آج آپ کونسا نیا اسکینڈل لائے ہیں؟


گزشتہ کالم کی آخری سطر میں قارئین سے ان الفاظ میں وعدہ کیا تھا ’’کرپشن کی لوک داستانیں کیسے جنم لیتی ہیں، فروغ پاتی ہیںاور کس طریق، معاشی ترقی کا راستہ روکتی ہیں؟ اس کا ذکر آئندہ کالم میں کیا جائے گا۔ ‘‘ آج لکھنے بیٹھا تو سامنے ٹیلی وژن پر حالات حاضرہ کا تجزیاتی پروگرام شروع ہو رہا تھا۔ کچھ ماہرین اپنے چہرے پر علم و حکمت کی سنجیدگی طاری کئے نظر آئے۔ ایک خوش شکل لڑکی، خوشگوار مسکراہٹ سے اُن کا استقبال کر رہی تھی۔ پھر اُس نو عمر اینکر نے اندازِ دلرُبائی سے اٹھلا کر اپنے مہمانوں سے پوچھا ’’آج آپ ہمارے ناظرین کے لئے کونسا نیا اسکینڈل لائے ہیں؟‘‘

ہمارے ایک راست باز صحافی دوست شکوہ کرتے ہیں ’’ کرپشن کے لذیذ اسکینڈل کے لئے عوام کی بھوک ختم ہی نہیں ہوتی۔ اسکینڈل سچا ہو یا جھوٹا، غلط ہو یا صحیح، ٹیلی وژن کی ریٹنگ بڑھا دیتا ہے۔ اسی لئے ہر صحافی نت نئے اسکینڈل کی تلاش میں میدان سیاست کی خاک چھانتا رہتا ہے۔ مالک توقع لگائے رہتے ہیں مگر ہم ہر روز ایک نیا اسکینڈل کہاں سے لائیں؟‘‘

پاکستانی عوام سے شکوہ بجا مگر اِس رویے کی تشکیل ایک دن میں نہیں ہوئی۔ اِس میں ہماری سیاست اور میڈیا کا تاریخی کردار ہے۔ رشوت اور بدعنوانی پر مبنی لوک داستانوں کی وبا، ملک کے وجود میں آتے ہی پھیل گئی۔ بدعنوانی کےالزامات سے سیاست دانوں کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دیا جاتا۔ سزا کسی کو نہ ملتی اور ضرورت پڑنے پر مقدمے ختم کر کے اُنہی سیاست دانوں کو راتوں رات وزارت یا کسی صوبے کی وزارت اعلیٰ سونپ دی جاتی۔ کسی کو ان واقعات کی تفصیل میں جانے کا شوق ہو تو ون یونٹ کی اسکیم کس طرح منظور ہوئی، اِس بارے میں تحقیق کر لے۔

ایوب خان نے مارشل لاء کے تحت فوجی عدالتیں قائم کیں۔ چیدہ چیدہ سیاست دانوں کے خلاف، فردِ جرم پڑھنے کے بعد ایوب خان بہت مایوس ہوئے۔ بقول قدرت اللہ شہاب اُنہوں نے کہا ’’بس اتنا ہی‘‘ آخر کار سیاست دانوں کو فوجی عدالتوں کا خوف دلایا گیا۔ اُنہیں رضاکارانہ طور پر محدود مدت کے لئے سیاسی عمل سے علیحدگی کا محفوظ راستہ دیا گیا۔ الزام، الزام ہی رہے۔

بھٹو کی حکومت ختم ہونے پر کرپشن اور بدعنوانی کا، (White Paper)قرطاس ابیض شائع ہوا۔ آج کسی کو یاد بھی نہیں کہ بھٹو پر الزام کیا تھا۔ کچھ سال گزرے تو محمد خان جونیجو کی مسلم لیگی حکومت کو چلتا کیا گیا۔ اُس پر بھی رشوت اور بدعنوانی کی فردِ جرم بہت طویل تھی۔ کسی کو بھی علم نہیں کہ اُس صاف ستھرے سیاست دان کا جرم کیا تھا۔

1990ء میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومت پر بھی الزامات لگے۔ ہر دفعہ ٹیلی وژن پر چارج شیٹ سنائی گئی۔ حکومتیں بدلتی رہیں۔ سیاست کے چہرے پر کالک ملی گئی۔ بدعنوانی کے قصے عام ہوئے مگر عوام نے کسی کو سزا ملتے نہ دیکھی۔ لوگوں کو تاثر ملا کہ طاقتور کے سامنے قانون بے بس ہے۔ عدم تحفظ کا یہی احساس معاشرے میں دراڑیں ڈال رہا ہے۔

کرپشن کی لوک داستانیں کیسے فروغ پاتی ہیں۔ وضاحت کے لئے ایک ذاتی واقعہ پیش خدمت ہے۔ 1971ء میں بنگالیوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادیں، کابینہ ڈویژن میں ایک ٹرسٹ کے پاس ہیں۔ کئی دہائیوں سے اُن پر لوگ قابض تھے۔ عدالت نے حکم امتناع دیا ہوا تھا۔ میں اُن دنوں سیکرٹری کابینہ تھا۔ کوشش کر کے حکم امتناع خارج کروایا۔ فیصلہ کیا کہ اِن جائیدادوں کو جہاں ہیں جیسے ہیں کے طور پر نیلام کر دیا جائے۔ قابضین پریشان ہو گئے۔ اُنہوں نے تمام اخبارات اور ٹیلی وژن کو گمراہ کیا۔ الزام لگایا کہ حکومت قیمتی جائیدادوں کو اونے پونے داموں بیچ رہی ہے۔

صحافیوں کے ٹیلی فون آئے۔ اُنہیں تفصیل سے وضاحت دی مگر گھر آئے اسکینڈل کو نظرانداز کرنا کفرانِ نعمت ٹھہرا۔ انگریزی اخبارات میں (Loot sale of Govt Property) اور اردو اخبارات میں ’’حکومتی املاک کی لوٹ سیل‘‘ کے عنوان سے شہ سرخیوں نے جگہ پائی۔ صبح کی خبر، شام کو ٹیلی وژن میں تجزیہ کاروں کے ہتھے چڑھی اور اگلے روز کالم نگاروں نے اِسے موضوع بحث بنایا۔

الزام لگا کہ حکومت اپنے من پسند لوگوں کو قیمتی املاک سے نوازنا چاہتی ہے۔ حکومتی وضاحت قبول نہ ہوئی۔ بدعنوانی کی ایک اور لوک داستان زبان زدِ عام ہوئی۔ نیلام کا دن آیا تو میڈیا میں اِس ’’اسکینڈل ‘‘ کے بے نقاب ہونے پر کسی کو بولی دینے کی ہمت نہ ہوئی۔ یہ خبر اسکینڈل کے حق میں نہ تھی، سو نظر انداز ہوئی۔ شاید آج بھی وہ جائیدادیں، ناجائز قابضین کے تصرف میں ہیں۔

کرپشن کی لوک داستانوں کے ذریعے اجتماعی سوچ میں سرایت ہونے والی منفی تبدیلی ، ملکی معیشت کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے زمین کے نرخ پر اختلاف ہوا۔ دیا میر کے دُور افتادہ مقام پر زمین کے مالکان کی کمیٹی سے بات ہو رہی تھی۔ یہ علاقہ انتہائی پسماندہ ہے اور شرح خواندگی بہت کم۔ مگر لالچ کے تحت جو اضافہ طلب کیا جارہا تھا، اُس سے زمین کے معاوضے میں اربوں کا اضافہ ہو جاتا۔

ایک قاری صاحب مالکان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اُنہوں نے مطالبے کے حق میں مثال دیتے ہوئے کہا ’’جناب! وفاقی حکومت کے لئے چند ارب دینا کیا مشکل ہے۔ وہاں تو ایک شخص، بیاسی ارب روپے لے کر دوبئی بھاگ گیا ہے۔‘‘ قارئین ذہن پر زور دیں تو یاد آ جائے گا۔2011-12ء میں بیاسی ارب کی کرپشن کے حوالے سے ایک شخص کا نام ہر وقت میڈیا پر چھایا رہتا تھا۔

اُسے دوبئی سے واپس لایا گیا۔ تمام ٹیلی وژن چینلز نے اُس کی گرفتاری کے مناظر براہِ راست ناظرین تک پہنچائے۔ میں نام نہیں لے رہا کہ شاید کیس ابھی زیر سماعت ہو۔ کئی برس سے اِس اسکینڈل کا کوئی ذکر نہیں ہورہا، مگر عوامی سوچ کو جو نقصان پہنچا اُس کا ازالہ ممکن نہیں ۔

نوبل انعام یافتہ ، گنار میورڈل نے ہمارے خطے میں کرپشن کی داستانوں کے مضر اثرات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:

“The folklore of corruption then becomes itself damaging for it can give exaggerated impression of the prevalence of corruption. People feel they live in a climate of corruption and they get corrupted themselves. The man in the street says to himself, well if every body seems corrupt, why should not I be corrupt?” ’’ کرپشن کی لوک داستانیں اس لئے نقصان دہ ہیں کہ معاشرے میں بدعنوانی کی انتہا کا عمومی تاثر قائم ہوتا ہے۔ ہر طرف بدعنوانی سے رچے ماحول کا خیال ، عوام کے ذہن کو کرپٹ کرتا ہے۔گلی میں چلتا ہوا عام شخص، اپنے آپ سے کہتا ہے اگر ہر شخص کرپشن کر رہا ہے تو میں کیوں پیچھے رہوں۔‘‘

بین الاقوامی ادارے ہمیں باور کرواتے ہیں کہ ہندوستان میں کرپشن ہمارے ملک سے زیادہ ہے۔ مگر ہمارے ہاں کرپشن کے قصے ، سیاسی ماحول پر چھائے رہتے ہیں۔ معاشرے کی اخلاقی اقدار کا ڈھانچہ آہستہ آہستہ کرپشن کی لوک داستانوں کے تیزاب میں پگھل رہا ہے ۔ اِس کے باوجود ٹیلی وژن اینکر صحافیوں سے پوچھتے ہیں۔ ’’آج آپ ہمارے ناظرین کے لئے کونسا نیا اسکینڈل لائے ہیں؟‘‘

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood