سچ کا المیہ


انسان کو اگر خدا پیٹ کے دھندوں میں الجھنے نہ دیتا اور مخلوق کے لئے اوراس کے اہل وعیال کے پیٹ بھڑنے کے لئے من و سلوی بہم پہنچا تا تو انسانیت کی ایک بالکل نئی تصور عیاں ہونی تھی، ایک نیا جہاں آباد ہونا تھا جہاں علم صرف داخلی ذات کی بازیابی اور خارجی کائنات کے اسرار جاننے کا نام ہوتا اور پیشے۔ پیشے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، بھلا ایک انسان دوسرے انسان کے کام آجائے تو یہ باہمی بقا کی ضمانت ہے، لیکن اسی کام آنے کا معاوضہ طے ہو جائے تو پھر خلوص، ایثار اور دیگر اخلاقی قدریں جھوٹ اور فضول باتوں کا پلندہ بن کررہ جاتی ہیں۔

ہمارے ہاں مغالطے پسندکیے جاتے ہیں اور مغالطوں پہ ہی تحقیق ہوجاتی ہے، جب قضیے یا دلائل درست نہیں ہیں تو ان سے اخذ کردہ نتیجہ کیوں کر درست ہوگا؟ سچی بات ہمیشہ اس وقت انساں پہ عیاں ہوتی ہے جب جھوٹ کی بنیاد پہ کھڑی عمارت انسان کو سایہ دینے کی بجائے اسی کے لیے درد سر بن جائے، وگرنہ دوسری حالت میں کبھی انسان اپنی مرضی سے سچ کا انتخاب نہ کرے۔ آج کے انسان کا پاوں بھی ایسے کتنے جھوٹ کے بھنوروں میں پھنسا ہوا ہے مگر انسان صرف اسے جھوٹ کہے گا جو ہوا کے تیز جھکڑ میں انسان کو جھلا کر رکھ دیں۔
پہلے پہل تعلیم جنگی مشق میں حصہ لینا اور اس نوعیت کے ہنر سیکھ لینا شمار ہوتا تھا۔
انسانیت نے فیصلہ کیا یہ تعلیم بنیادی حق ہے انسان کا، پھر سوچا انسان صرف مرد ہے یا عورت بھی؟

زیادہ تعداد مرد کی تھی تو مزید سوچے بغیر اس جھوٹ کو بھی گلے لگا لیا کہ مردہی تعلیم سیکھے گا اور مرد جنگی ہنر سیکھ کر جنگوں میں جانے لگا، ظاہر ہے عورت کو گھر چھوڑ دیا اور مرد جب واپس لوٹتا تو گھر میں موجود عورت اسے پانی پلاتی، کھانا پیش کرتی اور تھکاوٹ دور کرتی، مرد کو لگا یہی ہمارا بنایا ہوا نظام ہی اصل کائنات کا نظام ہے کہ عورت ہمیشہ گھر رہے گی اور ہمیں گھر لوٹنے پہ کھاناکھلائے گی اور تواضع کرے گی، ا س کا یہی کام ہے اور ہم مرد باہر جنگ لڑیں اور مال اسباب گھر لے آئیں۔ اگر عورت کو بھی ان جنگی فنون کا علم دیا جاتا اور اپنے ہی اصول یعنی ” تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے ‘‘ پہ عمل کرتے ہوئے اور عورت کو انسان سمجھتے ہوئے تعلیم دی جاتی تو آج منظر کچھ اور ہوتا۔ لیکن انسان کو سچ ماننے کی عادت نہیں ہے۔ !

اگر کسی کا مرد ان جنگی فنون میں ماہر نہ بن پاتایا اپنی کاہلی وسستی کی وجہ سے گھر کا معاشی پہیہ نہ چلا پاتا تو عورت کو کمر باندھنا پڑتی۔ اب عورت کو وہ علوم تو سکھائے نہیں گئے تھے جو رائج فی الوقت تھے اور ان علوم کے بغیر روزی کا حصول ناممکن تھا۔ اب عورت اس گوں نا گوں حالت میں پھنس گئی۔ جب کچھ نہ بن پڑی تو اپنا جسم تو تھا ہی اور خریدار بھی۔ لہذاطے ہوا کہ” گناہ بھی انسان کی مجبوری ہے، تقاضائے بشریت ہے، اور بوقت ضرورت مجبوری ہے نیکی بھی۔ ‘‘

