فیمن ازم کی بحث کا پینڈورا باکس


تھیٹر کے ڈرامے میں اداکاری کا میرا پہلا موقع تھا۔ (اب تک کا آخر بھی) میں آپ کو بتاوں‌ تھیٹر ہی اداکار کا میڈیم ہے۔ یہاں ہم فنون لطیفہ کی تکنیکی بحث میں نہیں پڑتے، اور مطلب کی بات کی طرف آتے ہیں۔ پندرہ بیس روز یا اس سے کچھ زیادہ، ہم ڈرامے کی ریہرسل کرتے رہے۔ دراصل یہ ایک این جی او کا اسپانسرڈ ’کھیل‘ تھا۔ تھیٹر گروپ کون سا تھا، این جی او کون سی، اس کا ذکر ضروری نہیں؛ یوں‌ سمجھیے مجھے نام بھول گے ہیں۔

کہانی کچھ یوں تھی کہ ایک (ان پڑھ) غریب بیمار پڑ جاتا ہے، ڈاکٹر تشخیص کرتے بتاتے ہیں کہ یہ جنسی بیماری تمھیں اپنی بیوی سے لگی ہے۔ وہ روتا دھوتا ہے، پہلے تو بیوی کو جرم وار سمجھتا ہے، پھر یہ ادراک ہوتا ہے، کہ بیوی حیض کے دوران جو ’ٹاکی‘ استعمال کرتی تھی، وہ کئی بار کی استعمال کی گئی ہوتی، اس سے پہلے وہ بیمار پڑی، پھر شوہر بیمار ہوا۔ ’کھیل‘ میں یہ ’پیغام‘ تھا، کہ ہمارے معاشرے میں حیض کا ذکر کھلے بندھوں نہیں ہوتا، بالغ بچیاں مخصوص ایام میں جو ’ٹاکی‘ استعمال کرتی ہیں، اسے گھر کے مردوں سے چھپا کے رکھتی ہیں، کہیں درزوں میں، کہیں کونوں کھدروں میں، تو اس ’ٹاکی‘ میں جراثیم پھلتے پھولتے ہیں، دوبارہ اس ’ٹاکی‘ کو استعمال کرنے سے مختلف اقسام کی بیماریوں کا اندیشہ ہوتا ہے۔ (لہاذا مستند کمپنی کے تیار کردہ جراثیم سے پاک سینٹری نیپکن استعمال کیجیے)

ہم نوجوان تھے، شادی ہوئی نہیں تھی؛ ہمیں ان مسئلے مسائل کا خود ادراک نہیں تھا، لیکن سمجھنے میں بہت اچھا لگا، کہ تھیٹر کے ذریعے تعلیم دی جارہی ہے، جو کہ اچھی بات ہے۔ الغرض! اسی جنون کے عالم میں گلے پھاڑ پھاڑ کے ریہرسل کی، جو کسی نوآموز کا وتیرہ ہوتا ہے۔ دو تین ہفتوں کے بعد، ہمارا تھیٹر گروپ اسلام آباد سے لاہور آیا، جہاں پرفارمینس تھی۔ اس وقت تک ذہن میں صرف ایک ہی بات تھی؛ وہ یہ کہ ہم تھیٹر کے طالب علم ہیں، اور بس اسی مقصد کو لے کر کے آئے ہیں۔

پرفارمینس پرل کانٹینینٹل ہوٹل لاہور میں تھی؛ لشتم پشتم پرفارمینس دیتے تماشائیوں پر نگاہ پڑی، تو دیکھا ٹائی کوٹ پہنے مرد، سجی سنوری خواتین بیٹھی ہیں (زیادہ تر ملٹے نیشنل کمپنی کے اعلا عہدے دار)۔ میرے ذہن میں اسی وقت خیال آیا، کہ ہم نے پندرہ بیس روز جو محنت کی ہے، وہ ”تھیٹر کے ذریع تعلیم“ کے فلسفے کو ذہن میں رکھتے بے اثر ہوئی ہے۔ ’پیغام‘ جس ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ طبقے کے لیے تھا، اس طبقے کا فرد یہاں نہیں تھا، اشرافیہ کے اس ہوٹل تک اس کی پہنچ ہی نہیں تھی۔

