میں بنی اسرائیل میں سے نہیں


میں نہیں جانتا کہ آپ کبھی ایسی صورتِ حال سے گزرے ہیں یا نہیں، جب انسان اپنی جان کو خطرے میں محسوس کرتاہے۔ دو سال پہلے کی بات ہے، میں اسلام آباد ائیر پورٹ سے نکل رہا تھا۔ اچانک رینجرز کا ایک اہلکار بھاگتا ہوا آیا۔ چیخ کر اس نے گیٹ پر تعینات جوانوں کو پوزیشن سنبھالنے کا حکم دیا۔ پلک جھپکنے میں رکاوٹیں آگے بڑھا دی گئیں۔ گیٹ بند کر دیا گیا۔ رینجرز اور دوسرے سکیورٹی اہلکار اپنی بندوقیں اٹھائیں ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ کوئی حملہ ہو چکا ہے۔ شاید کوئی مشکوک شخص پکڑا گیا ہے یا پھر ائیر پورٹ کی حدود میں کوئی اور خطرناک سرگرمی دیکھنے میں آئی ہے۔

جائے فرار کوئی نہیں تھی۔ گیٹ کے بالکل قریب میں گاڑی میں بیٹھا تھا۔ مجھ سے پیچھے دو گاڑیاں اور تھیں۔ میں نے خطرہ محسوس کیا۔ شاید ابھی فائرنگ شروع ہو۔ ہو سکتاہے کہ فائرنگ کے تبادلے میں، میں مارا جاؤں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ اس وقت میرے احساسات کیا تھے۔ پہلے میں کبھی موت سے نہ ڈراتھا لیکن اس وقت جب میں نے اسے اپنے روبرو دیکھا تو مجھے خوف آنے لگا۔ میں ابھی زندگی میں بہت کچھ کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ میں نے خدا سے درخواست کی کہ مجھے زندگی دے۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔ زندگی میں پہلی بار معلوم ہوا کہ جب انسان موت کو دیکھتا ہے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے۔ ابھی تک فائرنگ کا کوئی تبادلہ نہیں ہوا تھا۔ نہ ہی کوئی دہشت گرد نظر آیا تھا لیکن سب کے رونگٹے کھڑے تھے۔

دس منٹ کشیدگی کی فضا برقرار رہی۔ مسلح اہلکار بھاگتے دوڑتے رہے۔ پھر رفتہ رفتہ تناؤ کم ہونے لگا۔ رینجرز نے اپنی بندوقیں کندھے پر لٹکانا شروع کر دیں۔ آخر ایک اہلکار نے آ کر گیٹ کھول دیا۔ زندگی میں پہلی بار محسوس ہوا کہ موت کے منہ میں جانا کس حد تک خوفناک ہو سکتاہے۔ وہ لوگ جو بلند وبالا پہاڑوں اوربرف زاروں میں دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیتے ہیں۔ جن پر دستی بم پھینکے جاتے ہیں۔ جن کے چھ ہزار جوان اور افسر شہید ہو چکے۔ جن کے دو، دو تین تین سال کے بچّے ساری زندگی اپنے باپ کی شکل دیکھنے کو ترستے رہیں گے۔ وہ لوگ کس مٹی کے بنے ہیں؟ آپ میجر اسحٰق کو دیکھیں، جنرل ثناء اللہ نیازی یا پھر ایک عام حوالدار، نائیک اور سپاہی کو۔ ابھی تک ایسا واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ پاک فوج کے ہمارے سپاہی اور افسر مورچہ چھو ڑکر بھاگ کھڑے ہوئے ہوں۔ دنیا میں ایسے واقعات عام ہیں۔ افغانستان میں یہ شرح سب سے بلند ہے۔ سپاہی اور افسر اپنے اسلحے سمیت جا کر طالبان کے سامنے سربسجود ہو جاتے ہیں۔ اپنی زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے۔ زیادہ دباؤ کی شکار فوجوں میں خودکشیاں عام ہیں۔

شہید ہونے والے ہمارے افسر اور جوان یہ سب تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔ اپنی بیٹیوں اور اپنے بیٹوں کو خدا کے سپرد کر کے وطن پہ اپنی جان نچھار کرتے رہے۔ سوات، جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پچیس تیس ہزار خارجی انہوں نے قتل کر ڈالے۔ سکیورٹی فورسز کے شہیدوں کی تعداد چھ ہزار تک جا پہنچی۔ یہ سب اس کے علاوہ تھا کہ بھارت نے مشرقی سرحد پر کبھی ایک لمحہ بھی سکون کا آنے نہیں دیا۔ پاکستان کے اندر سے کلبھوشن یادیو گرفتار ہوا۔ این ڈی ایس کی تحویل سے لطیف اللہ محسود برآمد ہوا۔ باغی بلوچ سردار زادے اوّل افغانستان اور پھر برطانیہ جا کر محفوظ پنا ہ گاہوں میں بیٹھے رہے۔ عالمی سازشیں برپا ہوتی رہیں۔ جب پاکستانی قوم روز کے خود کش حملوں سے باہر نکل آئی، جب محسوس ہوا کہ خطرہ ٹل گیا ہے تو ساتھ ہی اس نے شور مچا دیا: فوج ہمارے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ طالبان جب سر عام مردوں اور بچوں کو قتل کر رہے تھے، تب یہ حقوق محفوظ تھے۔ پہلی بار ایسا محسوس ہورہاہے، جیسے ہم بنی اسرائیل کے وارث ہیں۔ جس نے ہمیشہ تکلیف ختم ہونے اور نعمت ارزاں ہونے کے بعد احسان فراموشی کی۔

