مدارس میں بچوں کو پڑھانے اور گدھے سدھانے میں فرق ہونا چاہیے


پتہ نہیں غالب نے کس رو میں کہا تھا لیکن تھی بڑے پتے کی بات۔
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

آج کل یہ شعر مجھ پر بہت صادق آ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگوں نے قسم کھا لی ہے کہ اپنی کسی خرابی کی اصلاح تو دور اس پر بات کرنے والے کو بھی نہیں بخشیں گے۔ مدارس میں اساتذہ کے طریقہ تادیب پر میں نے ویڈیو شیئر کی تو بہت سے احباب چڑھ دوڑے۔ شکوہ کرنے لگے کہ میری پوسٹ سے مدارس بدنام ہو سکتے ہیں، میں اسکولوں کی بات کیوں نہیں کرتا؟ وغیرہ وغیرہ۔
ہر تبصرہ کرنے والا گھوم پھر کر یہی شکوے دہراتا ہے اس لئے فرداً فرداً جواب دینے کی ہمت نہیں ہوتی۔ چلئے کچھ گذارشات سن لیجیے۔ آپ چاہیں تو انہیں میری طرف سے وضاحت بھی سمجھ سکتے ہیں۔

پہلی بات: یہ بہت ہی کمزور افراد کا شیوہ ہے کہ جب ان کی کسی خامی کی نشاندہی ہو تو وہ سامنے والے کو کوئی اور خامی دکھانے لگیں۔ صحت مند ذہن رکھنے والے خامیوں کی نشاندہی کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں اور اصلاح پر بھی غور کرتے ہیں۔ افسوس کہ مدارس کے حوالے سے یہ صحت مند رویہ اب تک ناپید ہے۔

دوسری بات: مدارس میں کسی خامی کو یہ کہہ کر جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا کہ اسکولوں میں بھی خرابیاں ہیں۔ اسکولوں میں اگر ناچ گانا ہونے لگے تو کیا مدارس والے اسے اپنے یہاں لہو و لعب کا جواز بنا سکتے ہیں۔ اس لئے یہ دلیل دینا کہ اگر اسکول میں پٹائی ہوتی ہے تو مدارس میں بھی ہو سکتی ہے، ذہنی دیوالیہ پن کا استدلال ہے۔

تیسری بات: مدارس والے امیتابھ بچن کے ڈائیلاگ پر کچھ زیادہ ہی عمل کرتے ہیں۔ ایک فلم میں جب امیتابھ جو فلم میں مجرم ہے اس کا پولیس والا بھائی اس سے جرائم کے اقرار نامہ پر دستخط مانگتا ہے تو وہ لمبی فہرست گنوا دیتا ہے کہ فلاں فلاں انسان کے دستخط لاؤ تب میں کروں گا۔ یہی بات مدارس والے اس شکل میں کہتے ہیں کہ جو کوئی ان پر تنقید کرے اس کے لئے لازم ہے کہ پہلے اسکولوں میں بھی کیڑے نکالے۔ یہ شکست خوردہ نفسیات سے نکلے جملے سے زیادہ کچھ نہیں۔

چوتھی بات: ”اسکول میں پٹائی ہوتی ہے اس لئے مدارس میں بھی ہو سکتی ہے“ کی منطق بیان کرنے والے کیا مدارس اور اسکولوں کو برابر مانتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر مدارس والوں کو روحانیت اور للہیت کا زعم ہے تو ان کے عمل میں کچھ تو امتیاز ہونا چاہیے۔

پانچوی بات: یہ بہت جاہلانہ تاویل ہے کہ استاد مار کر ہی تو تعلیم دے گا۔ جب بھی کوئی استاذ طالب علم کی پٹائی کرتا ہے، اس وقت اپنے عمل سے یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ وہ پڑھانا نہیں جانتا۔ مار مار کر تو گدھے سدھائے جاتے ہیں انسانوں کی تدریس کا عمل ذرا مختلف ہے۔

چھٹی بات: اتنی اندھی عقیدت اچھی نہیں کہ آپ خود کو ہر اصلاح سے مبرامان لیں۔ ہمارے مدارس میں بہت سی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ریت میں مونڈی گھسا کر حقیقت سے آنکھیں چرا لینا مسئلہ کا حل نہیں۔

آخری بات: اگر یہ جاننا ہو کہ تعلیم کیسے دی جاتی ہے تو اپنے آس پاس کسی اچھے کانوینٹ اسکول ہو آئیے۔ پتہ چل جائے گا کہ گدھے سدھانے اور انسان بنانے میں کیا فرق ہے؟

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah