جاگ بنگالی جاگ


وجاہت مسعود کے کالم جاگ پنجابی جاگ کا عنوان ہی ایسا تھا کہ جو مجھے پل جھپکتے میں اُس دیس لے گیا جو کبھی میرا تھا۔ ہم سب پاکستانیوں کا تھا۔ ہمارا پوربو پاکستان تھا۔ جہاں ناریل، تاڑ، سپاری اور کیلوں کے درختوں کے جھنڈوں تلے بانس کی جھونپڑیاں اور اُن پر لہراتی بل کھاتی مختلف رنگوں کی بیلیں گھروں کو آرٹسٹک اور مکینوں کو آرٹ لورر بتاتی تھیں۔ جس کے پوکھروں میں کھلنے والے کنول اپنی خوبصورتی اور سرخی میں گلابوں کو مات کرتے تھے۔ جس کے بیکراں بہتے پانیوں پر مانجھیوں کے نغمے تیرتے اور بانسری کی مدھرتانیں کانوں میں رس گھولتی تھیں۔

ہاں ہاں میں 1969اور70 میں اُسی اپنی سرزمین پر ڈھاکہ یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ اُن دنوں گنگھورگھٹاؤں والی وہ دھرتی کس قدر مضطرب تھی، کتنی بے چین تھی۔ ایک آگ تھی جو ان کے دلوں میں بھڑک رہی تھی ویسٹ پاکستان سے رہائی کے لئے۔ ایک نیا دیس بنانے کے لئے۔ تو میں ایک عام سی پاکستانی جذباتی لڑکی اُن کے اس اضطراب کو جاننے کے لئے اور انہیں یہ بتانے کے لئے کہ تمہاری پٹ سن اور چینگڑی ماچھ نے پچھمی پاکستان کے کچھ ہی خاندانوں کو توشاید نوازا ہو پرعام آدمی تو بس تمہارے جیسا ہی ہے۔ بیچارہ تعلیم سے بے بہرہ، علاج معالجے اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے محروم۔ تو بس ڈھاکہ یونیورسٹی پڑھنے چلی آئی۔ تو یہ نعرے جاگ بنگالی جاگ میں نے کب کب سُنے؟

یہ جنرل یحیٰی خان کے مارشل لا کا زمانہ تھا۔ ایسٹ پاکستان کو مارشل لا ایسٹ زون کا نام دیا گیا تھا۔ یہ آواخر اکتوبر کی خوشگوار سی رات تھی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے سب سے بڑے ہوسٹل رقیہ ہال کے آڈیٹوریم میں چھاترولیگ(عوامی لیگ) طالب علم لڑکیوں کے جتھے بڑی پراسرار سی سرگرمیوں میں مصروف نظرآئے تھے۔ ٹوہ لینے پر پتہ چلاتھا کہ چنبیلی ہال کے بیرونی لان کے عقبی دروازے سے حسینہ واجد آنے والی ہے۔ ”جاگ بنگالی جاگ‘‘کے نعرے کہیں مدھم اور کہیں قدرے جوشیلی آواز میں لگتے تھے۔ آڈیٹوریم کے فرش پر بیٹھی میں یہ سب دیکھتے اور سُنتے ہوئے خود سے کہتی تھی۔

کاش میں گلا پھاڑ کر کہہ سکتی۔ نہیں بھئی تم لوگ کب سورہے ہو؟ تمہارا تو بچہ بچہ بیدار ہے۔ باشعور ہے۔ وہ چھ نکات پر لمبی چوڑی بحث کرتا ہے۔ تمہارے ہاں احتجاج ہے۔ تمہارے لیڈر سٹرائیک کال کرتے ہیں تو تمہارے بازار اور سڑکیں قبرستانوں جیسا روپ دھار لیتے ہیں۔ تمہاری یونیورسٹی کی لڑکیاں سر میں ناریل کا تیل چپڑے ململ کی کلف لگی ساڑھی اور میک اپ سے بے نیاز چہروں کے ساتھ کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا عَلم اٹھائے مارچ پاسٹ کرتی اور دھواں دھار تقریریں کرتی نظر آتی ہیں۔ مگر تمہارے اُس غاصب کے ہاں تو شعور کی بہت کمی ہے۔ ( اُس زمانے میں مغربی پاکستان میں عام ہڑتال یا دھرنوں کا کہیں کوئی تصور تک نہ تھا۔ )

کاش میں یہ سب کہہ سکوں مگر نہیں تم لوگوں کے تعصب نے مجھے ڈھاکہ آنے کے ساتھ ہی دو چیزوں میں چالو کردیا ہے۔ تین ماہ میں بنگالی بولنے اور ساڑھی پہننے پر کہ تمہاری نفرت بھری نگاہوں کا سامنا کرنے کی تاب نہیں تھی مجھ میں۔ ہاں البتہ یہ میری خوش قسمتی کہ رنگت میری سانولی۔ ہجوم میں بیٹھ جاتی ہوں تو کوئی جان ہی نہ پاتا کہ تم لوگوں میں سے نہیں ہوں۔ چلو میں بھی خاموشی سے وہاں بیٹھ کر حسینہ واجد کو سُنوں گی۔

تقریر تو مجھے کیا سمجھ آنی تھی مگر جاگ بنگالی جاگ کا نعرہ اور نعرہ لگانے والیوں کے انداز بہت کچھ بتاتے تھے۔ پاگل جذباتی لڑکی کا دل ڈوبتا تھا۔ چھاپہ پڑوا دوں۔ اندر بولا تھا۔ اندر کی ایسی ہلّا شیری کی بھی وجہ تھی۔

کوئی بیس دن پہلے شام کے جھٹ پٹے میں دربان نے میرے کمرے کے باہر آکر صدا لگائی تھی۔ آپا آپ کا وزیٹر۔ میں نے قدرے حیرت اور تعجب سے اُسے دیکھا۔ ہاں ہاں آپ کا۔ گیٹ پر گئی تو میجر منور نظر آئے۔ آرمی انٹیلی جنس کا میجر۔ میرے ماموں کا دوست جس نے کچھ دیر حال احوال کے بعد مجھ سے سیاسی پارٹیوں سے وابستہ لڑکیوں کو خفیہ انداز میں ملانے کی درخواست کی تھی۔ دوسرے ہوسٹل میں بھی کسی قسم کی کوئی سرگرمی یا کوئی غیر معمولی بات نظرآنے پر انہیں مطلع کرنے کی درخواست تھی۔

پتہ نہیں کیوں مجھے یہ وچولنوں والا کام تو قطعی پسند نہ آیا۔ ہاں البتہ اِ س دوسرے کام کی حامی بھرلی اور اب جب چھاپے کے خیال نے سراٹھایا کہ بس آڈیٹوریم کے فون سے صرف ایک کال۔ ان کی ساری بولتی بند ہوجائے گی۔ مگر یہ جذباتی مُوت کی سی جھاگ والی کیفیت تو فوراً ہی دم توڑ گئی تھی۔ نہیں نہیں میرے اندر نے کہاتھا۔ ہم لوگ توپوں اور سنگینوں سے اِن پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا کب تک ممکن ہے؟ اِن آوازوں کا گلا کتنی دیر تک گھونٹا جائے گا۔ ساتھ ہی میرے آنسو نکل پڑے تھے جنہیں صاف کرتے ہوئے میں اٹھی تھی اور جب حسینہ واجد جارہی تھی میں نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور اُسے کہاپامسٹری میرا جنون ہے۔ میں بہت اچھا ہاتھ دیکھتی ہوں۔ آپ کا ہاتھ دیکھنا ہے۔ بہرحال یہ الگ داستان ہے جو پھر کبھی سہی۔