اس ’کھیل‘ کو پس ماندہ بستیوں میں کھیلا جانا چاہیے تھا۔ وہاں موجود تماشائیوں کے لیے اس تماشے کی مثال ایسی ہے، جیسے نیشنل جیو گرافک چینل پر ایسا پروگرام دکھایا جائے، جس میں بتایا جا رہا ہو، کہ دُنیا میں ایک ایسا مقام بھی ہے، جہاں آج بھی (جاہل) لوگ برہنہ پھرتے ہیں، اور انھیں احساس ہی نہیں کہ یہ بھی کوئی جدید دُنیا کے لیے یہ غیرمعمولی بات ہے۔ بہت سی این جی اَو‘ز کی کارکردگی کا احوال ایسا ہی ہے؛ انھوں نے کاغذ پورے کردیے کہ ہم نے ’جاہل عورتوں‘ تک پیغام پہنچادیا ہے۔ ایسی این جی او‘ز بس دُکانیں ہیں۔ (یہ نہیں، کہ سب ’این جی اَوز کا احوال ایسا ہے۔ اکثر کارآمد ہیں)

آئیے پاکستانی فیمن ازم کے چھتے پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ فیمن ازم کی تحریک کا پس منظر کیا ہے، کن نے اس کے لیے کتنی قربانیاں دیں، یہ الگ مضمون ہے۔ انسانی حقوق پر جزوی اختلاف ہیں کہ انسان کے بنیادی حقوق کیا ہیں، لیکن اکثریت تسلیم کرتی ہے، کہ تمام انسانوں کے حقوق یک ساں ہیں؛ انسانی حقوق و شہری حقوق مثلا ان میں سے چند کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔ آزادی، اظہار رائے کی آزادی، انسان کے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خود مختاری، ووٹ کا حق، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، برابری کی بنیاد پر معاوضہ، پسند کی شادی کا حق، اولاد پیدا کرنے کا حق، جائداد رکھنے کا حق اور تعلیم کا حق، وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ انسانوں میں مرد عورت کی تخصیص نہیں؛ گویا انسانی حقوق ہی نسوانی حقوق ہیں، اس میں کچھ تخصیص ہے، تو ایسے ہی جیسے بچوں کے حقوق، مریضوں کے حقوق، بزرگوں کے حقوق۔

عورت اور مرد کی تقسیم کرتے ہمارے یہاں دو انتہائیں ہیں۔ ایک طرف وہ انتہا پسند ہیں، جو عورت اور مرد کی تقسیم کرتے، عورتوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ مقدس کتابوں سے حوالے لے آتے ہیں، اور دوسری طرف وہ انتہا پسند ہیں جو مغرب سے مثالیں لاتے ہیں، اور اصرار کرتے ہیں کہ بس انھی کو حتمی تسلیم کیا جائے۔ ان دو انتہاوں کے بیچ میں پاکستانی معاشرہ ہے، جو نہ مذہبی معاشرے کی تعریف پر پورا اترتا ہے، نہ مغربی معاشرے کی طرح کا ہے (اگر مغرب کو مذہب اور پاکستان کے متضاد رکھ کے سمجھا جائے)۔

میں مذہبی عالم نہیں، نا ہی ان علما یا دین کا ترجمان لیکن سامنے کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں، کہ اسلام میں عورت وراثت میں حصے دار ہے، حق مہر، نان نفقے کی حق دار ہے، بچے کی دودھ پلائی کا معاوضہ طلب کرسکتی ہے، لیکن ہمارے یہاں کے معاشرے میں مذہبی علما نے کبھی اس پیغام کو عام نہیں کیا، ناہی مسلمانان ہند و پاک ان فرائض کی ادائی میں مستعد ہیں۔ عورت نافرمانی کرے تو اسے ہلکی مار دینی ہے یا زیادہ اس کا بیان سننے میں آتا ہے۔ (نا ہی مرد، عورت پر ہاتھ اٹھانے کے لیے قران کی آیت کے حوالے کا محتاج پاتا ہے) عورت کی قران سے شادی کردی جائے، اس کی رضامندی کے بنا بیاہ دیا جائے، وراثت سے بے دخل کردیا جائے، تو اسلام خطرے میں پڑتا دکھائی نہیں دیتا، لیکن حقوق نسواں بل کی منظوری کا معاملہ ہو، تو علما کو یاد آ جاتا ہے، کہ یہ غیر اسلامی قانون ہے۔ ان کی طرف سے کہنے کو یہ کہا جاسکتا ہے، پاکستان میں عورت کو وراثت سے بے دخل کرنے کا قانون بھی تو نہیں ہے، لہاذا اس پر بات کرنے کے کیا معنی۔ ایسا ہی ہے تو گویا قانون سے مطلب ہے، عمل ہو نہ ہو، پروا نہیں۔

