کسان کہاں جائے؟


آسٹریلیا ہمارا ماما لگتا ہے یا اُسے کوئی مفاد حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان کے کسانوں کی اکثر و بیشتر مدد کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں آسٹریلیا نے پنجاب کے کسانوں کو زرعی اصلاحات کے لیے پانچ لاکھ ڈالر دیے تھے۔ حالانکہ یہ بات پُرانی ہوگئی لیکن اسے میں کیوں اس وقت کر رہاہوں۔ وہ اس لیے کہ آسٹریلیا کی معیشت کا سب سےبڑا زرِمبادلہ زراعت سے وابستہ ہے وہاں بھی کئی منفی معاملات چلتے ہوں گے، سیاسی و سماجی اختلافات بھی ہوتے ہیں لیکن وہاں کا کسان تمام بنیادی سہولیات کے ساتھ خوشحال زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ اکثر و بیشتر پاکستان میں زراعت کی اصلاحات کے لیے مدد کرتا رہا ہے ساتھ زرعی تعلیم کے حوالے سے پاکستانی طلباء کو مفت تعلیم اور سکالرشپ بھی مہیا کرتا ہے۔ اُسے سمجھ ہے کہ پاکستان زرعی لحاظ سے خوشحال بن سکتا ہے لیکن ہم ناعاقبت اندیشوں کو نہیں۔

آج بھی پاکستان اور خصوصاً پنجاب کا کسان زبوں حالی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ میرا چونکہ ذاتی بیک گراؤنڈ بھی اسی طبقے سے ہے اس لیے میرا رونا بھی بنتا ہے۔ حاضر حال صورتحال یہ ہے کہ کسان کو آلو اور گنے کے خرید و فروخت میں جس قدر ذلیل اور رسوا کیا گیا ہے وہ کسان سے پوچھیں یا کبھی بیوپاریوں اور مِلز پر مشاہدہ کرکے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہماری حکومت آج بھی اخبارات اور میڈیا میں بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے باور کراتی ہے کہ زراعت کے لیے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ تو کہاں ہے وہ انقلاب؟

یا صرف اخبارات اور میڈیا تک ہی محدود ہے۔ کسان ایک فصل سے گھاٹے کھا کر ہر سال نئی فصل بھی اُگانے کی کوشش کرتا ہے لیکن تجربہ اور سہولیات نہ ہونے پر مسلسل گھاٹا کھا کر خاموش ہوجاتا ہے۔

اب گندم کی فصل چونکہ فائنل پراسس میں ہے اور کاشتکاروں کی لائنیں گندم کے فوڈ سنٹر پر دیکھنے لائق ہوتی ہیں۔ گندم کا نرِخ گزشتہ سال کا ہی رکھا گیا ہے جو ایک ظلم سے کم نہیں جبکہ اس کے مقابلے تیل اور کھاد کی قیمتیں بڑھانے کے علاوہ مہنگائی کا طوفان بڑھ چکا ہے، جس کا اندازہ ڈالر کی قیمت سے لگایا جاسکتا ہے۔ گندم کا ریٹ وہی پُرانا جبکہ اشتہار کروڑوں روپے کے روزانہ خادم اعلیٰ کی تصویر کے ساتھ چھپتے ہیں۔ بدقسمتی یہ کہ میڈیا والوں کو ان اشتہارات سے غرض ہے اس لیے کاشتکاروں سے نہیں۔

کسانوں کے لیے ایک اور کارنامہ یہ سر انجام دیا گیا کہ کروڑوں روپے کے سمارٹ فونز کسانوں کو دیے گئے جن کا مقصد تھا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ناخواندہ کسان فصل کی بہتر پیداوار کے طریقوں سے فائدہ اُٹھا سکیں گے۔ اب کسان جدید طریقے دیکھیں یا انٹرنیٹ پر فیسبُک استعمال کریں وہ اُن کی مرضی۔ کروڑوں روپے کے موبائلز دینے کی بجائے کچھ نئے معیاری بیج منگوا کر دیے جاتے تو فائدہ ہوسکتا تھا۔

اس وقت خریف کی فصل کی تیاری ہو رہی ہے لیکن حکومت کی طرف سے قرضوں کے اعلانات کیے جا رہے ہیں، کوئی معیاری بیج کی فراہمی یا کسانوں کے لیے کھاد و دیگر زرعی اجناس کے حوالے سے کوئی فائدہ نہیں دیا جا رہا۔ چھ مہینے میں کون پسینہ لگانے کے بعد کاشتکار بیچارہ تھک ہار کر تیار ہونے والی فصل کو بیوپاریوں کے حوالے سستے بھاؤ دینے کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں رکھتا۔

