آٹھ منٹ میں زندہ انسان کی کھال اتارنے والے کے ساتھ بارہ منٹ


ہم لوگ شاہراہ قائدین کے موڑ سے آگے بڑھ گئے تھے، مجھے خیال آیا کہ کہیں وہ کانٹی نینٹل ہوٹل یا گورنر ہاؤس یا وزیراعلیٰ ہاؤس پر تو جاکر نہیں پھٹنا چاہتا ہے۔ ایک بار پھر خوف نے میرے پورے جسم کا محاصرہ کرلیا۔ عائشہ باوانی اسکول کے آگے جناح ہسپتال کے موڑ سے اس نے گاڑی کو واپس شاہراہ فیصل پر ہی موڑنے کو کہا۔

دم بھر کے لئے میرے ذہن میں آیا کہ گاڑی موڑتے وقت چلتی گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر جمپ ماردوں اور گاڑی جس طرف جاتی ہے چلی جائے، اس طرح سے میری جان بچ جائے گا۔ میں نے یہ سوچتے ہوئے گاڑی کو آہستہ کیا کہ اس کے فون کی گھنٹی دوبارہ بجٹ اُٹھی۔

فون پر اس نے مشکل سے دو منٹ بات کی اور اس دوران میں گاڑی موڑ کر دوبارہ ایئرپورٹ کی طرف سفر شروع کرچکا تھا۔
اس نے بھرپورنظر مجھ پر ڈالی اور دھیرے سے کہا تم شہید ہونے کو تیار ہونا، کلمہ پڑھنے کا وقت آگیا ہے۔

نہیں میں مرنے کو تیار نہیں ہوں، مجھے نہیں مرنا ہے، میں مرنا نہیں چاہتا ہوں۔ ایک ایسی بے کار کی جنگ میں جس کا سر ہے نہ پیر، جو کوئی بھی نہیں جیتے گا۔ اللہ کے لئے مجھے چھوڑدو، مجھ پر رحم کرو، میرے بچوں پر رحم کرو۔ مجھے اچھے طریقے سے یاد ہے کہ یہ سب کچھ میں نے روتے ہوئے چیخ چیخ کر کہا تھا۔

بڑے بزدل ہو تم اور تمہارے جیسے لوگوں کی وجہ سے آج دنیا میں مسلمانوں کا کوئی مقام نہیں ہے۔ تمہارا تو دین میں بھی کوئی مقام نہیں ہے۔ تم ان بچوں کی فکر کررہے ہو جو اوپر والے نے دیے ہیں، تمہیں یہ بھروسہ نہیں ہے کہ اوپر والا ہی ان کا خیال بھی رکھے گا۔ تمہارے جیسے مسلمان ہیں جنہوں نے جہاد کا، دین کا، رسول کا، اللہ کا راستہ چھوڑدیا ہے۔ تمہیں تو اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ میں نے تمہیں چنا ہے۔ ابھی فون پر مجھے خبر ملی ہے چیف منسٹر ایئرپورٹ سے نکلنے والا ہے جیسے ہی وہ سڑک کے دوسری طرف پہنچے گا میں اپنے کو تم کو گاڑی کو تباہ کردوں گا۔ وہ امریکہ کا یار جہنم پہنچے گا۔ تم اور میں جنت پہنچ جائیں گے۔ تمہیں خوش ہونا چاہیے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اس کے چہرے پر بلا کا سکون تھا اور آنکھوں میں اطمینان۔ اس کی شکل دیکھ کر کوئی بھی اندازہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ شخص زندہ انسانوں کی کھال کھینچ لیتا ہے، بکرے کی طرح انہیں ذبح کرسکتا ہے، ایسی منصوبہ بندی کرتا ہے جس میں معصوم لوگ مرد عورتیں بچے مرسکتے ہیں، ملبے میں زندہ دفن ہوسکتے ہیں۔ یہ سارے خیالات میرے ذہن میں ایک تیز ریل گاڑی کی طرح سے چھک چھک کرتے چلے گئے۔

میری آنکھوں کے سامنے میری بیوہ بیوی کا آنسوؤں بھرا چہرا آگیا، میرے بچے آگئے، ننھے ننھے یتیم بے یارومددگار نہ جانے کیسی زندگی گزرے گی، میرے دل میں آیا کہ میں گاڑی دیوار سے ٹکرادوں، یا روک کر بھاگ جاؤں۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے فون کی گھنٹی بجی۔

اس نے فون پر السلام علیکم کہہ کر اپنے کانوں سے لگالیا۔ میں نے کَن انکھیوں سے دیکھا وہ سامنے دیکھ رھا تھا، مجھے پہلی دفعہ ایسا لگا جیسے اس کے چہرے پر مایوسی ہے، اس نے فون بند کیا اور بغیر کچھ بولے سامنے غور سے دیکھ رھا تھا۔

گاڑی ناتھا خان گوٹھ کا پل عبور کرکے نیچے اُتر رہی تھی۔ سامنے بس اسٹاپ پر پانچ چھ منی بس کھڑی ہوئی تھیں، جن میں مسافر اُتر اور چڑھ رہے تھے۔
اس نے یکایک کہا کہ بس اسٹاپ پر گاڑی روک دو۔ میں نے آہستہ آہستہ ڈرتے ہوئے گاڑی روک دی اور آنکھیں بند کرلیں۔ مجھے پتہ تھا کہ میری ہلاکت کا وقت آگیا ہے۔
گاڑی کا دروازہ دھڑ سے بند ہوا میں نے دیکھا وہ تیزی سے دوڑتا ہوا لانڈھی جانے والی بس میں سوار ہو گیا، مجھے ایسا لگا جیسے میں بے ہوش ہوجاؤں گا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3