’سفارتکار کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کا فیصلہ کریں‘: اسلام آباد ہائی کورٹ


اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کو حکم دیا ہے کہ وہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر کے دو موٹر سائیکل سواروں ک کچلنے کے واقعے میں ملوث امریکی سفارت کار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کے بارے میں ایک ہفتے میں فیصلہ کرے۔

یہ واقعہ سات اپریل کو پیش آیا تھا جب دارالحکومت میں دامنِ کوہ چوک پر امریکی سفارت خانے کے فوجی اتاشی کرنل جوزف نے اشارہ توڑ کر ایک پاکستانی طالب علم کی موٹرسائیکل کو ٹکر ماری تھی جس کے نتیجے میں وہ طالب علم ہلاک اور اس کا ساتھی شدید زخمی ہو گیا تھا۔

جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے منگل کو اسلام آباد پولیس اور حادثے میں ہلاک ہونے والے نوجوان عتیق بیگ کے والد کی جانب سے کرنل جوزف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی سماعت کی۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سماعت کے دوران وزارت داخلہ کی طرف سے کوئی بھی نمائندہ عدالت میں پیش نہیں ہوا جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک پاکستانی ہلاک ہوا ہے لیکن متعلقہ حکام قانون کے مطابق بھی کارروائی نہیں کر رہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایگزیکٹیو کا کام بھی اب عدلیہ کو ہی کرنا پڑے گا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کسی بھی شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے بارے میں ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ‘کمیٹی کمیٹی نہ کھیلیں اس طرح تو معاملہ کبھی بھی حل نہیں ہو گا۔’

اُنھوں نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ یہ معاملہ ترجیحی بنیادوں پر کمیٹی کو بھجوائیں اور وزارت داخلہ ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں فیصلہ کرے۔

سماعت کے دوران اس واقعے سے متعلق پولیس رپورٹ عدالت میں پیش کی، جس میں کہا گیا تھا کہ ملزم کو شامل تفتیش کرنا تصور کیا جائے جس پر جسٹس عامر فاروق نے تھانہ کوہسار کے سربراہ خالد اعوان سے استفسار کیا کہ شامل تفتیش تصور کرنے کا کیا مطلب ہے؟ جس کا پولیس افسر کوئی جواب نہ دے سکے۔

بینچ کے سربراہ نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اُنھوں نے امریکی سفارت کار ملزم جوزف کا بیان اردو میں کیوں لکھا؟ جس پر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ملزم انگریزی میں بات کرر ہا تھا تاہم اُنھوں نے اسے اردو میں تحریر کیا۔

جسٹس عامر فاروق نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اگر کل ملزم اس بیان سے مکر جائے کہ اسے تو اردو نہیں آتی تو پھر اس مقدمے کا کیا بنے گا؟
بینچ کے سربراہ نے تفتیشی افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ملزم ایک تو گورا اور اس کے اوپر وہ امریکی، اس پر تو پولیس اہلکاروں کے ہاتھ پاوں پھول گئے ہوں گے!‘
عدالت نے وقوعہ کے روز ملزم کا میڈیکل چیک اپ نہ کروانے اور قانونی کارروائی مکمل کرنے سے پہلے ہی امریکی سفارت کار کو جانے کی اجازت دینے پر بھی پولیس افسر کی سرزنش کی۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ‘امریکی ہو گا تو اپنے ملک میں اور سفارت کار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے بندے مارتا پھرے۔’
عدالت نے پولیس افسر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’تھوڑی دیر کے لیے پاکستانی بن کے سوچیں، ہر کیس کو ادھر ادھر نہ کیا کریں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ قانون اگر سفارت کار کو تحفظ فراہم کرتا ہے تو دوسرے شہریوں کو بھی تحفظ حاصل ہے۔
ان درخواستوں کی سماعت 24 اپریل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32603 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp