سعادت یار خان رنگیں، ریختی اور “می ٹو”


جب سے ہم نے مرد الناس حضرات (عوام و خواص) کیلۓ”می ٹو” کمپین کے بینر تلے آنکھیں پھوڑنے کی مرضی والی دھمکی سنی ہے۔ تب سے مجھے بکر و زید کی “ضرب” گردان کے آثرات”می ٹو” کمپین پر اثر انداز دکھائی دے رہے ہیں۔ اورغالبا وہ دن دور نہیں۔ جب آنکھیں پھوڑنا ایک گردان، محاورہ اور مستقبل بعید میں ایک ضرب المثل (ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ کہ ہالی ووڈ کی ایک فرنگی نازنین نے ایک “”می ٹو” کمپین کی سنگ کو دریاۓ باطل مردانہ میں پھینکا تھا ۔ اور اس سے نازل ہو نے والی جنسی لہریں ہراساں ہراساں ایشیاء اور بحر ہند کے سنگم پہ واقع۔ ۔ ۔ ۔ ) کی حیثت اختیار کر لے گی۔ اوراہل زبان چاروناچار اس کو “قبول ہے” کہنے پر مجبو ر ہو جائیں گے۔ دوسری طرف “می ٹو” کمپین سےسعادت یار خان رنگیں کے”ریختی”صنف پہ سونامی پھیرنےکا خدشہ لگ رہا ہے۔ آپ نے غالباباباۓ ریختی سعادت یار خان رنگیں کے “ریختی” صنف میں کارنامے پڑھے ہوں گے۔ نہیں پڑھےہیں تو اور اچھی بات ہے کیوںکہ “پڑھے بھی تو حسرت اور نہ پڑھے تو بھی حسرت” والی بات ہے۔ لیجۓ جناب کے کارہاۓ نمایاں کی ہلکی سی جھلک اس وقت کے”می ٹو” کمپین کے زیر سایہ ببانگ دہل جناب کی زبانی دکھلا دیتے ہیں۔

شعر میں نے سنے ہیں رنگیں کے
نوج اس سے کسی کی لاگ لگے
چوچلے اس کے قتل کرتے ہیں
اس کی اس گفتگو کو آگ لگے

اگر آپ کی زوجہ محترمہ کے ڈانڈے حقوق نسواں کی تنظیموں سے نہیں ملتے۔ تو آپ بلاخوف و خطر سعادت یار خان رنگیں کی شاعری کاچسکا لے سکتےہیں(شاعری کی حد تک، واضح رہے) ۔ اور اگر ملتےہیں۔ تو بھائی چارے والا مشورہ یہی ہے۔ کہ ایسے واہیات مشغلوں پر چار حرف بھیج کر اپنی اللہ اللہ جاری رکھیں۔ امید قوی ہے۔ کہ دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔ کیوں کہ ریختی کی صنف جو آجکل یقینا نایاب ہے، کے بارے میں یہ کہنابےجا نہ ہوگا۔ “خواتین خصوصا حقوق نسواں والوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ ” کیوں کہ اس کو پڑھنے کے بعد سنسر، واھیات، “جام میرا توبہ شکن، تو بہ میری جام شکن، “عریاں، الہڑ بازی اور اس قبیل کے کئی مندرجات کے صحیح معنی سمجھ میں آتے ہیں۔ دوسری بنیادی وجہ یہ ہے۔ کہ جناب نازنینوں اور مہ جبینوں کے نگاہ التفات کے باوجود ناز نخرے آٹھانے سے باغی، خواتین کے بارے میں عجیب و غریب ملے جلےخیالات، اور ان کو “نگوڑی” کہنے سے باز نہیں آتے۔ آپ یقینا اسے مبالغہ آرائی، ریختی جیسی صنف کے موجد کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق اور ان کی کردارکشی سمجھتے ہیں۔ تو آئيں جناب کے ستم ڈھانے والےاشعار ملاحظہ فرمائیں۔

اے دلبر و دلبر یگانہ
اے فتنہ و فتنہ زمانہ
اے مایہ عیش و شادمانی
اے باعث لطف زندگانی
اے کاشف سر عشق بازی
اے کشتہ الفت مجازی

تیری رنگیںؔ سے کہیں آنکھ لڑی سچ کہہ دے
کچھ تو گھبرائی ہوئی پھرتی ہے اوسان گئی
یہ رنگین مردوا جو ہے کھڑا اس سے کوئی کہ دے
کہ میرا گر تجھے نہیں گھورنا منظور میلے میں

گھورنے سے مجھے ایک مفت مشورہ یاد آیا۔ اور میں تمام بھائیوں کو یہ نیک مشورہ دینے میں سب کی عافیت اور دنیا وآخرت سنورنے کی راہ دیکھتا ہوں۔ تو جناب آپ یوں تصور کرلیں کہ آپ میں گھورنےکی صلاحیت کا فقدان ہے یا بدرجہ اتم موجود ہی نہیں۔ اس خیال کو صبح، دوپھر، شام، رات اور فراغت کے لمحات میں ارتکاز کا ذریعہ بنا کرخوب ریاضت کریں۔ آپ یقین جانیۓ آپ گھورنے کے عمل سے یکسر نجات حاصل کرلیں گے۔ اس کی میں ضمانت دیتا ہوں۔ مزید برآں دنیا چونکہ جاۓ امکانات وعجائبات ہے۔ تو آپ مہ جبینوں سے راہ چلتے اس طرح کے کمنٹ سن سکتے ہیں۔ “بزدل کہیں کا۔ ہماری آنکھو ں سے آنکھیں تک نہیں ملا سکتا”۔ یار بے مروتی کی بھی حد ہوتی ہے ہمارے نئے فیشن کے برانڈڈ کپڑوں کی طرف نگاہ التفات بھی نہیں ڈالی”۔ دیکھ کڑوس کو، آنکھیں چارکرنا بھی نہيں آتا “۔ بہرحال اس طرح کمنٹس واقع ہونے کی ضمانت میں بالکل بھی نہیں دےسکتا۔ کہ یہ شاذونادر ہی پاس ہوتے ہیں۔ لیکن بھائی چارے والا مشورہ یہی ہے۔ کہ آپ گھورنے جیسا قبیح عمل آنا فانا چھوڑ دیں۔ نہیں تو آپ رونگٹے کھڑے کر دینے والی دھمکی”تمہاری آنکھ پھوڑوں یاچھوڑوں، میری مرضی” کو عملی جامہ پہنانے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔ اور اگر آپ صرف اس کو خالی خولی دھمکی سمجھتے ہیں۔ تو آپ غالبابدو یا احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں شاید!

گھورنے کے عمل، “می ٹو” کمپین اور آنکھ پھوڑنے والی دھمکی سے مجھے خود عینک پہننے پہ رشک آنے لگا ۔ آج پتہ چلا کہ کبھی بھی سنگیں حالات میں کسی ناکردہ گناہ کی پاداش میں عینک جان پرکھیل کر آنکھ بچاسکتی ہے۔ اب تو بوڑھے لوگوں کی عینکیں بھی مفت میں ناکردہ گناہ کی پاداش کی زد میں آسکتی ہیں۔ کیوںکہ غالبا ان کے آنکھ جھپکنے، ٹٹول ٹٹول کر چیک کرنے اور گھور کر دیکھنے کے عادات ریاضت سے بھی ختم نہيں ہو سکتے۔ وہ گھو ر کر نہیں دیکھیں گے تو غالبا اپنی بڈھی کو بھی پہچان نہیں پائیں گے۔ بہرحال اللہ ہی ان کا حامی و ناصر ہو آمیں۔ ہم اس سلسلے میں تعاون سے ہاتھ اٹھانے میں ہی اپنی بھلائی سمجھتے ہیں۔ کہ قیامت کی آمد آمدہے۔ اور ہر ایک کو اپنی فکر لگی ہوئی ہے۔