عورت نے اپناجسم ذریعہ معاش بنا لیا اور باہر سے طوائف گالیاں کھاتی اور مال اکٹھا کرکے گھر آتی تو مرد اور بچوں کی نظر میں ایک مسیحا کہلاتی۔ یہ بات سمجھنا بالکل دشوار نہیں لیکن چونکہ انسان سچ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے اور جھوٹ کو ایک ہی گھونٹ میں پی جاتا ہے، اس لیے یہ بات مشکل سے سمجھے گا کہ کوئی انسان بھی اپنی مرضی سے اور اپنی خوشی سے گناہ یا جرم کبھی نہیں کرتا، بہت سے حالات و واقعات ایک سانحے کی پرورش کرتے ہیں، ایک انکار کروانے کے لیے ابلیس سے کتنی ریاضت اور سجدے کروائے گئے، الغرض آدمیت ایک انکار کے نتیجے میں بننے والی پراڈکٹ ہے!

انسان ایک دوسرے پر منحصر ہیں، انسان قبائل میں بھی اس لیے منقسم ہوا تاکہ مشترکہ وصف کی بناء پہ ایک دوسرے کے کام آیا جائے جو کہ انسانی بقاء کے لیے ضروری ہے، میں قطعایہ نہیں سمجھتا کائنات کے پہلے انسان نے جب دوسرے انسان کی مدد یا بھلائی کی ہوگی تو پہلے انسان کا مطمح نظر نیکی یا ثواب ہوگا بلکہ پہلے انسان کو یہ خوف لاحق ہوگا کہ اتنی وسیع کائنات میں میں اکیلا کیا کروں گا؟ اورآج بھلائی کروں گا تو کل میرا بھی اس کائنات میں کوئی سہارا موجود ہوگا۔ اسی طرز فکر نے انسان کی زندگی میں رشتوں کو جواز فراہم کیا جو بعد میں مختلف شکلیں اختیار کرگیا۔ شادی، نکاح یا عقد اسی سلسے کی ایک کڑی دکھائی دیتا ہے۔

سچ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ لگی لپٹی اور مصلحت کی جھنجٹ سے مستثنی ہوتا ہے اور جھوٹ خوب بناؤ سنگھار اور سر پہ تاج لئے دنیا میں داخل ہوا کیونکہ جھوٹ جانتا تھا کہ مجھ پہ کان دھرنے والا انسان ظاہر پرست اوصاف کا مالک ہے، اس انسان کا دیدہ دل وا نہیں ہوا ہے، لہذا مجھے قبول کر لے گا۔ ۔ اور حضرت انسان نے جھوٹ میاں کو بالکل مایوس نہیں کیا اور مسکین سچ تاریک راہوں میں دیار غیر میں اجنبی کی مانند پھرتا رہا۔ مگر بعد از موت بھی سچ مرتا نہیں بلکہ دریاء میں اتر جاتا ہے کیونکہ،
” سچ نے ‘‘مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور۔

لیکن انسان نے جھوٹ کو ہمیشہ آدھا منہ سے نکلتے ہی مان لیا اور سچ کا اعتراف ہمیشہ دیرسے کیا، کبھی پہاڑوں سے پتھروں کے گرنے کا انتظار کیا، کبھی آندھی اور طوفان کے آنے کا، کبھی جنازوں کے اٹھنے کا انتظار کیا اور کبھی سچ کو مانے بغیر ہی زندگی گزار دی۔

اور سچ سے بھی توگلہ واجب ہے کہ یہ بھی تو مستقل مزاج نہیں ہے نا، کچھ یونیورسل ٹروتھ نہیں ہے صاحبوں۔ ! یہ بھی ایک سچ ہے کہ سچ بذات خود حالات کے تقاضے دیکھ کر حکمت کی لاٹھی کا سہارا لے کر اپنا چہرہ نظریات کے امرت دھارے سے دھوتا رہتا ہے اوراپنی پہچان بدل لیتا ہے، اس حالت میں کیسے کوئی سچ کو پائے؟ کیسے کوئی حقیقت کا ادراک کر نے کے بعد اپنے خول سے باہر نکل کر یہ منادی کرے کہ،
” اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے ‘‘
اور سچ کی شفافیت مثل آئینہ کہ،
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).