کیا کچھ نہیں ہوا؟ سید منور حسین نے فوج کے شہیدوں کو مقتول کہا۔ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ جن جہادیوں سے فوج لڑ رہی ہے، انہیں اس نے خود تین عشرے پہلے پیدا کیا تھا۔ میں کہتا ہوں، بالکل ٹھیک۔ یہ پاکستانی فوج ہی تھی، جس نے سویت یونین کو افغانستان پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی۔ اسی نے امریکہ اور عالمی برادری کو باور کرایا تھا کہ افغانستان میں سویت یونین کا ڈنک نکالا جا سکتاہے۔ اس سے پہلے امریکہ اور سویت یونین میں کسی قسم کی دشمنی نہیں تھی۔ نہ ہی اس سے پہلے سویت یونین مختلف ممالک میں فوجی اور سیاسی انقلاب لانے کا مرتکب ہوا تھا۔ نہ ہی پاکستان میں یہ ننھے انقلابی کورس میں گیت گاتے پھر رہے تھے۔ پاکستانی فوج نے ملّا عمر کو اس بات پر راضی کیا کہ نائن الیون کے اسامہ بن لادن کی حفاظت فرماتے رہیں۔ پاکستان نے امریکہ کو قائل کیا کہ نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کر دے۔

کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج نے جان بوجھ کر ہمیشہ بھارت سے کشیدگی برقرا ر رکھی تا کہ 8ارب ڈالر کے اپنے وسیع و عریض دفاعی بجٹ کو برقرار رکھا جائے۔ بھارتی فوج کو ہر سال 50ارب ڈالردیے جاتے ہیں، یہ ایک الگ بات ہے۔

کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ فوج نے آدھا عرصہ ملک پہ حکمرانی کی۔ وہی تمام خرابیوں کی ذمہ دار ہے۔ اگر آپ مشرف کے آٹھ سالوں کا جمہوریت کے ہیوی ویٹ چیمپین نواز شریف دور سے موازنہ کریں تو آپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ مشرف دور میں اقتصادی ترقی کی شرح آٹھ فیصد تک گئی۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد گری تو گر کر بھی پانچ فیصد سے اوپر رہی۔ نواز شریف دور میں اپنی تمام تر ڈینگوں کے باوجود یہ چھ فیصد کو نہیں چھو سکی۔ مشرف دور میں ملک پر قرضوں کا حجم چھ ہزار ارب روپے تک محدود تھا۔ زرداری عہد میں یہ 14ہزار ارب روپے تک جا پہنچا اور شریف دور میں یہ 20ہزار ارب روپے سے زائد ہو چکا۔ آپ ایوب خان کا موازنہ کسی سیاسی حکمران سے کر لیں۔ ضیا ء الحق کا کرلیں ؛حالانکہ جرنیل معیشت نہیں پڑھتے۔

بدقسمت پاکستانی فوج کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے بھارت سے دشمنی مول نہیں لی۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان پر فوجی دباؤ برقرار رکھا، کشمیر پہ قبضہ کیا، جو جنگوں کی وجہ بنا۔ افغانستان میں سویت یونین اور امریکہ کی جنگوں نے پاکستان کو شدید ترین مصائب سے دوچار رکھا۔ سوات، وزیرستان، فاٹا اور بلوچستان میں اس نے دہشت گردوں کو قتل کیا۔ افغانستان، لیبیا اور شام میں، جہاں کہیں فوجی جوان اور افسروں نے بزدلی دکھائی، آبادیوں کی آبادیاں قتل کر دی گئیں۔ شام اور عراق کے بازاروں میں شریف بیبیوں کو منڈی لگا کر بیچا گیا۔ آج اگر ہم اس قابل ہیں کہ اپنے بچوں کو سکول بھیج سکتے اور ٹہلتے ہوئے اپنی دفاتر کو جا سکتے ہیں تو یہ فوج کے مرہونِ منت ہے۔

میں یہ کہتا ہوں اور ڈنکے کی چو ٹ پر کہتا ہوں کہ میں پاک فوج کا احسان مند ہوں۔ آپ اس پر بنی اسرائیلی جوش و جذبے سے تبرہ فرماتے رہیں۔ کم از کم میں بنی اسرائیل میں سے نہیں۔
بشکریہ روزنامہ دنیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).