کامیابی کا جنون



چاندنی رات ہے میں اپنے کمرے کی اوٹ میں موجود صحن میں کرسی پر بیٹھا ہوں۔ اس رات آسمان پر ستارے یوں غائب ہیں۔ جیسے آسمان پر کبھی ستاروں کا وجود تھا ہی نہیں۔ اچانک آسمان سے پانی کی بوندیں مجھے خود پر گرتے محسوس ہوتی ہیں۔ بارش سے میرا تعلق وہی جو ایک پیاسے شخص کا پانی سے، بھوکے کا کھانے سے اور رات کا تعلق اندھیرے سے یے۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ دنیا کیا ہے کیسی ہیں؟ خود سے پوچھتا ہوں پھر جواب میں آس پاس کے کرداروں کو دیکھتا ہوں تو اور ان سب کو دیکھ کر خود تک پہنچتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں۔
غریب کا کوئی پرسان حال نہیں تو امیر کو سکون میسر نہیں۔

ہر شخص کامیابی کی دوڑ میں لگا ہے خوب سے خوب تر کی کوشش میں ہے مگر نجانے ہم نے کامیابی کا حصول کسی کو ہرا کر جیت جانے میں ہی کیوں سمجھا ہے۔ گویا کامیابی کے لیے کسی کو ہرانا ضروری ہے۔ مگر میرا ذہن اس بات کو ماننے سے انکاری ہے۔ کسی کو ہرانا کامیابی ہر گز نہیں خود کو ہرانا اصل کامیابی ہے۔ مشکل حالات سے لڑنا، اپنے بارے میں منفی سوچ کو ختم کرنا اور اپنی کامیابی کے درمیان موجود رکاوٹوں کو ختم کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ یہ دنیا جیسی دکھتی یے ویسی ہے نہیں۔

اس دور میں سب سے مضبوط رشتہ اگر کوئی یے تو وہ مطلب یا مفاد کا رشتہ ہے۔ جس کی بنیاد مفاد کی اینٹوں پر قائم ہوتی ہے۔ مفاد ختم ہوتے ہی رشتہ ایسے ختم ہوجاتا ہے جیسے کبھی قائم ہی نہیں ہوا تھا۔

آنکھیں کبھی وہ منظر بھی دیکھتی ہیں اور کان کو وہ باتیں بھی سننے کو ملی جن کے بعد دل میں افسردگی اور ویرانی میں ڈوب گیا۔ آنکھوں نے سخت سردی میں ماں کو اندھیری رات میں سڑک کے کنارے کھلے آسمان تلے اپنے لخت جگر کو لے کر بھیک مانگتے دیکھا۔

زمین سے لے کر ضمیر تک کو بکتے دیکھا۔ ہمارے اردگرد کیا کیا ہوتا اور کیا کیا دکھتا ہے۔
سچ و حق کی آوازوں کا خون ہوتا ہے۔

اپنے ہی نوجوانوں کے ہاتھوں اپنی ہی بہنوں کی عصمت دری ہوتی ہے تو بیٹے اور بیٹی کی زبانوں سے ماں باپ کے دلوں کو چیر دینے والے لفظ بھی کانوں کو سننے کو ملتے ہیں۔
اساتذہ کے ساتھ غلاموں سے بدتر سلوک ہوتا ہے۔
اپنی ہی اولاد کو ذہنی تشدد کا شکار کرتے والدین بھی ہیں۔

مال و دولت کی فراوانی کے باوجود بچت کی ہوس میں اولاد کا پیٹ،جذبات کاٹتے لوگ بھی نظروں سے گزرے ہیں۔
اللہ کی رحمت کی پیدائش پر لوگ روتے دکھتے ہیں اور لڑکوں کی پیدائش کو خاندانی وجاہت کا ذریعہ تصور کرتے لوگ بھی اسی معاشرے میں نظر آئے۔
لاپتہ افراد کے حق میں آواز اٹھانے والے خود لاپتہ ہوجاتے ہیں۔

جھوٹ کے بیوپاری تو ملے مگر سچ کے کرداری تلاش کرنے سے بھی نہیں ملے۔
تعلیمی اداروں میں بچوں کا جنسی استحصال تو اساتذہ کا معاشی استحصال ہورہا ہے۔

عدالتوں سے با اثر مجرموں کو باعزت کیا جاتا بے اور بے اثر غریب کو نا انصافی کی سولی لٹکا دیا جاتا ہے۔
مسکراتے چہروں کے پیچھے آنسوؤں سے لبریز آنکھیں ملی تو آنسوؤں کے پیچھے چھپے چہروں کی قہقہے بھی دیکھے۔

قرآن کی قسموں پر مال کو بیچتے بھی سنا۔
مذہب کے نام پر تجارت ہوتی بھی دیکھی۔
ہر شخص کی زندگی کتاب کی ایک کہانی ہے اور ہر کہانی سبق آموز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).