چین امریکہ سے تجارتی جنگ سے گریزاں


باؤ فورم کا 17 واں اجلاس چین کے صوبے ہینن میں ہوا۔ اس تنظیم میں ممالک کے ساتھ ساتھ بڑے مالیاتی ادارے بھی شامل ہیں۔ بلکہ اس کو ورلڈ اکنامک فورم کے مقابلے میں ایشیاء کا جواب یا ایشیاء کا ڈیووس بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ڈرائیونگ نشست چین نے سنبھالی ہوئی ہے جبکہ اس کا خیال 1998؁ء میں اس وقت کے فلپائن کے صدر نے پیش کیا تھا۔ اور 2002؁ء میں اس کا پہلا اجلاس اسی مقام پر منعقد ہوا اور تب سے مستقل اسی مقام پر منعقد ہو رہا ہے۔ جن حالات میں اب ان کا انعقاد ہوا اس وقت دنیا تجسس سے چین اور امریکہ کے مابین تجارتی معاملات پر بڑھتی ہوئی خلیج یا اختلافات کا گہرائی سے مطالعہ کر رہی ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا تا کہ ان ممالک کے اقدامات کے نتائج کی طور پر عالمی معیشت میں جو کوئی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں ان سے نبردآزما ہوا جا سکے۔ کیونکہ اگر امریکہ اور چین میں تجارتی نوعیت کے اختلافات بڑھتے چلے گئے تو اس کے عالمی معیشت اور سیاست پر کسی وقت بھی نہایت ناخوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ان حالات میں چین کے صدر شی جن پنگ کی تقریر کو نہایت اہمیت حاصل تھی کیونکہ اس تقریر میں ان کی جانب سے اپنے آئندہ پانچ سال کے تجارتی اہداف کا بیان یا ٹریڈ پالیسی کو بیان کرنا تھا کہ آیا وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ مزید کسی محاذ آرائی میں جانا چاہتے ہیں یا امریکی قیادت کو یہ موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کر سکے۔ چین کے صدر کی تقریر کے بعد اس کو عالمی مالیاتی کھلاڑیوں نے ایک مثبت تقریر کے طور پر لیا جس کے بعد سٹاک مارکیٹوں کے اشاریوں میں مثبت فرق پڑنا شروع ہو گیا۔ کیونکہ ان کی تقریر اور اس میں پیش کردہ تجارتی پالیسی سے یہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ وہ کسی نوعیت کی تجارتی جنگ میں چین کو الجھانا نہیں چاہتے اور صدر ٹرمپ کو ان کی جانب سے کم از کم اس وقت جوابی حملہ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔

صدر شی جنگ پنگ بہت معاملہ فہم اور دور اندیش شخصیت ہیں انہوں نے چین کو اس لڑائی سے محفوظ رکھنے کا بالکل درست فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ چین کے اندر سے سخت جواب کے حق میں بھی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ مگر انہوں نے ان کی پرواہ نہیں کی۔ بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے باؤ فورم 2013؁ء میں اپنے معاشی ایجنڈے کا ذکر کیا تو چین میں بھی مخالفت میں آوازیں بلند ہوئیں۔ کہ انفراسٹرکچر پر اتنی بھاری سرمایہ کاری مناسب نہیں۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ صدر شی جنگ پنگ کی حکمت عملی کارگر رہی۔ انہوں نے گذشتہ پانچ برسوں میں چین میں 25000 کلو میٹر پر مشتمل اعلیٰ ترین ریلوے کا نظام قائم کیا جس کی بدولت اب تمام چین ریل نیٹ ورک کے ذریعے جڑ چکا ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر نیشنل ہائی ویز کا جال بچھایا جبکہ درجنوں میٹرو لائنیں تعمیر کیں۔ جن کا ثمر آج چین پا رہا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جنہوں نے پاکستان میں موٹر ویز، میٹرو لائنیں تعمیر کیں اور ریلوے کے نظام کو درست کیا وہ پیشیوں پر پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ ہر ملک کی اپنی اپنی قسمت۔

بہرحال چین کے صدر نے باؤ فورم 2018؁ء میں دنیا کو یہ واضح پیغام دیا کہ چین بین الاقوامی سرمایہ کاری کو گلے لگانے کے لئے تیار اور ان کے راستے کی تمام رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے بیقرار ہے۔ چینی صدر نے اپنی تقریر میں تجارت میں رکاوٹیں ہٹانے کا اعلان کیا اور کم سے کم ٹیرف کی طرف جانے کا مژدہ سنایا انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ کارسازی کی صنعت اور اس صنعت سے وابستہ غیر چینی مالکان کی ملکیت کا مکمل تحفظ کریں گے۔ جبکہ اسی نوعیت کی حکمت عملی انہوں نے بنکوں، انشورنس کمپنیوں اور بروکریج سے وابستہ اداروں کے لئے بھی بیان کی۔

چین میں غیر ملکیوں کو ایک بہت بڑا مسئلہ ”دانش کی ملکیت“ Intellectual Property Rights کا در پیش ہے۔ انہوں نے ان کی بھی مکمل حفاظت کے لئے پالیسی کا اعلان کیا۔ ان کے ان اقدامات کو اس حوالے سے بھی دیکھا جا رہا ہے کہ وہ دنیا کے سامنے فری ٹریڈ آزاد تجارت کے ایک چیمپئن کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں تا کہ بین الاقوامی سرمایہ کاری بڑھے۔ اگر وہ اس میں کامیاب رہے تو ایسی صورت میں یوآن چینی کرنسی کی قدر میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ جو ایک برتری کی جانب قدم ہو گا۔ انہوں نے ون روڈ ون بیلٹ کا بھی تذکرہ کیا کہ ایک دوسرے سے منسلک ہو کر دنیا بہتر ترقی کر سکتی ہے۔ کیونکہ اب امن سے خوشحالی کا راستہ تلاش کرنے کا دور آ چکا ہے۔

اسی دوران انہوں نے دنیا کے اور عالمی برادری کے لئے اپنا نظریہ World of Share Benefits کا نظریہ بھی دوہرایا جو دنیا میں مربوط رابطوں سے ممکن ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے باؤ فورم میں پاکستان کی نمائندگی کی اور پاکستان کو سی پیک اور Connectivity کے نظریے سے ملنے والے فوائد کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سی پیک کی بدولت پاکستان میں ہزاروں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ جبکہ 10000 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوئی ہے۔ انہوں نے چین کے صدر سے علیحدہ بھی ملاقات کی جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے بھی ملے اور کشمیر میں جاری بھارتی بربریت پر اقوام متحدہ کے کردار ادا کرنے کا دیرینہ پاکستانی مطالبہ دہرایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).