گزشتہ سال تقریباً تیس لاکھ سے زائد روئی کی گانٹھیں بیرون ملک سے درآمد کی گئیں۔ پاکستان میں بھی روئی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا اس کا کسان کو اس لیے فائدہ نہیں ہوتا کہ کسان طبقے سے صرف روئی خرید کی جاتی ہے۔ اپٹما (آل پاکستان ٹیکسٹائل ملزایسوسی ایشن) اپنی ضرورتوں کے پیش نظر حکومت سے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوجاتی ہے اس کا فائدہ کسان کو نہیں ملتا۔ کپاس کے حوالے سے پنجاب بہترین مرکز ہے چند اضلاع تو صرف کاٹن زون قرار دیے گئے تھے جس میں ہمارا ضلع ڈیرہ غازی خان بھی ہے۔ لیکن گزشتہ سالوں میں کپاس کی پیداوار میں کمی، نہری پانی کی کمی، نِرخ بہتر نہ ہونے کی وجہ سے کاشتکاروں نے کپاس کی بجائے دوسری فصلیں لگائیں یا زمینیں بنجر رکھ کر رئیل اسٹیٹ کے دھندے کی نذر کر دیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ 2016ءکے مقابلے 2017ء میں کپاس کی پیداوار نصف ہوگئی تھی

ٹیکسٹائل ملز مالکان کو پاکستان کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے بیرون ملک سے درآمد شدہ کپاس سستی پڑتی ہے اس لیے وہ وہاں ترجیح دیتے ہیں۔ رواں سال بھی کسان طبقہ کپاس کی فصل میں عدم دلچسپی دکھا رہا، ذرا محکمہ زراعت کے افراد کسانوں کے پاس جا کر اُن کی وجہ ہی جان لیں۔

خریف کی فصل میں 2 لاکھ ٹن کھاد کی کمی کا امکان اس لیے ہے کہ پاکستان میں یوریا بنانے والے تین پلانٹس بند پڑے جبکہ حکومت سبسڈی کے اعلانات کا چرچہ کر رہی ہے۔ زرعی ماہرین اور پنجاب ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ حکومت کھاد درآمد کرکے اس پر سبسڈی دینے کے بجائے گیس کی بندش کے باعث تین یوریا کھاد بنانے والی فیکٹریوں کو سبسڈائز ایل این جی فراہم کر دے تو فیکٹریاں بحال ہونے سے سبسڈی کی رقم بھی بچ جائے گی ساتھ کھاد کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔

معاشی ماہرین کے مطابق کھاد کو درآمد کرنے بعد اس پر سبسڈی دینے کے بجائے اگر حکومت ایل این جی پر سبسڈی دے کر بند پلانٹس کھول دیتی ہے تو حکومت کے اس اقدام سے کئی افراد کو روزگار ملے گا اور معاشی سرگرمیا ں بھی بڑھیں گی جبکہ کھاد کی درآمدات کے لئے کثیر زرمبادلہ کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ساتھ کسان بیچارے چلا رہے ہیں کہ بیرون ملک سے کیمیکل زدہ دودھ درآمد کرنے کی بجائے اپنے ملک کے کسانوں کو سہولیات فراہم کریں۔ اور دودھ کی پیداوار بڑھا کر ایکسپورٹ کریں۔ اس کا طریقہ کار یہی ہے کہ دودھ کی درآمد پر ڈیوٹی بڑھا دی جائے تاکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں یہاں سے ہی دودھ خریدیں۔

پاکستان کا ایک اہم ایشو کالاباغ ڈیم ہے، اسے گزشتہ حکومت نے اپنی سیاست کے طفیل جڑ سے ہی اکھاڑ دیا، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اب موجودہ حکومت نے ان فائلوں پر لگی دھول کو بھی جھاڑنے کی کوشش نہیں کی، خیر سے پانچ سال حکومت بھی پورے کر لیے۔ پیپلزپارٹی کے لیے یہ سیاسی مسئلہ تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے کسانوں کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ کوئی اس خیال میں نہ رہے کہ کالاباغ ڈیم کا باب بند ہوگیا ہے، ایک دن کالا باغ ڈیم کی ضرورت ضرور پڑے گی۔ ورنہ جس طرح عالمی اداروں کی رپورٹیں آ رہی ہیں کہ پاکستان میں پانی کم ہوتا جا رہا ہے تو مجھے امید ہے پیپلزپارٹی نہیں تو اس کی باقیات ایک دن اس ڈیم بارے پھر کبھی سوچیں گی۔ پاکستان کے ماہرین زراعت چیخ چِلا رہے ہیں، کسان دہائیاں دے رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ پاکستان میں ماہرین اور ریسرچز کی کمی نہیں ہے، اس بارے دوبارہ کمیشن بنائیں تو یقیناً یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

حکومت اور متعلقہ اداروں نے تو اس بارے سنجیدگی نہیں دکھائی، لیکن چیف جسٹس صاحب کو اگر میاں برادران سے فرصت ہو تو ایک کمیشن کالا باغ ڈیم پر ہی بنا دیں یہ بھی پاکستان کی سلامتی اور محفوظ مستقبل کا مسئلہ ہے اگر سمجھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).