کیا سب کچھ صحیح ہے؟


معاملات اتنے سادہ نہیں جتنے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت عدلیہ اپنے جوبن پر ہے چیف جسٹس ثاقب نثار فل فارم میں ہیں حکمراں جماعت ن لیگ کے بارے میں سب کی متفقہ رائے تھی کہ وہ بڑے صوبے کی جماعت ہے عدلیہ کبھی اس جماعت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائے گی۔ مگر وہی ن لیگ اس وقت عدلیہ کے مکمل نرغے میں ہے۔ کبھی ن لیگ کے قائد تو کبھی ن لیگ کے وزراء یا حمایتی سب ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں نہ کوئی قائد رہا نہ منسٹر جناب۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ سنجیدہ حلقوں میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ عدلیہ اپنی حدود سے تجاوز کررہی ہے۔ ان حلقوں کا ماننا ہے کہ معزز چیف جسٹس کے ریمارکس اب ریمارکس کم اور دھمکیاں زیادہ لگنے لگے ہیں جبکہ ان کے فیصلے مخصوص ہوتے جارہے ہیں۔

انہی حلقوں کو مسلم لیگ نون عدلیہ کے غیض کا باقاعدہ نشانہ بنتی دکھائی دیتی ہے۔ کہیں اس تاثر کو صحیح سمجھا جارہا ہے تو کہیں ان فیصلوں پر تنقید ہورہی ہے۔ ایک جانب عدلیہ انتہائی پرزور تو دوسری جانب حکمراں جماعت کا اتحاد اور ووٹ کو عزت دو کا زور پکڑتا بیانیہ۔ ن لیگ کا اسٹانس ہے کہ عوام نے ووٹ دیا ججز کو حق نہیں کہ عوام کے ووٹ کی توہین کریں۔ اس کا اگر یہ مطلب ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ووٹ لے کر اقتدار میں آکر جو جی میں آئے کرے تو یہ اس کا حق ہے تو واقعی قابل گرفت اقدام ہے۔ مگر میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ہم پر کرپشن ثابت نہیں ہوئی کیس پاناما کا تھا اور کرپشن ثابت کرنے کے لئے نیب کی خدمات حاصل کرکے اقامہ یا بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نا اہل کردیا گیا۔

یہ واقعی عجیب بات ہے۔ اور پھر جب قانون سازی کے مجاز ادارے پارلیمنٹ نے نا اہلی کی مدت کا تعین ہی نہیں کیا تو میاں صاحب کو تاحیات نا اہل قرار دیا جانا بھی حیرت انگیز ہے قانونی ماہرین بھی یہ کہتے ہیں کہ نا اہلی کی معیاد کا تعین تو پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔ پارلیمنٹ کو ہی اختیار ہے کہ نا اہلی کی مدت کا تعین کرے تو سپریم کورٹ نے کس آئین کے تحت تاحیات نا اہل کیا؟ معاملات واقعی اتنے سادہ نہیں ہیں۔ ہو تو یہ بھی سکتا تھا کہ جے آئی ٹی کے ثبوت نیب کے حوالے کرنے اور نیب کی مکمل تحقیقات تک میاں نواز شریف کو مہلت دی جاتی اور نیب بقیہ تفتیش مکمل کرلیتی اگر واقعی الزامات صحیح ثابت ہوتے تو اسی بنا پر نا اہل کیا جاتا جے آئی ٹی کے سربراہ جو تحقیقات مکمل ہونے پرسپریم کورٹ میں ثبوتوں کے بڑے بڑے صندوق لائے تھے اب عدالت میں خواجہ حارث کے سامنے ایسے بیان دے رہے ہیں جس سے لگ رہا ہے کہ ثبوتوں کے وہ صندوق صرف عدلیہ کو مرعوب کرنے یا عوام اور اپوزیشن کو میاں صاحب کی بددیانتی کا یقین دلانے کے لئے تھے۔

ان صندوقوں کو دیکھ کر یہی گمان ہو رہا تھا کہ ساٹھ روز میں جے آئی ٹی نے دن رات ایک کرکے میاں صاحب اور ان کے بچوں کے خلاف دنیا بھر سے ثبوت اکھٹے کرلئے ہیں اور انہی ثبوتوں کی بنیاد پر نواز شریف نا اہل ہوں گے تمام پیسہ جو کرپشن کی بدولت کمایا گیا وہ سب واپس آجائے گا۔ مگر کھودا پہاڑ نکلا اقامہ۔ ابھی تک کچھ ثابت ہونا تو کجا ظاہر بھی نہیں ہوا۔ یہ صورتحال ووٹ کو عزت دو بیانیے کو مضبوط کرتی دکھائی دیتی ہے۔ سونے پہ سہاگہ سینٹ الیکشن۔ خانصاحب نے تو اپنے بیس ارکان کو سزا سنادی مگر اس عمل کے بعد کیا سینٹ الیکشن کو قبول کرلیا جائے؟ یقینا اس عمل سے سینٹ الیکشن سے لے کر چئیرمین سینٹ کا انتخاب تک مشکوک ہو چکا ہے۔ ابھی یہ معلوم ہونا باقی ہے کہ جن ارکان نے رشوت لی انہیں رشوت کس نے دی اور اس دھاندلی کے مقاصد کیا تھے۔

اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ تمام تر رشوت کی وجہ چئیرمین سینٹ بلوچستان سے منتخب کروانا تھا تو بھی رشوت لینے اور دینے والے کسی طرح صادق اور امین ہوسکتے ہیں۔ تو جناب محترم چیف جسٹس ایک سو موٹو آپ کا یہاں بھی منتظر ہے۔ اس سے قبل بلوچستان میں ہونے والی کارروائی مت بھولئے گا جس کی بنا پر سینٹ میں دھاندلی کی گئی۔ مگر اب کسی بھی سوموٹو ایکشن سے پہلے یہ بھی دیکھ لیجیے گا کہ ووٹ کو عزت دو کی صدا بہت بلند ہوتی جارہی ہے۔ چیف جسٹس صاحب آپ بار بار فرما چکے ہیں کہ میرے ہوتے کوئی مارشل لاء یا جیوڈیشل مارشل لا آپ کے معزز جج صاحبان کے ہوتے نہیں آسکتا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ سوموٹو نوٹس لیتے لیتے آپ خود ہی تنگ آجائیں یا تمام انتظامی امور خود بہ خود منتخب حکومت کی جگہ عدلیہ کےہی ذمہ داری بن جائیں۔

اگر یہی صورتحال رہی تو اگلے الیکشن تک ووٹر تو ہوں گے مگر آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کےشکار سیاستدان نہیں رہیں گے اور اگر کوئی رہا بھی تو صرف امیر جماعت اسلامی سراج الحق رہیں گے جن کے بارے کرپشن کیس کی سماعت کے دوران بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب نے کہاتھا کہ اگر باسٹھ تریسٹھ لاگو ہوجائے تو سراج الحق کے سوا تمام مدعی اور مدعی علیہان پارلیمان سے باہر ہوجائیں گے مگر انہی سراج الحق نے انکشاف کیا ہے کہ سینٹ الیکشن میں وزیر اعلیٰ کے پی کے نے انہیں فون کرکے سنجرانی صاحب کو ووٹ دینے کا۔ کہا اور یہ بھی کہا کہ اوپر سے کہا گیا ہے۔ تو صاحب ایک سوموٹو اس پر بھی ہونا تو چاہئیے تاکہ جو ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگا رہے ہیں ان کی تشفی ہوجائے اور آئندہ آنے والے الیکشن میں عوام واقعی ووٹ کو شاندار طریقے سے عزت دے اور اس کا سہرا بھی آپ کے اور معزز جج صاحبان کے سر سجے۔ ورنہ ہر کوئی یہ ہی کہے گا کہ واقعی معاملات اتنے سادہ نہیں تھے جتنے دکھائی دیتے تھے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).