی ہے، اپنے موہوم وجود کا کسی دوسرے کو کیا احساس دلا سکتے ہیں، ابھی تو انہیں اپنے ہونے اعتماد نہیں۔ ڈبویا جن کو ہونے نے۔۔۔

مجھے “اپنے گھر کی باتیں باہر” کرنے پر لفظوں سے چھلنی کرنے کی کوشش کی گئی اور ”بے حیا“ کہا گیا۔ اللہ رے شرم و حیا کے چوبی پتلے، عبدالحلیم شرر کے دربار حرام پور کی ارد بیگنیاں، موم جامہ اوڑھ کر پیدا ہونے والے لحمی پارچے، بی اے سیکنڈ ڈویژن، تھرڈ اٹمپٹ۔ حیا کی املا جانتے ہیں غالباً کبھی عربی لغت میں حیا کے مفاہیم نہیں دیکھے۔۔۔۔ انسان کو اپنے ماخذ و منبع کا حدود اربع معلوم ہونا چاہیے۔

مجھے معلوم ہے کہ لکھنا میرا ہنر ہے اور مجھے اپنے ہنر میں مہارت حاصل کرنا ہے۔ راستے میں یہ سنگریزے تو آئیں گے، ہر عہد کے لکھنے والے کو جہالت کے صفرادی استفراغ سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، یہ دشنام تخلیقی اذہان کی میراث ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ مجھے اس صف میں شامل ہونے کا اعزاز ملا۔

اچھی صورت جو کہ مجھے معلوم ہے کہ میری ہے کیونکہ خدا کی بنائی ہوئی ہے۔ اور پھر بے باک اظہار۔۔۔۔ ویسے اظہار اگر بے باک نہ ہو تو اس دیمک کو ایم اسلم اور نسیم حجازی کی کتابوں میں رکھنا چاہیے۔ تو جناب، مجھے بے باک اظہار پر سنی لیون کا خطاب بھی مل گیا۔ فرمایا ”آپ پاکستان کی سنی لیون ہیں ۔ ہر مرد کی خواہش“۔ خیر مردانگی تو آپ کی معلوم شد لیکن آپ کا شکریہ واجب ہے کہ آپ نے مجھے اپنے پیشے سے انصاف کرنے والی ایک خاتون سے نسبت دی۔ مکرر شکریہ۔ میں ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے کسی طالع آزما آمر یا لیٹرے سیاستدان سے نہیں ملایا۔ کسی ایسی پارسا ہستی سے نہیں ملا دیا جو راولپنڈی کی مسجد میں بیٹھ کر بلاسود اسلامی سرمایہ کاری کے نام پر لوگوں کے اربوں روپے لوٹ کر بنکاک بھاگ گئی۔ اس سعودی شہزادے سے نہیں ملا دیا جو فرانسیسی فلم ساز ادارے سے اپنی مطبوعہ خاتون کی فحش فلمیں بنواتا رہا اور پیسے ادا کئے بغیر مر گیا۔ کسی ایسے کریہہ الصوت ملا سے نہیں ملا دیا جو تقدس مآب منبر پر بیٹھ کر بھری محفل میں فحش گوئی کرتا ہو۔ اور یہ کہ آپ نے مجھے اپنے کینڈے کے کسی مرد موہوم سے نہیں ملایا۔ ہاں میں ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کرنا چاہتی ہوں ۔آپ کی حوصلہ افزائی کا شکریہ۔  لیجئے چلتے چلتے ایک نیا اشتہاری ماٹو بھی سن لیں ۔

“اپنے پیشے کے ساتھ ایماندار رہیں، سنی لیون کی طرح”

Apr 13, 2018 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).