ذرا اور آگے بڑھتی ہوں۔ ان دنوں میں جب ڈھاکہ کی گلیوں بازاروں میں گندوراج کے پھول کھلتے تھے اوربکول کی کلیاں چٹک چٹک کر لوگوں کو محبت و شانتی کا درس دیتی تھی مگر کوئی بھی تو نہیں تھا جو اِن پھولوں سے چھلکتے پیغام کی زبان کو سُنتا اور سمجھتا۔

فضاؤں میں نعرے ہیں اوریہ بیس فروری 1970؁ء کی رات ہے اور وقت پونے بارہ۔ ابھی کچھ ہی دیر بعد اکیس تاریخ کا آغاز ہوجائے گا۔ یہ اکیس فروری پوربو پاکستان کی تاریخ میں بہت اہم ہے۔ بنگالی کو قومی زبان بنانے کی جدوجہد اور اس تحریک میں شہید ہونے والوں کی یاد منانے کا دن۔

رقیہ ہال گونج رہا ہے۔ طلبہ کی روس نواز اور چین نواز پارٹیوں کی لڑکیوں کے نعرے گونجتے تھے۔ مارکسزم، لینن ازم، ماؤازم زند ہ باد، مفاد پرست مردہ باد۔ عوامی لیگی گروپ چیختا تھا۔ جے بنگلہ، پوربو بنگلہ۔

ایک مشترکہ آواز بھی وقفے سے گونجتی تھی۔ جاگ بنگالی جاگ۔ آڈیٹوریم کے فرش پر بیٹھی لاہور کے بھاٹی گیٹ کی سلیقہ جو اردو ادب کے مشہور دانش ور، تنقید نگار ڈاکٹر محمد حنیف فوق کی زیرنگرانی بنگال میں اردو پر پی ایچ ڈی کررہی تھی نے دھیرے سے کہا تھا۔ اتنا بھی نہ جاگنا کہ پنجابی جاگ جائے۔

سلیقہ ایسا مت کہو۔ پنجابی بہت جذباتی ہے۔ لمبی سوچ کا حامل نہیں۔ دیکھو میں پوربو پاکستان کے بہت سے شہروں میں گھوم پھر چکی ہوں۔ لوگوں سے مل چکی ہوں۔ اُن کی باتیں سُنی ہیں جو کہتے ہیں بنگال ہماری آرزوں اور امنگوں کا مدفن بن چکا ہے۔ جیون کے لیے بھات، پانی اور ہوا کی ضرورت نہیں۔ انسان کچھ اور بھی چاہتا ہے حب الوطنی کبھی خلاؤں میں بھی پروان چڑھی ہے۔

1962 کا آئین تو ذرا دیکھو ساڑھے سات کروڑ کی بنگالی قوم کو یکسرنظرانداز کردیا گیا ہے۔ بیوروکریسی اور فوجی ٹولوں نے پیس کررکھ دیا ہے ہمیں۔ شاید یہ آگ اس شدت سے نہ بھڑکتی اگر کہیں جنرل اعظم خان جیسے لوگ انہیں ملتے رہتے۔ کون تھا جس نے ان کا نام نہ لیا۔ جس نے یہ نہ کہا کہ وہ تو ہمارا تھا۔ ہمارے دکھ درد کا ساتھی، ہمارے ساتھ دلدلوں اور کیچڑوں میں اُترنے والا۔ ہمیں سُننے والا اور ہمارے دکھوں کا مداوا کرنے والا۔ اُسے واپس کیوں بلا یا گیا تھا۔

سلیقہ میں نے تو اِس ایسٹ ونگ کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر گورنر احسن کی بیوی سے بھی کہا تھا۔ اپنے شوہر سے کہو وہ جنرل اعظم کی طرح کام کرے۔ شاید ہم علیحدگی، کرب اور ذلّت کے اُس پاتال میں گرنے سے بچ جائیں جو ہمارا مقدّر کیا جاچکا ہے۔
سال ہا سال گزر جانے پر یہ سوال آج بھی سامنے ہے کیا ہم نے تاریخ سے کچھ سیکھا ہے۔ پر المیہ یہی ہے کہ تاریخ سے کبھی کوئی نہیں سیکھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).