می ٹو وائرس کا میشا شفیع پر حملہ


دو ماہ قبل میری ایک تحریر“ می ٹو وائرس کا حرم پاک پر حملہ“ کے نام سے ہم سب پہ شایع ہوی، میری وہ تحریر می ٹو کے خلاف تھی۔ اس مختصر سے بلاگ پر اس قدر ذاتی قسم کی تنقید آئی کہ یوں محسوس ہوا اگر ان تمام لوگوں کا بس چلے تو کم از کم ایک، ایک تماچہ تو سب ضرور مارتے۔ یا جیسے اراکان حج میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں اس طرح میرے اوپر کنکریاں مارتے، کیونکہ میں نے فیشن کے خلا ف بات کی یا شاید ہمارے ملک کی نام نہاد تعلیم یافتہ کلاس صرف وہ کام کرکے خوشی محسوس کرتی ہے جو ٹرینڈ ہو۔ وہ بالوں کے رنگ اور کٹنگ سے لے کے لباس، خوراک اور زندگی کے ہر کونے میں پھیل جاتی ہے، اس کا تعلق کسی لذت یا آسایش سے بھی نہیں، نہ ہی اس ٹرینڈ کو اپنانے سے کوئی خاص فایدہ نصیب ہوتا ہے، مگر کرنا ہے اس لیے کیونکہ کہ فیشن ہے۔

جس طرح متحدہ عرب امارات میں بلیک کافی اس لیے پی جاتی ہے کیونکہ کہ فیشن ہے، وہ اس طرح یہ ثابت کرنے پے لگے ہوئے ہیں کہ وہ اب ماڈرن ہو چکے ہیں۔ اس کا ذائقہ سے کچھ لینا دینا نہیں۔

پاکستان کی ماڈرن خواتین بھی عرب امارات کے شیخوں سے کم نہیں، اگراکسپریس ٹریبیون کا اتوار کا پرچہ دیکھیں تو پاکستانی ماڈرن خواتین کے دماغ سے فارغ ہونے کا ثبوت مل جائے گا۔ موٹی، عمر رسیدہ، جوان بے ڈول، یعنی ہر قسم اور عمر کی عورت ایک انداز کے بال، ایک انداز کے لباس میں منہ ٹیڑہا کر کے چملاتی نظر آتی ہیں۔ ان تمام خواتین کو صرف فیشن زدہ نظر آنا ہے، اس کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ کسی حد تک بھی جا سکتی ہیں۔

میری ایک ہم جماعت نے ایک روز مجھ سے پوچھا کہ تم نے جنید کے مڈ سمر کلکشن سے کتنی شاپنگ کی؟
میں نے جواب میں کہا ابھی تو مارکیٹ جانا نہیں ہوا، امی کے ساتھ جاؤں گی۔
تو میری ہم جماعت نے میری طرف حیرت سے دیکھا اور پوچھا امی کے ساتھ؟
ہاں تو!؟
کوی ایڈیٹ پکڑو اور جاؤ
وہ کہاں سے ملتا ہے؟

ارے یار اپنی کلاس بھری پڑی ہے، ان گدھوں سے، ان میں سے کسی کو پکڑ کے جاؤ جا کے دس بارہ جوڑے لے آؤ۔

گویا فیشن زدہ نظر آنے کے لئے کچھ بھی کر جانا کوی حیثیت نہیں رکھتا، بارٹر میں جوڑے جو مل رہے ہیں، میری ہم جماعت نہ ہی ضرورت مند تھی نہ ہی غریب اور نہ ہی جاہل یا کم تعلیم یافتہ، ایم فل میں داخلے کے لئے سولہ سالہ ڈگری لازمی ہے، اور وہ کراچی کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتی ہے۔ مختصراً یہ کہ آج کی پاکستانی عورت کا سب سے بڑامسئلہ فیشن اور ٹرینڈز ہیں۔

چند روز قبل میشا شفیع نے سوشل میڈیا پے اپنی سستی مشہوری کے لیے می ٹو کی چھتری کا استعمال کیا، تو اب وہ ایک عام خاتون ہوں، میشا شفیع اور ان کے بعد مومنہ مستحسن سب ہی میری ہم جماعت کی طرح گدھوں کی شکاری ہیں۔

جو پہلے ان گدھوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں، جب بارٹر سے دونوں بور ہو جاتے ہیں اور دونوں میں سے کسی ایک کو کوئی دوسرا مل جاتا ہے تو نیک بیبیوں کی طرح ماتم کرتی نظر آتی ہیں، کہ میرے جیسی گھریلو بال بچے دار لڑکی کو اس موے لفنگے نے چٹکی کاٹی پھر آنکھ بھی ماری، اور پھر جیسے مجالس میں سب ایک ساتھ سینے پے ہاتھ مار کے بین کرتے ہیں ویسے کہیں سے ہمنوائی کرنے والے جمع ہو جاتے ہیں۔

اور ایک ساتھ شور مچانے میں مصروف ہو جاتے ہیں، گزشتہ رات میں نے علی ظفر کے خلاف جاری مہم میں ایک اخبار میں پڑھا کے مومنہ مستحسن، ایک فین خاتون جو کہ بلاگر بھی ہیں اور ان کے علاؤہ دو چار اور خواتین بھی می ٹو وائرس سے متاثر ہوکر ماتمی جلوس کی صورت نعرہ لگاتی سوشل میڈیا پے کود پڑی پڑی ہیں۔

اب اگر اب تمام می ٹو سے متاثرہ خواتین کا بس چلے تو ایک ایک تماچہ تو کم از کم علی ظفر کے منہ پر لگائیں۔ یا سب پھر سب یکجا ہو کے کنکر جمع کریں اور شیطان پہ کنکریاں برسائیں۔

نوٹ! ایڈیٹ تمام نیک قاریین کے لیے لکھا گیا ہے میری ہم جماعت نے ”چ***یا ” کہا تھا۔

می ٹو وائرس کا حرم پاک پر حملہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).