“می ٹو”کمپین کے رواں کارواں کی حالت بالکل مدرسےکے طلباء کے ہاتھ آئی گا‎ۓ جیسی ہے۔ جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ جنگل کی طرف بھاگتا ہے۔ گاۓ کی شامت آئی تو اس نے مدرسے کا رخ کر لیا۔ ابھی اس بیچاری نے سانس تک نہ لی تھی کہ طلباء نے سانس لینا محال کر دیا۔ لیجۓجناب دانت دیکھنےکی مہارت سے عمر کا اندازہ لگانےکیلۓ طلباء نے دھڑادھڑ گاۓ کے جبڑوں کا تیاپانچہ کرنا شروع کر دیا ۔ گاۓ بیچاری تنگ آگئی یا تھی ہی اللہ میاں کی گاۓ، کہ اب جوں ہی گاۓ کی طرف طلباء کے قدم اٹھتے، وہ خو د ہی تبسم فرما کے پورے کا پورا منہ کھول دیتی کہ لو جی کر لو خوب تسلی۔ تو جناب جیسے ہی “می ٹو” کےالفاظ نگاہ دید سے ہمکنار ہوتےہیں۔ سب کو اپنی ساتھ بیتے ناروا سلوک کی عکاسی کا خیال آتا ہے۔ اور منہ بے اختیار راز فاش کرنے کیلۓ کھل جاتا ہے۔ “می ٹو”۔

 “می ٹو” کمپین سے مجھے مرد و زن کے فاصلے مزید بڑھتے دکھائی دے رہےہیں۔ نیکی اور سادگی کی فراوانی اور غربت میں کمی کی لہر دکھائی دے رہی ہے۔ اور نتیجتا برانڈ کے تمام ستم ڈھانے والی ا‎شیاء (بناؤ سنگھار، جوتے، کپڑے، پرفیوم، سپرے وغیرہ)کےکاروبار دیوالیہ ہوتےنظر آرہے ہیں۔ کاروباردیوالیہ تو ہوں گے، جب تعریف کرنے والے ملنےسےنہیں ملیں گے ۔ کسی کو پاگل کتے نے کاٹا ہو گا، جس نے واہیات حرکتوں سے خوامخواہ “می ٹو” کمپین کے ہتھے چڑھ کر اپنی شامت لگانی ہو۔ یونیورسٹی کے دنوں میں روشنیوں کے شہر میں ایک بار ہماری بلکہ اقوام عالم مرد کی شامت کی قسمت جاگتے ہو ۓ ہمیں بزم حقوق نسواں لے چلی۔ وہاں کوئی کرمانی خاتون نے سب کی سب صلواتیں سنا تے ہوۓ جنس مرد کی درگت بنا کے ایسی کرم فرمائی کی۔ کہ یقینا بہت سو ں نے جنس تبدیل کرنے کا سنجیدگی سے سوچا ہوگا۔ بزم کے اختتام پر ہم راہ فرار اختیار کر نے کی تگ و دو میں تھے ۔ کہ ایک جوان کی ساتھ رواں دوشیزہ سے شکوہ اور کرمانی سے جرات اختلاف کی ہوشربا ندا سماعت سے ٹکرائی” آج تو اس خاتون نے میرے لۓ تمھارے جزبات کی رہی سہی کسر بھی پوری کر دی “۔

 “می ٹو” کمپین کی وجہ سے جاری وساری زن و مرد کی ہلکی پھلکی (فی الحال) نوک جھونک سے بے ساختہ پشتو کی اک کہاوت یاد آ‏ رہی ہے۔ کہ” گاؤں والے پاگل پہ ہنس رہے تھے اور وہ گاؤں والوں پہ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).