ایک غیر متعلقہ بات ہے، شاید متعلقہ لگے، آپ کی تیوریوں پر بل نہ پڑیں، اور لطیف بات سمجھیں، تو عرض کروں۔ کہیں یہ بحث چلی کہ ’اسلام تعلیمات میں لونڈی رکھنے کی اجازت ہے یا نہیں‘۔ گفت گو میں شریک ایک صاحب نے پاکستانی سماج کو مدنظر رکھتے خاصے کا جملہ کہا، ”ہم نے بیویوں ہی کو لونڈی بنا کر رکھا ہے، اتنے حقوق بھی نہیں دیے، جتنے لونڈی کے ہیں، تو ہمیں لونڈیاں رکھنے کی کیا ضرورت“؟

اب اُس دوسری انتہا کی خبر لیجیے؛ مغربی معاشروں میں women’s right movement اور feminist movement ان کے حالات کے تناظر میں ابھریں اور انھی کے سماجی و اخلاقی حالات کے تناظر میں حقوق نسواں کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ میں مغربی معاشرے کی خوبیوں کا معترف ہوں۔ مغرب سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے، لیکن ان کے قوانین ’جیسا ہے‘ کی بنیاد پر یہاں لاگو نہیں ہوتے اور اگر کر بھی دیے جائیں، تو پہلے وہ حالات پیدا کرنے ہوں گے۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں فیمن ازم کے زیادہ تر وکیل وہ ہیں، جو فیمنسٹ کم اور مذہب مخالف زیادہ ہیں۔ ان کی تان مذہب مخالفت پر ٹوٹتی ہے۔ (سب نہیں، اکثر کا احوال یہی ہے) مثالیں یہ دیں گے کہ پاکستان میں عورت کا وراثتی حصہ دبا لیا جاتا ہے، یا یہ کہ اسلام میں عورت کا وراثت میں نصف حصہ کیوں‌ ہے۔ وہ یہ بات جانتے نہیں یا جاننا نہیں چاہتے کہ feminism movement کے مطالبوں میں عورت کا وراثت میں حق شامل نہیں ہے، کیوں کہ مغرب میں وراثت وصیت کے مطابق منتقل ہوتی ہے، وصی جس کا حصہ جتنا مقرر کر جائے، اتنا ملتا ہے؛ چاہے تو کچھ بھی مقرر نہ کرے۔

پھر دیکھا گیا ہے، کہ جوش خطابت میں ایسے وکیل عورت کے مساوی حقوق کا نعرہ بلند کرتے، مرد کے حقوق کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، بعض اوقات تو یہ لگتا ہے، کہ (ہمارے یہا‌ں) فیمن ازم کا مطلب مرد کے حقوق کم کرنے کی تحریک ہے، یا مرد کے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔ ایسے میں کسی قضیے کے دوران کوئی ”مرد“ کا ذکر چھیڑ دے تو اس ’ذاکر‘ کو ”عورت کا دشمن“ قرار دیا جاتا ہے۔ کوڑے برسائے جاتے ہیں (محاورتہ). انتہا پسندی کی یہ بھی ایک قسم ہے۔

اب مذہب کو بھی ایک طرف رکھیے اور مغرب کی خوبیوں خامیوں کو بھی۔ عورت اپنی کفیل خود ہو، مرد کی محتاج نہ رہے، تو کَہ سکتی ہے، میں اپنا کماتی ہوں، تم اپنا کماتے ہو، اس لیے اپنے اپنے کام خود کرو۔ (ایسے خواتین ایسا کہنے میں حق بجانب ہوں گی) اور دوسری مثال یہ دیکھیں، شوہر کما کر لاتا ہے، اپنی کمائی سے گھر میں راشن ڈالتا ہے، یوٹیلٹی بل ادا کرتا ہے، بیوی گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے، وہ شوہر سے کہے، ’اپنا کھانا خود گرم کرو‘، تو؟۔۔ کہا جاتا ہے عورت آپ کی ملازمہ تو نہیں، تو پوچھا جائے مرد، عورت کا خادم کیسے ہوگیا، کہ کمائے، لائے اور آپ کھائیں؟ یہ انصاف ہے؟ ان نیک نام فیمنسٹ سے پوچھیے جنھیں میں نے انتہا پسندوں کی فہرست میں رکھا ہے، تو وہ کہیں گے، ’ہاں! تو اور کیا؛ یہی تو مطلوب ہے‘۔ یہ انتہا پسند ’بقلم خود‘ فیمن ازم کا ٹھٹھا اُڑاتے ہیں۔

ہمارے یہاں کتنی عورتیں ہیں جو خود کما کر لاتی ہیں، اور باپ، بھائی، یا شوہر کی محتاج نہ ہوں؟ (باپ کما کر لائے، تو کھانا گرم کردیں، شوہر کما کے نہیں لائے تو کھانا گرم نہیں کرو)۔ تو یہ معاملہ ابھی بحث طلب ہے، ”اپنا کھانا خود گرم کرو“، یہ ایسی این جی او‘ز کا نعرہ ہی ہے، جیسی این جی او کے لیے ہم نے کم تعلیم یافتہ یا ان پڑھ خواتین کو ’تعلیم‘ دینے کے لیے پرل کانٹینینٹل ہوٹل کے ہال میں وہ ’کھیل‘ پیش کیا تھا، جس میں سمجھایا گیا تھا، کہ ایک ’ٹاکی‘ کو بار بار استعمال مت کریں، اور مستند کمپنی کا سینٹری نیپکن خریدیں۔ دراصل اس طبقے کی خواتین وہاں تھیں ہی نہیں، جنھیں ’تعلیم‘ کیا جانا مقصود تھا۔ (ان این جی او‘ز کا نہایت احترام ہے، جو حقیقی معنوں میں عورت کے حقوق کی علم بردار ہیں)

شوہر کی کمائی پر بھروسا کرنے والی ایسی عورت ”ایسی فیمن ازم“ کا حوالہ دے، تو اسے خود کمانے پر غور کرنا ہوگا، ناقدین کی نظر میں نسائیت کی تحریک کا یہ ایک محرک ہے، کہ صنعت کار کو مرد کے ساتھ ساتھ مزدور کی صورت میں عورت کی بھی ضرورت ہے۔ (اگر یہی محرک ہے تو بھی میرا اعتراض نہیں ہے)

ہر سماج کی کئی پرتیں ہوتی ہیں، ہر سماج کا ایک مخصوص تانا بانا ہوتا ہے، کہیں سے کوئی بھی دھاگا یونھی یا ایک دم سے نہیں کھینچ لیا جاتا۔ بنتے بنتے ایسا سماج بن جائے، جہاں ’مغرب‘ کی طرح کے حالات ہوں، وہی سماجی و اخلاقی حالت بن جائیں تو مغربی قوانین کو اسی طرح نافذ کردیں۔

پس نوشت: کل ایک نیوز رپورٹ دیکھ رہا تھا، جس میں ہمارے یہاں خواتین کے ساتھ برتی جانے والی ”ناانصافی“ بیان کی جارہی تھی، کہ اس اسپتال میں مریض عورتوں کی نگہ داشت کے لیے مرد عملہ متعین ہے؛ پاکستانی سماج کو دیکھتے درست مطالبہ ہے کہ خواتین مریضوں کی نگہ داشت خواتین عملہ کرے۔ میں سوچنے لگا، اب تک کسی مرد نے ’مظلومیت‘ کی دہائی کیوں نہیں دی، کہ ہماری نگہ داشت کے لیے مرد متعین کیے جائیں۔

پس پس نوشت: یونانی روایت کے مطابق ’پینڈورا‘ ایک عورت کا نام تھا، جس کے پاس ایک box یا صندوق تھا، جسے کھولنے کی اجازت نہ تھی۔ پینڈورا باکس کھلتے ہی اُس میں سے غم الجھنیں، اور پریشانیاں آزاد ہو کر دُنیا میں پھیل گئیں۔ آدم و حوا کی داستان میں بھی کچھ ایسا تھا، کہ شجر ممنوع کا پھل کھانے سے روکا گیا تھا؛ آدم و حوا نے حکم عدولی کی اور انھیں زمین پر دے پھینکا گیا، تب سے نسل آدم دُکھ، پریشانی، بیماریوں، اُلجھنوں کا شکار ہے۔ بہ ہر حال ان میں سے کون سا قصہ سچا ہے، ہمیں نہیں معلوم؛ ہمیں ان مصیبتوں، دُکھوں، بیماریوں، الجھنوں کو خود ہی سلجھانا ہے۔

”ہم سب“ پہ ایسا مضمون ’پینڈورا باکس‘ کھولنے کے مترادف ہے، سو ادارے کی طرف سے میں ہی اعلان کرتا ہوں، کہ یہ خیالات صرف اور صرف میرے ہیں، ادارہ ان سے اختلاف کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran